۲۵ آذر ۱۴۰۳ |۱۳ جمادی‌الثانی ۱۴۴۶ | Dec 15, 2024
News ID: 397247
12 مارچ 2024 - 12:57
ماه رمضان

حوزہ/ صرف روزہ رکھ لینا کمال نہیں ہے بلکہ وہ روحانی تبدیلی ہمارے اندر آنی چاہیئے کہ جو اللہ اس مہینے کی برکت سے چاہتا ہے، کمال اور امتیاز اس بات پر ہے کہ ماہِ رمضان گزر جانے کے بعد ہم تبدیل ہوے یا نہیں، اگر تبدیلی آئی تو ہم نے اس ماہ سے حقیقی استفادہ حاصل کیا اور اگر کوئی تبدیلی نہیں آئی تو ہمیں اپنے نفس جا جائزہ لینا چاہیے.

تحریر : مولانا جاوید حیدر زیدی زیدپوری

حوزہ نیوز ایجنسی | الحمد اللہ ہم سب کی زندگی میں ایک بار پھر رحمتوں، برکتوں اور مغفرت کا مہینہ یعنی ماہ رمضان المبارک آگیا، اس مبارک ماہ کا آغاز در حقیقت تمام مسلمانوں کے لئے پیغامِ بہاراں و مسرت ہے۔ لہذا اس مبارک ماہ کی مبارک باد تمام قارئین کی خدمتِ اقدس میں پیش کرتے ہیں- اور اس مہینے کی برکتوں سے زیادہ سے زیادہ مستفیض ہونے کی ضرورت ہے۔

صرف روزہ رکھ لینا کمال نہیں ہے بلکہ وہ روحانی تبدیلی ہمارے اندر آنی چاہیئے کہ جو اللہ اس مہینے کی برکت سے چاہتا ہے، کمال اور امتیاز اس بات پر ہے کہ ماہِ رمضان گزر جانے کے بعد ہم تبدیل ہوے یا نہیں، اگر تبدیلی آئی تو ہم نے اس ماہ سے حقیقی استفادہ حاصل کیا اور اگر کوئی تبدیلی نہیں آئی تو ہمیں اپنے نفس جا جائزہ لینا چاہیے.

یہ ضیافت الہی کا مہینہ ہے، یہ اپنے گناہوں کو بخشوانے کا مہینہ ہے، یہ اللہ کی بارگاہ میں استغفار کا مہینہ ہے، اس مہینے میں مومنین اور وہی افراد ضیافت پروردگار کے دسترخوان پر بیٹھنے کا شرف حاصل کر پاتے ہیں جو اس مہمانی کے قابل ہیں۔ یہ اللہ تعالی کے دسترخوان کرم سے مختلف دسترخوان ہے۔ اللہ تعالی کا عمومی دسترخوان لطف و کرم تمام انسانوں ہی نہیں بلکہ تمام مخلوقات کے لئے بچھا ہوا ہے اور سب کے سب اس سے بہرہ مند ہو رہے ہیں۔ یہ (ماہ مبارک رمضان میں بچھنے والا) ضیافت الہی کا دسترخوان خاصان خدا سے مخصوص ہے۔ ماہ رمضان کے سلسلے میں سب سے بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ انسان ایسے بے شمار علل و اسباب میں گھرا ہوا ہے جو اسے ذکر الہی سے غافل اور راہ پروردگار سے منحرف کر دیتے ہیں۔ گوناگوں خواہشیں اور جذبات اسے پستی و تنزلی کی جانب دھکیلتے ہیں۔ ماہ مبارک رمضان کی آمد پر اس انسان کو ایک موقع ملتا ہے کہ اپنی روح اور پاکیزہ باطن کوجو فطری اور قدرتی طور پر کمال و تکامل کی جانب مائل ہوتا ہے، بلندیوں کی سمت لے جائے، قرب الہی حاصل کرے اور اخلاق حسنہ سے خود کو آراستہ کر لے۔ تو ماہ مبارک رمضان انسان کے لئے خود سازی اور نفس کی تعمیر نو کا مہینہ اور پروردگار سے مانوس اور قریب ہونے کے لئے سازگار موسم بہار ہے۔

