۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
علامہ مرتضی حسین

حوزہ/ علامہ مرتضی حسین صدر الفاضل مرحوم نے ساری زندگی سادہ اور نمود و نمائش کے بغیر گزاری۔ اپ چار سو سے زائد کتب کے مصنف اور مولف ہیں۔ اس کے علاوہ آپ کا علمی ذخیرہ مختلف رسائل میں منتشر موجود ہے۔ 

تحریر: سید نثار علی ترمذی

حوزہ نیوز ایجنسی | یہ 1980ء کی بات ہے۔ بندہ ناچیز ملازمت کی تلاش کے علاؤہ پنجاب پبلک لائبریری میں کتب بینی کا شوق پورا کرتا تھا۔ اسی دوران پروفیسر علامہ ظفر حسن ظفر ایم اے، مرحوم کے چھوٹے بھائی ظل حسنین، بطور لائیبریرین کے تعینات ہو گئے۔ ان کے آنے سے لائیبریری کچھ زیادہ ہی اپنی اپنی سی لگنے لگ گئی تھی۔ ایک دن کسی کتاب کے مطالعہ میں مصروف تھا کہ ظل حسنین کی طرف سے بلاوا آ گیا۔ میں ان کے کمرے میں گیا تو دیکھا کہ وہاں ایک کرسی پر علامہ مرتضیٰ حسین صدر الافاضل تشریف فرما ہیں۔ میں سلام کر بیٹھ گیا تو ظل صاحب نے میرا تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ ترمزی صاحب امام زین العابدین علیہ السلام پر تحقیق کر رہے ہیں اور ایک کتاب لکھنا چاہ رہے ہیں۔ آپ نے حوصلہ افزائی کے چند کلماتِ کہے اور تائید کی کہ اردو میں امام زین العابدین علیہ السلام پر کم مواد ہے نیز کہا کہ انہوں نے بھی صحیفہ کاملہ کا ترجمہ و شرح لکھی ہے جو کہ اس لائبریری میں موجود ہے اسے بھی دیکھ لینا۔ یہ آپ سے میری پہلی ملاقات تھی۔

امامیہ آرگنائزیشن پاکستان دس مجالس کا انعقاد کرتی تھی جس کے آخر میں سوال وجواب کی نشست بھی ہوتی تھی۔ ایسی ہی ایک مجلس کے مقرر علامہ سید مرتضیٰ حسین صدر الافاضل تھے۔ کربلا گامے شاہ کی مسجد میں بندہ ناچیز کو شرکت کا موقع میسر آیا۔ ایک طویل عرصہ گزرنے کے بعد ہی تقریر کے مطالب اور ملک علی حسن مرحوم آف لئو کھوکھراں، جھنگ کا سوال اور علامہ موصوف کا جواب اس طرح ازبر ہیں جیسے یہ کل کی بات ہو۔

یہ مدرسہ الواعظین، ایمپریس روڈ، لاہور کا جلسہ تھا۔ اسٹیج محترمہ افسر رضا قزلباش مرحومہ کے شوہر نامدار اسٹیج پر ہار گلے میں ڈالے تشریف فرما تھے۔ دو طالب علم آپس میں مناظرہ کر رہے تھے۔ اتنے میں لبنان کے عالم محمد مہدی شمس الدین چند افراد کے ہمراہ پنڈال میں داخل ہوئے۔ علامہ مرتضیٰ حسین صدر الافاضل کی جسے ہی اس وفد پر نظر پڑی، آپ نے لپک کر نواب صاحب کے کان میں کچھ کہا۔ انہوں نے گلے کا ہار اتار کر میز پر رکھ دیا۔ علامہ مرحوم نے وہ ہار اٹھایا اور لبنانی عالم دین کے گلے میں ڈال دیا اور انہیں عربی میں خوش آمدید کہا۔

آپ نے پوری زندگی علم کی خدمت و ترویج میں بسر کی۔ آپ مدرس، معلم، مفسر، محقق اور دانشور تھے وہیں متحرک اور جستجو سے بھر پور زندگی گزار کر اس دنیا سے گۓ۔ جسے حق سمجھا اس کا برملا اظہار کیا۔ مزہبی تحریکوں کے ہراول دستہ میں شامل رہے۔ تحریک ختم نبوت یا کوئی اور تحریک اپ ساتھ ساتھ تھے۔ آپ دیگر مسالک کے علماء کے ساتھ روابط استوار رکھتے تھے۔ جماعت اسلامی کے بانی مولانا مودودی کے دوستوں میں شمار ہوتے تھے۔ آپ نے بہت سے اداروں کی تاسیس، تشکیل و ترویج میں بنیادی کردار ادا کیا۔ امامیہ مشن پاکستان اور اس کا ماہانہ پرچہ ملت کے اس وقت کے تمام مسائل کا احاطہ کرتا تھا جس کی دعویدار آج بہت سی تنظیمیں ہیں۔اس میں اہم کردار ادا کیا۔ جامعہ المنتطر کی تعمیر و ترقی میں مولانا صفدر حسین مرحوم کی ٹیم کاحصہ رہے۔ امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان ، امامیہ آرگنائزیشن پاکستان، امامیہ پبلیکیشنز کے تاسیس و بانی اراکین میں سے ہیں۔ تحریک میں مفتی جعفر حسین اور شہیدعارف حسین الحسینی کے ساتھی رہے۔ شہید نے 18, اکتوبر 1987ء کربلا گامے شاہ میں آپ کی مجلس چہلم سے خطاب بھی کیا۔

آیت اللہ محسن الحکیم کی رحلت کے بعد،1971ء میں تین علماء کرام مولانا صفدر حسین ، مولانا آغا علی الموسوی اور مولانا مرتضی حسین صدر الفاضل نے امام خمینی کی تقلید کا اعلان کیا۔ اس دور کے علماء نے ایک غیر معروف مرجع کی حمایت پر ان تینوں کو ہدف تنقید بنایا۔ برادر ثاقب اکبر راوی ہیں کہ وہ جب 1974ء میں گھر گے تو لائبریری میں امام خمینی کی تصویر آویزاں تھی۔ امام خمینی پر اردو زبان میں سب سے پہلی کتاب، خمینی قم سے قم تک شائع کی۔ آپ عالمی سطح کے علمی مجلہ ، توحید، اردو کے چیف ایڈیٹر رہے جس میں آپ کی تفسیر المرتضوی، کے حصے بھی شائع ہوتے تھے۔

آپ نے ساری زندگی سادہ اور نمود و نمائش کے بغیر گزاری۔ اپ چار سو سے زائد کتب کے مصنف اور مولف ہیں۔ اس کے علاوہ آپ کا علمی ذخیرہ مختلف رسائل میں منتشر موجود ہے۔

آپ نے ہر میدان قلم میں اپنے جوہر دکھائے۔ پنجاب یونیورسٹی کے انسایکلوپیڈیا معارف اسلامیہ جو کے تیس جلدوں پر مشتمل ہے کی ٹیم کا حصہ تھے۔ اس میں شیعہ مطالب آپ کے قلم سے لکھے گئے۔

آج ضرورت ہے کہ اپ کی خدمات کو یاد رکھا جاۓ۔ اپ پر تحقیقی کام ہونا چاہیے۔ اپ کی سوانح عمری لکھی جانی چاہیے۔ اپ کے تمام قلمی آثار کو جمع و مرتب کر کے شائع کیا جانا چاہۓ۔

آپ کی بلندی درجات کے لیے دعا کی درخواست ہے۔
سید نثار علی ترمذی

تبصرہ ارسال

You are replying to: .