۲۸ مهر ۱۴۰۳ |۱۵ ربیع‌الثانی ۱۴۴۶ | Oct 19, 2024
عطر قرآن

حوزہ/ سورۃ النساء کی یہ آیت ہمیں وراثت کے تقسیم کے اصول و ضوابط کے بارے میں رہنمائی فراہم کرتی ہے اور اس بات پر زور دیتی ہے کہ ہر حق دار کو اس کا حق دیا جائے۔ اس کے علاوہ، معاہدات کی پاسداری اور ان کے مطابق حقوق کی ادائیگی بھی ضروری ہے، اور اللہ ہر چیز کا مشاہدہ کرنے والا ہے۔ اس طرح، معاشرتی انصاف اور عدل کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی|

بسم الله الرحـــمن الرحــــیم

وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ ۚ وَالَّذِينَ عَقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ فَآتُوهُمْ نَصِيبَهُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدًا. النِّسَآء(۳۳)

ترجمہ: اور جو کچھ ماں باپ یا اقربا نے چھوڑا ہے ہم نے سب کے لئے ولی و وارث مقرر کردئیے ہیں اور جن سے تم نے عہد و پیمان کیا ہے ان کا حصہ ّبھی انہیں دے دو بیشک اللہ ہر شے پر گواہ اور نگراں ہے۔

موضوع:

اس آیت کا موضوع میراث کی تقسیم اور متعاہدین (عقد کرنے والوں) کے حقوق ہیں۔

پس منظر:

یہ آیت سورۃ النساء میں نازل ہوئی ہے، جس کا بنیادی موضوع خواتین، خاندان، اور معاشرتی قوانین ہیں۔ اس آیت کا خاص پس منظر وراثت کے اصول و ضوابط کی وضاحت ہے۔ اس سے پہلے والی آیات میں اللہ نے وراثت کی تقسیم کے متعلق بنیادی احکامات دیے، اور اس آیت میں ان لوگوں کے حقوق پر بھی زور دیا گیا ہے جن کے ساتھ معاہدے کیے گئے ہوں۔

تفسیر رہنما:

1. میراث کے حق داروں کی وضاحت:

اللہ نے یہاں وراثت کے حقداروں کے بارے میں بات کی ہے، یعنی والدین، قریبی رشتہ دار اور وہ لوگ جن کے ساتھ معاہدے کیے گئے ہیں۔

پہلے، وراثت کا ذکر اس سے منسلک افراد کے حوالے سے کیا جاتا ہے جن کا رشتہ والدین اور قریبی عزیزوں کے طور پر ہوتا ہے۔

بعد میں ان افراد کا ذکر کیا گیا ہے جن کے ساتھ کوئی معاہدہ (عہد) ہے، مثلاً حلیف، موالی یا وہ لوگ جن کے ساتھ کوئی خصوصی اہتمام کیا گیا ہے۔

2. معاہدے کرنے والوں کے حقوق:

جاہلیت کے زمانے میں ایسے لوگوں کے درمیان معاہدے ہوتے تھے جو وراثت میں حق دینے کا سبب بنتے تھے۔ اسلام نے اصولی طور پر ایسے معاہدوں کو ختم کر دیا، لیکن جو باقی تھے ان کے حقوق کو محفوظ رکھنے کی ہدایت دی گئی۔

یہاں ان معاہدوں کا ذکر کر کے یہ واضح کیا گیا کہ اگر کوئی معاہدہ موجود ہو، تو اس کے مطابق ان افراد کو ان کا حصہ دیا جائے۔

3. اللہ کی گواہی:

آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ ہر چیز پر گواہ ہے، یعنی کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں ہے۔ اس لیے وراثت کی تقسیم میں بھی انصاف اور امانت داری کا حکم دیا گیا ہے۔

اہم نکات:

• اسلام نے وراثت کے سلسلے میں ایک جامع نظام فراہم کیا ہے تاکہ حقوق کی پامالی نہ ہو۔

• معاہدوں کی پاسداری اور ان کے مطابق حقوق ادا کرنا اسلامی تعلیمات کا حصہ ہے۔

• اللہ تعالیٰ ہر عمل کا مشاہدہ کرنے والا ہے، لہذا ہر معاملے میں عدل و انصاف کرنا ضروری ہے۔

• یہ آیت اسلامی معاشرتی نظام کی خصوصیات کو واضح کرتی ہے جہاں تمام حقوق اور ذمہ داریوں کی وضاحت اور تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔

نتیجہ:

سورۃ النساء کی یہ آیت ہمیں وراثت کے تقسیم کے اصول و ضوابط کے بارے میں رہنمائی فراہم کرتی ہے اور اس بات پر زور دیتی ہے کہ ہر حق دار کو اس کا حق دیا جائے۔ اس کے علاوہ، معاہدات کی پاسداری اور ان کے مطابق حقوق کی ادائیگی بھی ضروری ہے، اور اللہ ہر چیز کا مشاہدہ کرنے والا ہے۔ اس طرح، معاشرتی انصاف اور عدل کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔

•┈┈•┈┈•⊰✿✿⊱•┈┈•┈┈•

تفسیر راہنما، سورہ النساء

تبصرہ ارسال

You are replying to: .