۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
درس صحیفہ سجادیہ

حوزہ/ صبر کامقام بہت بلندہے مگرشکرکامقام اس سے بھی بالاترہے،امام حسین (ع) تہہ خنجر ہیں اور شمر لعیں سوار ہے، لیکن شکر کررہے ہیں،یہ شکردرمقابل بلاومصیبت ہے جسے حسین (ع) جیسا عبد خدا سمجھتا ہے امیرالمومنین حضرت علی (ع) سمجھتے ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مدرسہ حجتیہ قم ایران میں بتاریخ ۵ذی الحجہ ١٤٤٣ ہجری کو متن صحیفہ سجادیہ کاپروگرام منعقدہوا،جس میں سرزمین قم المقدسہ ایران کے برجستہ استاد حجة الاسلام والمسلمین داود زارع نے شرکت فرمائی۔

انہوں نے اپنے اس درس میں کہا: ایک وہ جگہ جہاں انسان شکرخدانہیں کرپاتاہے اورذہن اسکاعبدیت سے دورہونے لگتاہے وہ شیء مقایسہ اورمقابلہ ہے یعنی ایسا وقت آجاتاہے کہ پریشان ہوجاتاہے اورپریشا نیوں میں کہہ پڑتاہے اللہ نے اسے فلاں چیزعطاکی مجھے نہیں جبکہ میں اس سے آگے تھایااس سے ہرچیزمیں بہترہوں یاوہ میراچھوٹاہے یامیں نے مدتوں زحمتیں کی ہیں جبکہ اسنے بہت کم،یاانسان کہتاہے کہ میں فلاں چیزرکھتاہوں جبکہ اسکے پاس کچھ بھی نہیں،میں ہرچیزمیں آگے ہوں جبکہ وہ پیچھے اسی طرح،یہ چیزیں وہ ہیں جوانسان کویاخوشبختی کی طرف لے جاسکتی ہے یابدبختی کی طرف۔

حجة الاسلام والمسلمین داود زارع نے کہا:کتابوں میں ملتاہے انسان ٤چیزمیں بدبخت اور چارچیزمیں خوشبخت رہتاہے،،بدبختی کی پہلی چیز !اموردنیاوی میں فقط خودکودیکھتاہے اوردینی میں بھی،میں وہ طالب علم ہوں جوسطح۵ کاہوں جبکہ وہ سطح۲کاہے،میں بہترین خطیب ہوں جبکہ وہ بالکل نہیں دراموردنیاوی میں خودکومقایسہ کرتاہے اپنے سے بالاترسے۔اوراموردینی میں خود کو مقایسہ کرتاہے اپنے سے نیچے والوں سے، یعنی خودکوامورمادی میں خداسے طلبکارجانتاہے،امورمعنوی میں خداکوبدھکارجانتاہے میں بہت اچھاہوں خدانے جنت ہمارے لئے بنائی ہے ہم حقدارہیں ،خوشبخت کی مثال دیتاہے امورمادی میں پائین طبقہ سے مقایسہ ہے،امورمعنوی میں بلندلوگوں سے،یعنی وہ ٧بارکربلاگیاہے ہم ٥ہی بارمن ناراض تھافلانی کے پاس جوتا نہیں ہے آخراسکی وجہ کیاہے توجواب دیتاہے اسکے پاس پیرنہیں ہے پس سوچنے پرمجبورہوتاہے کہ مجھے خدانے پیردیاہے مگراس پیرسے نیک قدم بڑھایایابرائی کی طرف۔

انہوں نے کہا :مدرسہ حجتیہ میں ایک طالب علم تھامیں اسکی عیادت کوپہونچا وہ بولاحالت بہت میری خراب ہے ایک قطرہ پانی بھی نہیں نیچے جارہاہے(چونکہ انسان کاحلق پایپ کی طرح نہیں ہے کہ پانی ڈال دوڈایرکٹ پہنچ جائے بلکہ حالت فعل وانفعال ہے جوکسی قیمت پر انسان چاہے کرنہیں سکتا،یہ نظام خداوندی ہے،ہرلحظہ شکربجالاناہے،صحیفہ سجادیہ کی ٣٥ویں دعامیں اسی چیزکوامام سجاد فرماتے ہیں !