ماہ مبارک رمضان کی برکتیں ان افراد سے شروع ہوتی ہیں جو اس مبارک مہینے میں اللہ تعالی کا مہمان ہونا چاہتے ہیں۔ یہ برکتیں ان مومنین کے قلوب سے شروع ہوتی ہیں۔ اس مہینے کی برکتوں کی برسات سب سے پہلے مومنین، روزہ داروں اور اس مہینے کی مقدس فضا میں قدم رکھنے والوں پر ہوتی ہے۔ ایک طرف اس مہینے کے روزے، دوسری طرف اس با برکت مہینے میں تلاوتِ قرآن اور اس کے علاوہ اس مہینے کی مخصوص دعائيں انسان کے نفس کو پاکیزہ اور اس کے باطن کو طاہر بنا دیتی ہیں۔ ہر سال کا ماہ رمضان بہشت کے ایک ٹکڑے کی حیثیت سے ہماری مادی دنیا کے تپتے صحرا میں اتار دیا جاتا ہے اور ہم اس مبارک مہینے میں ضیافت پروردگار کے دسترخوان پر بیٹھ کر جنت کے موسم بہاراں سے آشنا اور لطف اندوز ہونے کا موقع پا جاتے ہیں۔ بعض افراد اس مہینے کے تیس دنوں میں جنت کی سیر کرتے ہیں اور بعض خوش نصیب تو اس ایک مہینے کی برکت سے پورے سال وادی جنت میں گھومنے پھرنے کا بندو بست کر لیتے ہیں جبکہ بعض، اس کی برکتوں سے پوری عمر جنت کا لطف اٹھاتے ہوئے گزارتے ہیں۔ اس کے بر عکس بعض افراد ایسے بھی ہیں جو آنکھیں بند کئے اور کانوں میں تیل ڈالے اس مہینے کے نزدیک سے گزر جاتے ہیں اور اس کی برکتوں کو ایک نظر دیکھنے کی بھی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ یہ بڑے افسوس کا مقام اور ان کے لئے بہت بڑا خسارہ ہے۔ جو شخص ماہ مبارک رمضان کی برکت سے ھوی و ہوس اور نفسانی خواہشات کو قابو میں کرنے میں کامیاب ہو گیا اس نے در حقیقت بہت بڑی کامیابی حاصل کی ہے اور اسے چاہئے کہ اس کی دل و جان سے حفاظت کرے۔ جو شخص نفسانی خواہشات اور ہوسرانی سے پریشان ہے اس مبارک مہینے میں اپنی ان خواہشات پر غلبہ حاصل کر سکتا ہے۔ انسان کی تمام بد بختیوں کی جڑ، نفسانی خواہشات کی پیروی اور ان کا اسیر ہو جانا ہے۔ جو بھی ظلم اور نا انصافی ہوتی ہے، جتنے فریب اور دھوکے دئے جاتے ہیں، تمام ظالمانہ جنگیں، بد عنوان حکومتیں یہ ساری کی ساری برائیاں نفسانی خواہشات کی پیروی کا نتیجہ ہے۔ اگر انسان اپنے نفس پر غالب آ جائے تو اسے نجات حاصل ہو جائے گی اور اس کے لئے بہترین موقع ماہ مبارک رمضان ہے۔ بنابریں سب سے اہم مسئلہ گناہوں سے پرہیز کا ہے، ہمیں چاہئے کہ اس مہینے میں تہذیب نفس کریں اور گناہوں سے دور رہنے کی کوشش اور مشق کریں۔ اگر ہم نے خود کو گناہوں سے دور کر لیا تو عالم ملکوت میں ہماری معنوی پرواز کے لئے فضا ہموار ہو جائے گی اور انسان معنوی سفر کرتے ہوئے وہ راستہ طے کرے گا جو اس کے لئے معین کیا گیا ہے لیکن اگر اس کی پشت پر گناہوں کی سنگینی باقی رہی تو یہ چیز ممکن نہ ہوگی۔ ماہ مبارک رمضان گناہوں سے دور ہونے کا بہترین موقع ہے۔روزہ جسے الہی فریضہ کہا جاتا ہے در حقیقت ایک الہی نعمت اور تحفہ ہے۔ ان لوگوں کے لئے ایک سنہری موقع ہے جو روزہ رکھنے کی توفیق حاصل کرتے ہیں۔ البتہ اس کی اپنی سختیاں اور صعوبتیں بھی ہیں۔ جتنے بھی با برکت، مفید اور اہم اعمال ہیں ان میں دشواریاں ہوتی ہیں۔ انسان دشواریوں کا سامنا کئے بغیر کسی منزل پر نہیں پہنچ سکتا۔ روزہ رکھنے میں جو سختی برداشت کرنا ہوتی ہے وہ اس جزا اور ثمرے کے مقابلے میں ہیچ ہے جو روزہ رکھنے کے نتیجے میں انسان کو ملتا ہے۔

روزے کے تین (٣) مراحل ذکر کئے گئے ہیں اور یہ تینوں مراحل اپنے مخصوصی فوائد اور ثمرات کے حامل ہیں۔ سب سے پہلا مرحلہ، روزہ کا یہی عمومی مرحلہ ہے، یعنی کھانے پینے اور دیگر مبطلات روزہ سے پرہیز کرنا۔ اگر ہمارے روزے کا لب لباب انہی مبطلات روزہ سے پرہیز ہے تب بھی اس کی بڑی اہمیت و قیمت اور بڑے فوائد ہیں۔ اس سے ہمارا امتحان بھی ہو جاتا ہے اور ہمیں کچھ سبق بھی ملتا ہے۔ تو یہ روزہ درس بھی اور زندگی کے لئے امتحان بھی۔ ساتھ ہی یہ مشق اور ورزش بھی ہے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ “لیستوی بہ الغنی و الفقیر” اللہ تعالی نے روزہ اس لئے واجب کیا کہ ان مخصوص ایام میں مخصوص اوقات کے دوران غنی و فقیر برابر ہو جائیں۔ جو افراد تہی دست اور غریب ہیں وہ ہر وہ چیز نہیں حاصل کر سکتے ہیں جو ان کی خواہش ہوتی ہے لیکن غنی و دولتمند انسان کا جب جو کھانے اور پہننے کا دل کرتا ہے اس کے لئے وہ چیز فراہم رہتی ہے۔ چونکہ امیر انسان کی ہر خواہش فوراً پوری ہو جاتی ہے اس لئے اسے تہی دست اور غریب کا حال نہیں معلوم ہو پاتا لیکن روزہ رکھنے کی صورت میں سب یکساں اور مساوی ہو جاتے ہیں اور سب کو اپنی خواہشیں دبانا پڑتی ہیں۔ جو شخص بھوک اور پیاس تحمل کر چکا ہوتا ہے اسے ان سختیوں کا بخوبی اندازہ رہتا ہے اور وہ ان صعوبتوں کو برداشت کرنے پر قادر ہو جاتا ہے۔ ماہ مبارک رمضان انسان کو سختیوں اور دشواریوں سے نمٹنے کی طاقت و توانائی عطا کرتا ہے۔ فرائض کی ادائیگی کی راہ میں صبر و ضبط سے کام لینے کی مشق کرواتا ہے۔ تو اس عمومی مرحلے میں بھی اتنے سارے فوائد ہیں۔ اس کے علاوہ بھی انسان کا شکم جب خالی رہتا ہے اور وہ ایسے بہت سے کاموں سے روزے کی وجہ سے پرہیز کرتا ہے جو عام حالات میں اس کے لئے جائز ہیں تو اس کے وجود میں ایک نورانیت اور لطافت پیدا ہوتی ہے جو واقعی بہت قابل قدر ہے۔

