بسم الله الرحـــمن الرحــــیم
إِنْ تَجْتَنِبُوا كَبَائِرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَنُدْخِلْكُمْ مُدْخَلًا كَرِيمًا۔ النِّسَآء (۳۱)
ترجمہ: اگر تم بڑے بڑے گناہوں سے جن سے تمہیں روکا گیا ہے پرہیز کرلو گے تو ہم دوسرے گناہوں کی پردہ پوشی کردیں گے اور تمہیں باعزّت منزل تک پہنچا دیں گے۔
موضوع:
نیکیوں کے بدلے اللہ کی مغفرت اور بڑے گناہوں سے اجتناب کی ہدایت۔
پس منظر:
یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب مسلمانوں کو گناہوں کی مختلف اقسام کے بارے میں آگاہ کیا جا رہا تھا۔ اسلام نے اخلاقی اور روحانی ترقی کے لیے برائیوں سے دوری اور اچھائیوں کو اپنانے پر زور دیا ہے۔ یہاں مسلمانوں کو واضح طور پر بتایا جا رہا ہے کہ اگر وہ بڑے گناہوں سے بچیں گے، تو اللہ انہیں ان کی دیگر خطاؤں پر معاف فرما دے گا اور ان کی کامیابی کی ضمانت دے گا۔
تفسیر رہنما:
آیت میں "کَبٰٓئِرَ" یعنی "بڑے گناہوں" کا ذکر ہے۔ اسلام میں بڑے گناہوں سے مراد وہ اعمال ہیں جو دین کی بنیادوں کے خلاف ہیں جیسے شرک، قتل ناحق، زنا، چوری، اور جھوٹ۔ اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے کہ اگر انسان ان بڑے گناہوں سے پرہیز کرے گا، تو اس کی چھوٹی خطائیں بخش دی جائیں گی۔ مزید یہ کہ اللہ کی رحمت اور مغفرت کا وعدہ ہے کہ ایسے لوگوں کو عزت اور وقار کے ساتھ جنت میں داخل کیا جائے گا۔
اہم نکات:
1. کبیرہ گناہوں سے اجتناب: اللہ نے واضح طور پر کبیرہ گناہوں سے بچنے کا حکم دیا ہے کیونکہ یہ گناہ انسان کی روحانی اور اخلاقی پستی کا باعث بنتے ہیں۔
2. مغفرت کا وعدہ: اگر بندہ کبیرہ گناہوں سے بچتا ہے تو اللہ اس کے دیگر صغیرہ گناہوں کو بخش دیتا ہے، جو اللہ کی بے پناہ رحمت کی عکاسی کرتا ہے۔
3. عزت و احترام کے مقام کا وعدہ: بڑے گناہوں سے اجتناب کرنے والوں کو آخرت میں عزت والا مقام عطا کیا جائے گا، یعنی جنت۔
نتیجہ:
یہ آیت ہمیں زندگی کے ایک اہم اصول کی طرف رہنمائی کرتی ہے کہ نجات کے لیے صرف نیک عمل کافی نہیں ہیں بلکہ بڑے گناہوں سے بچنا بھی ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کے ذریعے یہ آسانی عطا کی ہے کہ کبیرہ گناہوں سے بچنے والوں کے چھوٹے گناہوں کو بخش دیا جائے گا، جو دین میں اللہ کی رحمت و مغفرت کی وسعت کو ظاہر کرتا ہے۔
•┈┈•┈┈•⊰✿✿⊱•┈┈•┈┈•
تفسیر راہنما، سورہ النساء