استاد نے کہا: اصحاب دنیا پردقت ضروری ہے خر یہ کون لوگ ہیں،کیاچاہتے ہیں کیاکررہے ہیں انکاہدف کیاہے،پس صحیفہ سجادیہ میں امام زین العابدین طرزبندگی بتارہے ہیں کہ نعمت کے نہ ملنے پربھی شکرہے،اسی طرح یعنی میں صاحب فرزند نہیں ہوں پس میں اس حال میں بھی شکرگزارہوں اگرچہ میرے پاس اولادنہیں ہے، توجس حال میں مجھے رکھناچاہے میں حاضرہوں،صبرمیں تلخی ہے،سختی ہے مقاومت ہے علاج کرواتے وقت،ڈاکٹرنے آپریشن کردیاسختیاں دردوغیرہ ہم نے برداشت کرلیا،لیکن ڈاکٹرکوپیسہ بھی دیتے ہیں اوراسکاشکریہ بھی اداکرتے ہیں،ارے بھائی اس نے آپکے جسم کوزخمی کردیا،پارہ پاری کیا،پھربھی روپیہ بھی دیتے ہیں اورشکریہ ادابھی کرتے ہیں تواسکاجواب یہ ہے کہ ارے وہ درد،وہ صبروتحمل کے وقت کوحسین بنادیا اسلئے اسکاشکرہے۔

حجة الاسلام والمسلمین داود زارع نے مزید کہا:صبر کامقام بہت بلندہے مگرشکرکامقام اس سے بھی بالاترہے،امام حسین تہہ خنجرشمر لعیں ہیں لیکن شکر کررہے ہیں،یہ شکردرمقابل بلاومصیبت ہے جسے حسین جیسا عبد خدا سمجھتا ہے امیرالمومنین حضرت علی سمجھتے ہیں،ایک دن رسول خدا ص سے مولاعلی سوال کرتے ہیں یانبی اللہ آپ نے مجھے وعدہ شہادت دیاہے جبکہ بہت سے لوگ احدمیں اسی طرح کئی جنگوںمیں شہیدہوئے لیکن میرے لئے شہادت محقق نہیں ہوئی،حضرت محمدص نے فرمایا!بہت جلدی تمہیں بھی شہادت نصیب ہوگی تمہاری ڈارھی سرکے خون سے رنگین ہوگی،پھرپیغمبرخداسوال کرتے ہیں اے علی ایک میرابھی تم سے سوال ہے اس وقت تمہاراصبرکس طرح کاہوگا؟مولانے فرمایا!یارسول اللہ ص اس وقت صبر کامقام نہیں ہوگا،بلکہ میراشکرکامقام ہوگاکیونکہ اگرچہ ضربت سے سختی ہے دردہے لیکن صبروتحمل کے ساتھ اسی برداشت کروں گاایک عالی مقام پانے جارہاہوں شکر کا مرحلہ ہے فزت برب الکعبہ،اللھم لک الحمدحمدالشاکرین علیٰ مصابعھم،خداوند عالم نے امام حسین کوکیادیا شریکة الحسین حضرت زینب س فرماتی ہیں،مارایت الاجمیلا ۔

انہوں نے کہا!تمام محبان امام حسین ع سے میری گزارش ہے کہ امام حسین ع کے مناجات کوخوب پڑھیں ایک مناجات روزعاشورہ کی صبح میں ہے اوردوسری مناجات آخری ہے زیرتیغ ہے۔

استاد حجة الاسلام والمسلمین آقای داود زارع نے فرمایا!ایک دوسراسوال یہ ہے کہ فقیری بہترہے یامالداری؟اسلام فقیری کے سلسلے سے کیافرماتاہے چونکہ روایت ہے رسول اسلام (ص) نے فرمایا!الفقروفقری،فقیری پرفقرکررہے ہیں،یاابوذر سے نقل ہے میں فقیری کومالداری سے زیادہ چاہتاہوں، جبکہ دوسری روایت کہہ رہی فقیری اچھی چیزنہیں؟اسکے جواب کے لئے استنباطی استدلالی صلاحیت چاہیئے،امام سجاد نے حل کیافقیری محبت اہل بیت کے ساتھ کامیابی ہے،یعنی میرے پاس مال دنیاکچھ بھی نہولیکن ولائے اہل بیت ہوفقط کافی ہے،(مقولہ ہے باعلی باشم فقیرباشم یہ بہترہے اس سے کہ معاویہ کے کے پاس رہوں اورمالدار رہوں) حضرت ابوذرغفاری کہتے ہیں میں اپنے مولیٰ علی کے پاس کچھ نہ رہنے کے باوجود ٹھنڈی سانس لیتاہوں اوریہ میرے لئے اچھاہے معاویہ کے پاس دولت کے ساتھ رہنے سے،انشاء اللہ آیندہ بحث اسی فقیری کے سلسلے سے پیش ہوگی۔

جاری…

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .