بسم الله الرحـــمن الرحــــیم
وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُنَّ وَلَدٌ ۚ فَإِنْ كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ ۚ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ ۚ وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ وَلَدٌ ۚ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ ۚ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ ۗ وَإِنْ كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلَالَةً أَوِ امْرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ ۚ فَإِنْ كَانُوا أَكْثَرَ مِنْ ذَٰلِكَ فَهُمْ شُرَكَاءُ فِي الثُّلُثِ ۚ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصَىٰ بِهَا أَوْ دَيْنٍ غَيْرَ مُضَارٍّ ۚ وَصِيَّةً مِنَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَلِيمٌ. سورۃ النساء: آیت ۱۲
ترجمہ: اور تمہیںاپنی بیویوں کے ترکے میں سے اگر ان کی اولاد نہ ہو نصف حصہ ملے گا اور اگر ان کی اولاد ہو تو ان کے ترکے میں سے چوتھائی تمہارا ہو گا، یہ تقسیم میت کی وصیت پر عمل کرنے اور قرض ادا کرنے کے بعد ہو گی اور تمہاری اولاد نہ ہو تو انہیں تمہارے ترکے میں سے چوتھائی ملے گااور اگر تمہاری اولاد ہو تو انہیں تمہارے ترکے میںسے آٹھواں حصہ ملے گا، یہ تقسیم تمہاری وصیت پر عمل کرنے اور قرض ادا کرنے کے بعد ہو گی اور اگر کوئی مرد یا عورت بے اولادہو اور والدین بھی زندہ نہ ہوں اور اس کا ایک بھائی یا ایک بہن ہو تو بھائی اور بہن میں سے ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا، پس اگر بہن بھائی ایک سے زیادہ ہوں تو سب ایک تہائی حصے میں شریک ہوں گے، یہ تقسیم وصیت پرعمل کرنے اور قرض ادا کرنے کے بعد ہو گی، بشرطیکہ ضرر رساں نہ ہو، یہ نصیحت اللہ کی طرف سے ہے اور اللہ بڑا دانا، بردبار ہے۔
موضوع:
یہ آیت بھی وراثت کے قوانین کے بارے میں ہے، خاص طور پر شوہر اور بیوی کے درمیان وراثت کے احکام، اور ان لوگوں کے بارے میں جو والدین یا اولاد کے بغیر فوت ہو جاتے ہیں۔
پس منظر:
اسلام سے پہلے، عرب معاشرے میں وراثت کے معاملات میں عدل و انصاف کا فقدان تھا، اور بہت سے محروم طبقوں کے حقوق نظر انداز کیے جاتے تھے۔ قرآن نے وراثت کے منصفانہ قوانین وضع کرکے ایسے طبقوں کے حقوق کا تحفظ کیا، جیسے بیویاں، شوہر، اور وہ لوگ جن کے والدین اور اولاد نہ ہوں۔
تفسیر رہنما:
1. بیویوں کی وراثت: اگر کسی عورت کی اولاد نہ ہو تو شوہر کو اس کے ترکے کا آدھا حصہ ملے گا۔ اگر اولاد ہو تو شوہر کو چوتھائی حصہ ملے گا، وصیت اور قرض کی ادائیگی کے بعد۔
2. شوہر کی وراثت: اگر کسی مرد کی اولاد نہ ہو تو اس کی بیوی کو چوتھائی حصہ ملے گا۔ اگر اولاد ہو تو بیوی کو آٹھواں حصہ ملے گا، وصیت اور قرض کی ادائیگی کے بعد۔
3. کلالہ کی وراثت: اگر کسی مرد یا عورت کا کوئی والدین یا اولاد نہ ہو اور اس کا ایک بھائی یا بہن ہو، تو ان میں سے ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا۔ اگر بھائی بہن زیادہ ہوں تو وہ سب ایک تہائی حصہ میں شریک ہوں گے، وصیت اور قرض کی ادائیگی کے بعد۔
4. وصیت اور قرض: وصیت اور قرض کی ادائیگی کو وراثت کی تقسیم سے پہلے رکھا گیا ہے تاکہ انصاف اور شفافیت برقرار رہے۔
اہم نکات:
• وراثت کے حقوق کی وضاحت: یہ آیت شوہر، بیوی، اور دیگر قریبی رشتہ داروں کے وراثتی حقوق کی وضاحت کرتی ہے۔
• کلالہ کے لیے اصول: کلالہ، یعنی وہ شخص جس کے نہ والدین ہوں اور نہ اولاد، کے لیے مخصوص اصول بیان کیے گئے ہیں۔
• وصیت کی پابندی: قرآن مجید نے وصیت کے معاملے کو وراثت کی تقسیم سے پہلے اہمیت دی ہے، تاکہ مرنے والے کے ارادے کا احترام کیا جا سکے۔
• شریعت کے مطابق تقسیم: یہ آیت اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ وراثت کی تقسیم اللہ کے حکم کے مطابق ہے، جس میں کسی قسم کا نقصان یا زیادتی نہیں ہونی چاہیے۔
نتیجہ:
سورۃ النساء کی آیت 12 اسلامی وراثتی قوانین کا ایک جامع اور منصفانہ خاکہ پیش کرتی ہے، جو شوہر، بیوی، اور کلّالہ کے معاملے میں خصوصی ہدایات فراہم کرتی ہے۔ یہ قوانین نہ صرف معاشرتی انصاف کو یقینی بناتے ہیں بلکہ ہر فرد کے حقوق کے تحفظ کو بھی ممکن بناتے ہیں۔
•┈┈•┈┈•⊰✿✿⊱•┈┈•┈┈•
تفسیر راہنما، سورہ النساء