روزے کا دوسرا مرحلہ گناہوں سے دوری اور اجتناب کا ہے۔ روزے کی وجہ سے انسان، آنکھ، کان، زبان اور دل حتی جلد جیسے جسمانی اعضاء و اجزاء کو گناہوں سے دور رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کا درجہ پہلے مرحلے کی بنسبت زیادہ بلند ہوتا ہے۔ رمضان کا مہینہ انسان کے لئے گناہوں سے اجتناب کی مشق کا بہت مناسب موقع ہوتا ہے۔ لہذا دوسرے مرحلے کا روزہ وہ ہوتا ہے جس کے ذریعے انسان خود کو گناہوں سے پاک و منزہ بنا لیتا ہے، تمام نوجوانوں کا فریضہ ہے کہ خود کو گناہوں سے محفوظ رکھیں۔ آپ ابھی نوجوان ہیں۔ نوجوانی میں انسان کے پاس طاقت و توانائی بھی زیادہ ہوتی اور اس کا دل بھی پاک و پاکیزہ ہوتا ہے۔ ماہ رمضان میں نوجوانوں کو ان خصوصیات سے کما حقہ استفادہ کرنا چاہئے۔ اس مہینے میں آپ گناہوں سے دوری و اجتناب کی مشق کیجئے جو روزے کا دوسرا مرحلہ ہے۔ روزے کا تیسرا مرحلہ ایسی ہر چیز سے پرہیز ہے جو انسان کے دل و دماغ کو ذکر الہی سے غافل کر دے۔ یہ روزے کا وہ مرحلہ ہے جس کا مقام بہت بلند ہے۔ یہ وہ مرحلہ ہے جس میں روزہ، روزہ دار کے دل میں ذکر الہی کی شمع روشن کر دیتا ہے اور اس کا دل معرفت پروردگار سے منور ہو جاتا ہے۔ اس مرحلے میں انسان کے لئے ہر وہ چیز مضر ہے جو اسے ذکر پروردگار سے غافل کر سکتی ہو۔ کتنے خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو روزہ داری کی اس منزل پر فائز ہیں۔

ماہ رمضان، دعا و مناجات اور تقویٰ و پرہیزگاری کا مہینہ ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میں ہم عبادات اور اذکار کے ذریعے روحانی و معنوی قوت حاصل کرکے سنگلاخ وادیوں اور دشوار گزار راستوں سے گزر کر منزل مقصود تک پہنچ سکتے ہیں۔ماہ رمضان، قوت و توانائی کا سرچشمہ ہے۔ اس مہینے میں لوگوں کو چاہئے کہ خود کو معنوی خزانوں تک پہنچائيں اور پھر حتی المقدور اس خزانے سے سرمایہ حاصل کریں اور آگے بڑھنے کے لئے آمادہ ہوں۔ ماہ رمضان میں روزہ، نماز، دعا و مناجات،بندگی و عبادات کا ایک خوبصورت گلدستہ ہمارے سامنے ہوتا ہے اگر ہم اس پر توجہ دیں اور تلاوت کلام پاک کی خوشبو کا بھی اس میں اضافہ کر لیں، کیونکہ ماہ رمضان کو قرآن کے موسم بہار سے تعبیر کیا گيا ہے، تو خود سازی اور تہذیب نفس، سعادت و خوشبختی کی بڑی حسین منزل پر ہمارا ورود ہوگا۔ ماہ مبارک رمضان کے شب و روز میں آپ اپنے دلوں کو ذکر الہی سے منور رکھئے تاکہ شب قدر کے استقبال کے لئے آپ تیار ہو سکیں۔

“لیلۃ القدر خیر من الف شھر تنزل الملائکۃ و الروح فیھا باذن ربھم من کل امر” یہ وہ شب ہے جس میں فرشتے زمین کو آسمان سے متصل کر دیتے ہیں۔ قلوب پر نور کی بارش ہوتی ہے اور پورا ماحول لطف الہی کے نور سے جگمگا اٹھتا ہے۔ یہ رات معنوی سلامتی اور دل و جان کی جلا، اخلاقی، معنوی، مادی، سماجی اور دیگر بیماریوں سے شفا کی شب ہے۔ یہ وہ بیماریاں ہیں جو بد قسمتی سے بہت سی قوموں حتی مسلم اقوام میں سرایت کر گئی ہیں۔ ان سب سے نجات اور شفا شب قدر میں ممکن ہے بس شرط یہ ہے کہ پوری تیاری کے ساتھ اس رات میں داخل ہوا جائے۔ ہر سال کو اللہ تعلی کی جانب سے ایک پیش قیمتی موقع عطا کیا جاتا ہے اور وہ موقع و وقت ماہ مبارک رمضان ہے۔ اس مہینے میں قلوب میں لطافت، روح میں درخشندگی پیدا ہو جاتی ہے اور انسان رحمتِ پروردگار کی خاص وادی میں قدم رکھنے کے لائق بن جاتا ہے۔ اس مہینے میں ہر شخص اپنی بصاعت کے مطابق ضیافتِ پروردگار سے استفادہ کرتا ہے۔ جب یہ مہینہ اپنے اختتام کو پہنچ جاتا ہے تو ایک نیا دن شروع ہوتا ہے جو عید کا دن ہوتا ہے۔ یعنی وہ دن جب انسان ماہ رمضان میں حاصل ہونے والے ثمرات اور توفیقات کے ذریعے پورے سال کے لئے صراط مستقیم کا انتخاب کرکے کجروی سے خود کو محفوظ بنا سکتا ہے۔ عید فطر کاوشوں اور زحمتوں کا ثمرہ حاصل کرنے اور رحمت الہی کے دیدار کا دن ہے۔ عید فطر کے تعلق سے بھی ایک اہم بات اس دن پورے سال کے لئے آمادگی کا سنجیدہ فیصلہ ہے۔ یہیں سے آئندہ سال کے ماہ مبارک رمضان کے خیر مقدم کی تیاری شروع ہوتی ہے، اگر کوئی چاہتا ہے کہ ماہ رمضان میں اللہ تعالی کا مہمان بنے اور شب قدر کی برکتوں سے بہرہ مند ہو تو اسے پورے گیارہ مہینے بہت محتاط رہنا ہوگا۔ عید کے دن اسے یہ عہد کرنا ہوگا کہ پورا سال اسے اس انداز سے بسر کرنا ہے کہ ماہ رمضان خود اس کا استقبال کرے اور وہ ضیافت الہی کے دسترخوان پر بیٹھنے کے قابل ہو۔ یہ ایک انسان کو ملنے والا سب سے بڑا فیض ہو سکتا ہے۔ یہ ایک انسان اور اس کے تمام متعلقین نیز اسلامی معاشرے سے وابستہ تمام امور میں کامیابی و کامرانی کا بہترین وسیلہ ہے۔ اگر ہم پوری بیداری اور شعور کے ساتھ ماہ رمضان میں داخل ہوئے تو ضیافت الہی سے حقیقی استفادہ کر سکیں گے ہم ایک زینہ اوپر پہنچ جائیں گے اور ہمارا درجہ بلند ہوگا۔ پھر ہم اپنے دل و جان کی گہرائيوں میں بھی اور اپنے گرد و پیش کے حالات میں بھی وہ مناظر مشاہدہ کریں گے جن سے ہمیں حقیقی لطف اور مسرت حاصل ہوگی۔

آخرِ تحریر میں اللہ کی بارگاہ میں دعاگو ہوں کہ پروردگار اس مبارک ماہ کی برکت سے تمام مخلوق کی حفاظت فرماں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .