تحریر: حجۃ الاسلام والمسلمین محمد علی حجتی
حوزہ نیوز ایجنسی । ہر قوم کے ہاں کچھ دن خاص تاریخی اهمیت کی حامل واقعے کی وجه سے یادگار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جیسا که حضرت ابراہیم کا نمرود کی آگ سے نجات پانے ، حضرت یونس کا مچھلی کے پیٹ سے زنده نکالے جانے کا واقعه، اسی طرح حضرت عیسی کی امت کے لئے آسمانی مائده نازل هونے کا عظیم واقعه، کہ ان دنون کو ان امتوں کیلئے عید قرار دی گئی هے ۔ اسلام میں بھی شوال کی پهلی تاریخ اور ذی الحجه کی دسویں تاریخ کو اهم مناسبتوں کی وجه سے مسلمانوں کیلئے عید قرار دی گئی ہے۔
عید کا معنی:
لغت میں عید ، خوشی کے دن کو کہتے ہیں ، اسی طرح قوموں کے ہاں یادگار دن کو بھی عید کہتے ہیں ۔ شہید ثانی فرماتے ہیں عید عود سے مشتق ہوا ہے( چنانچہ علم صرف کے قاعدے کے مطابق لفظ عید میں موجود «ی» عود کے لفظ میں موجود «واو» سے تبدیل ہوا ہے) جس (عید ) کے معنی پلٹنے اور لوٹنے کے ہیں لہذا عید کو عید اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ اس دن اللہ تعالی کی عطائیں اور بخششیں کثرت کے ساتھ بندوں پر نازل ہوتی ہیں نیز( ہر سال عید کے لوٹنے سے خوشیاں اور رحمتیں بھی لوٹ آتی ہیں ۔
فطر کے معنی:
فطر وتر کے وزن پر کسی چیز کو چیرنے اور پھاڑنے کو کہتے ہیں اسی طرح بنانے اور ایجاد کرنے کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے یہ لفظ ( فطر) فا پر زبر کے ساتھ روزہ کھولنے کو کہتے ہیں اور «افطار» اسی معنی میں استعمال ہوا ہے۔
عید کی حقیقت:
اسلام میں یادگار واقعات کے سلسلے میں متعدد عیدیں منائی جاتی ہیں جن میں عید غدیر، عید فطر اور عید قربان زیادہ مشہور ہیں، چنانچہ ہر سال 18 ذی الحجہ کو حضرت علی علیہ السلام کی امامت اور پیغمبر اکرم کی جانشینی کے منصب پر فائز ہونے کی مناسبت سے عید منائی جاتی ہیے جو کہ «عید غدیر» کے نام سے مشہور ہے، اسی طرح عید قربان ، اللہ تعالی کے حضور اولاد کی اس بے مثال قربانی کی یاد گار ہے جسے حضرت ابراہیم نے منی کے مقام پر پروردگار کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے پیش کی تھی ، عید فطر بھی ماہ مبارک رمضان کے اختتام پر فریضہ صیام کے مکمل ہونے پر ،اللہ کی نعمت اور رحمت کے نزول اور اللہ تعالی کی جانب سے روزہ داروں کو عطا ہونے والی پاداش کی خوشی میں منائی جاتی ہے۔( صحیفہ سجادیہ ترجمہ مفتی جعفر حسین،ص581)۔
شیخ کلینی نے اول شوال (عید فطر) کی فضیلت کے بارے میں امام محمد باقر علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ پیغمبر اکرم نے فرمایا ہے: « اذا كان اول يوم من شوال نادي مناد ايها المؤمنون اغدوا الي جوائزكم».جب شوال کے پہلے دن کی ابتدا ہوتی ہے فرشتہ پکارتے ہوئے کہتا ہے: مومنوا ! اپنا انعام حاصل کرنے کیلئے جلدی کیا کرو۔ عید فطر جیسے مبارک دن کے ساتھ شروع ہونا ماہ شوال کیلئے باعث عظمت اور فضیلت ہے ، کیونکہ اس دن صبح کو زکوۃ فطرہ ادا کرنے کے بعد دو رکعت نماز عید کے ساتھ دن آغاز ہوتا ہے جس میں لوگ اکٹھے ہوکر اجتماعی طور پر مذہبی شان و شوکت کا مظاہرہ کرتے ہیں ، پھر حمد و تقدیس ، درود و سلام ، وعظ و نصیحت اور آخر میں قرآنی سورہ پر مشتمل خطبہ کے ساتھ عبادت کا اختتام ہوتا ہے، جس مسکراتے چہروں کے ساتھ سلام و دعا اور میل ملاقات اور خوشی کا سلسلہ جاری رہتا ہے ، خوشی کے اس دن کو عیدی دینے ، عزیز و اقارب سے ملاقات ، تحفہ و تحائف کے ذریعے صلہ رحم کو جاری رکھنے کی رسم ادا کی جاتی ہے نیز بعض علاقوں میں موجود رسم کے مطابق اہل محلہ کا ایک دوسرے کو دعوت دینے جیسے نیک اعمال کے ذریعہ ایثار ، ہمدردی اور صلہ رحمی کا اچھا نمونہ پیش کیا جاتا ہے یوں اسی مسرت افزا ماحول میں اس دن کا اختتام ہوجا تا ہے۔ اسلام میں مذہبی تہوار منانے کا انداز یہی ہے کہ جس کی مسرت میں سنجیدگی ، کیفیت میں شائستگی نیز لطف و سرور میں تہذیب کو سمو دیا ہے اور اس کے آداب و رسوم اعلی اخلاقی مقاصد کا پوری طرح لحاظ رکھا گیا ہے ۔لہذا جس دن کی ابتدا نماز ، زکواہ ، اللہ تعالی کی حمد و ثنا ، محمد و آل محمد پر درود و سلام اور ایک دوسرے سے محبت بھری ملاقات سے ہو یقینا جہاں لوگوں کے دلوں کو کدورتوں سے پاک کرنے کا سبب بنے گا وہاں پر لوگوں کے درمیان مسرت آمیز ماحول اور روحانی احساس بھی پیدا کرے گا ۔ اس سے بالاتر عبادت گزاروں کے دلوں میں خدا پرستی اور نیکی کے جذبات ابھارنے کیساتھ قلب و روح کی پاکیزگی کا سبب بھی بنتا ہے۔اسلام میں کسی بھی عید کی خوشی منانے کیلئے منفرد انداز کی تعلیم دی گئی ہے جس میں انسان اللہ کی نعمتوں سے بہرہ مند بھی ہوتا ہے اس کے ساتھ عبادت اور نیک اعمال کے ذریعے اخروی زندگی کیلئے توشہ بھی ذخیرہ کرتا ہے۔ یہ اسلامی تہذیب کی بہترین عکاسی ہے کہ جہاں عبادت کے ذریعے انسان اپنے خالق سے ہم کلام ہوتا ہے وہاں پر تحفہ اور میل ملاقات کے ذریعے صلہ رحمی کا حق بھی ادا کرتا ہے جو کہ یہ خود ایک حکم الہی ہے اور انسان کیلئے ثواب کا باعث بنتا ہے اسی طرح زکواۃ ادا کرکے معاشرے کے ضرورت مند افراد کو خوشیوں میں شامل کرتا ہے ، اگر انسان اسلامی تعلیمات میں غور کرے تو اس حقیقت کو اچھی طریقے سے درک کرے گا کہ اللہ تعالی نے عبادت کے ساتھ دنیوی امور، جیسے عید کے دن صاف ستھرے کپڑے پہننے ، کھانے پر دعوت دینے وغیرہ میں بھی ثواب عطا کرکے سعادت کا بند و بست کیاہے پس ایسے قیمتی دن اور اس کی قیمتی لمحات کو فضول سرگرمیوں، بے فائدہ کھیل کود اور بعض اوقات اللہ کی نا فرمانی میں گزار کر ضایع کرنا نہ صرف خوشی منانے کے زمرے میں نہیں آتاہے بلکہ عمر کے قیمتی لمحات کی بربادی ہے اس لیے ہمیں چاہیے کہ عید کی خوشی مناتے وقت قدرتی مناظر کی سیر و سیاحت اور فائدہ مند ورزش کے ساتھ اخروی زندگی کو بھی مد نظر رکھیں اور وقت عبادت میں گزاریں۔امیر المومنین علیہ السلام نے عید کی حقیقی تعریف بیان کرتےہوئے فرمایا ہے: « انما هو عيد لمن قبل الله صيامه و شكر الله قيامه و كل يوم لا يعصة الله فيه فهو يوم عيد» ، عید صرف اس کیلئے ہے جس کے روزوں کو اللہ نے قبول کیا اور اس کے قیام (نماز) کو قدر کی نگاہ سے دیکھا( پاداش دیا) اور ہر وہ دن جس میں اللہ معصیت نہ کی جائے ، عید کا دن ہے۔
عید فطر کے اعمال اور تعلیمات
خدا وند متعال نے « ادعونی استجب لکم» کے ذریعہ سے تمام بنی نوع انسان کو اپنے لیے توشہ آخرت حاصل کرنے کی عمومی دعوت دی ہے تاکہ انسان اللہ کے حضور اپنے گناہوں کی بخشش کروا نے کے ساتھ اللہ تعالی کی عنایات ، رحمت اور فیوضات سے بہرہ مند بھی ہو سکے، اسی طرح دن کے مختلف اوقات میں انسان کو اپنے ساتھ متصل رکھنے کیلئے مناجات کے دروازے کھول رکھے ہیں تاکہ انسان اپنے خالق سے غافل نہ رہے اور ہمیشہ اللہ سے متصل رہے ، لیکن کچھ مہینوں، دنوں اور دن دات کے مخصوص لمحات کو انسان سازی کے لیے مختص قرار دیا ہے ان میں روز جمعہ، رجب ، شعبان اور رمضان کے مہینے قابل ذکر ہیں۔ عید فطر کا مبارک دن بھی انہیں مقدس لمحوں میں سے ہے جس کےلیے مخصوص اعمال ،اذکار اور فضائل بیان ہوئے ہیں ذیل میں ان کو ذکر کیا جائے گا۔
الف: عید فطر کے اعمال:
حدیث اور ادعیہ کی کتابوں میں شب عید فطر اور اس دن کیلئے دعا، نماز ، ذکر اور دوسرے مختلف اعمال نقل ہوئے ہیں جن کو ترتیب سے نقل کیا جاتا ہے۔
۱۔ شب عید فطر کے اعمال:
روایات میں شب عید فطر کیلئے شب قدر اور نیمہ شعبان کے برابر فضیلت بیان ہوئی ہے چنانچہ پیغمبر اکرم سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: جو شخص عید فطر اور نیمہ شعبان کی راتوں کو بیدار رہے اس کا دل زندہ رہے گا جس دن لوگوں کے دل مردہ ہو جائیں گے۔ حضرت امام رضا سے منقول کہ آپ نے فرمایا: امیر المومنین رمضان کی تیسویں رات، نیمہ شعبان کی رات اور عید فطر کی رات کو نہیں سوتے تھے کیونکہ ان راتوں میں مخلوقات میں رزق تقسیم کی جاتی ، ان کی عمر معین ہوتی ہے اور آیندہ سال تک پیش آنے والے واقعات مقدر ہوتے ہیں۔
اعمال شب عید فطر:
۱۔ غسل۔ ۲۔ مغرب اور عشا کی نماز کے بعد مخصوص تکبیر( اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ۔۔۔۔) پڑھنا ۔ ۳۔ نماز مغرب اور نوافل کے بعد مخصوص دعا ( یا ذا المن و الطول یا ذا الجود ۔۔۔۔۔۔۔) اور اس کے بعد سجدے میں سو مرتبہ « اتوب الی اللہ» پڑھی جائے۔۴: زیارت امام حسین کا پڑھنا۔ ۵: دس رکعت نماز ، ہر رکعت میں سورہ حمد کے بعد پچاس دفعہ سورہ توحید کے ساتھ۔ ۶: چھ رکعت نماز ، ہر رکعت میں سورہ حمد کے بعد پانچ مرتبہ سورہ توحید کے ساتھ۔ ۷: دس رکعت نماز ، ہر رکعت میں حمد کے بعد دس مرتبہ سورہ توحید نیز رکوع اور سجدے میں تسبیحات اربع پڑ ھے اور سلام کے بعد ہزار مرتبہ استغفر اللہ و اتوب الیہ اور سجدے میں « یا حی یا قیوم یا ذا الجلال و الاکرام۔۔۔۔» پڑھی جائے۔۸: اسماء الہی پر مشتمل دعا پڑھنا جو « یا اللہ یا اللہ ۔۔۔» شروع ہوتی ہے۔
عید فطر کے دن کے اعمال:
۱۔ شب عید فطر بعداز نماز مغرب پڑھی جانے والی تکبیریں نماز فجر اور نماز عید کے بعد پڑھی جائے اور یہ دعا « اللہم انی توجہت الیک بمحمد امامی و علی من خلقی۔۔۔۔۔۔» کو پڑھے۔۲۔ نماز عید فطر سے پہلے کنبے کے ہرفرد کی جانب سے ایک صاع ( تقریبا تین کلو) گندم ، جو، مکئی، چاول یا کشمش وغیرہ یا اس کی قیمت زکواۃ فطرہ کی نیت سے دینا واجب ہے ۔ حضرت امام علی علیہ السلام نے اپنے ایک خطبے میں فطرہ کے بارے میں فرمایا ہے: ( زکواۃ فطرہ ادا کیا کرو کیونکہ یہ پیغمبر اکرم کی سیرت اور خدا وند کی جانب سے واجب فریضہ ہے ، پس ہر کوئی اپنے اہل و عیال کے مرد ، خواتین، چھوٹے بڑے ، آزاد اور غلام میں سے ہر ایک کے بدلے ایک صاع خرما ، گندم یا جو دیدے کیونکہ یہ (فطرہ) ، روزہ ماہ رمضان کے قبولیت کی شرط اور آیندہ سال تک انسان کی حفاظت کا ذریعہ بھی ہے۔۳۔ طلوع فجر کے بعد نماز عید ادا کرنے سے پہلے غسل کرنا، پاک اور صاف ستھرے کپڑے پہننا اور خوشبو لگانا۔۴۔ نماز عید سے پہلے میٹھی چیز سے افطار کرنا اور بہتر ہے اس دن تربت حسین علیہ السلام سے افطار کیا جائے کیونکہ یہ ہر قسم کی بیماریوں کےلیے شفا ہے ۔ ۵۔ نماز عیدکیلئے نکلنے سے پہلے یہ دعا پڑھے ( اللہم من تھیأ فی ہذا الیوم۔۔۔۔۔الا انت یا ارحم الراحمین۔۶۔ دو رکعت نماز عید پڑھنا اس طرح سے کہ پہلی رکعت میں حمد اور سورہ کے بعد پانچ تکبیریں اور قنوت کیلئے مخصوص دعا اسی طرح دوسری رکعت میں حمد اور سورہ کے بعد چار بار تکبیر اور ہر تکبیر پر قنوت میں مخصوص دعا جو کہ « اللہم اہل الکبریاء و العظمہ » سے شروع ہوتی ہے، پڑھے ۔ ۷۔ زیارت امام حسین علیہ السلام پڑھنا ۔ ۸۔ دعای ندبہ پڑھنا ۔ ۹۔ اعوذ بک من نار حرھا لا یطفأ کی دعا پڑھنا۔
ج : عید فطر کی تعلیمات :
عید فطر کے اعمال، دعاووں اور اذکار میں موجود انسان ساز پیغام اور تعلیمات کو ذیل میں ذکر کیا جاتا ہے:
ا۔ عید فطر خوشی کے ساتھ اللہ کی بندگی اور عبادت کا دن ہے۔
۲۔ شب و روز عید، نماز کے بعد کی مخصوص تکبیروں اللہ تعالی کی عظمت اور نعمتوں کا اقرار ہے ، علماء اخلاق کے مطابق تکبیر کے دو معنی ہیں ؛ ایک یہ کہ خدا وند متعال کی ذات اس سے بالا تر ہےکہ اس کی کبرائی کو انسان درک کر سکے، دوسرا یہ کہ خدا وند متعال کو مخلوقات کی صفات کے ذریعے توصیف نہیں کیا جا سکتا نہ حواس کے ذریعے سے درک کیا جا سکتا ہے نہ ہی ذات مقدس تعالی کو انسان کے ساتھ تشبیہ دی جا سکتی ہے۔
۳۔ شب و روز عید کی نمازیں ،دعایں، تکبیریں اور جملہ اعمال جہاں قرب الہی کا وسیلہ عبادتیں ہیں وہاں گناہوں کی بخشش کا ذریعہ بھی ہیں اسی طرح انسان ان کے ذریعے سے مادی اور معنوی فیوضات سے بہرہ مند بھی ہوتا ہے تو انہی اعمال صالحہ کے ذریعے زمینی و آسمانی بلاووں اور مشکلات سے نجات بھی پاتا ہے ، چنانچہ معصوم کا فرمان ہے: نماز پرہیزگاروں کیلئے قرب الہی حاصل کرنے کا بہترین وسیلہ ہے۔پیغمبر اکرم نے حضرت جبرائیل اور حضرت اسرافیل کے واسطے سے شب عید فطرکے بارے میں نقل کیا ہے کہ اس شب کی دس رکعت نماز سجدے سے سر اٹھانے سے پہلے انسان کی بخشش کا ذریعہ بنتی ہے، نیز چھ رکعت نماز اہل عیال کی شفاعت کا باعث بنتی ہے اسی طرح با جماعت نماز عید سے معاشرے میں اللہ کی اطاعت کا اجتماعی جذبہ پیدا ہوتا ہے تو میل ملاقات اور مصافحے سے ایک دوسرے کے درمیان انس و محبت میں اضافہ ہوتا ہے۔
۴۔ دعا رزق میں برکت کا سبب قرار دیا گیا ہے اور روایات کے مطابق دشمن کی شر سے بچنے کیلئے بہترین سلاح بھی کہا گیا ہے چنانچہ پیغمبر اکرم کا فرمان ہے : دن رات اپنے پرودگار کے حضور دعا کیا کرو کیونکہ دعا مومن کی سلاح ہے امیر المومنین نے فرمایا ہے: جو شخص خیر و عافیت سے ہے اور کسی مشکل میں مبتلا نہیں ہے وہ ہرگز یہ خیال نہ کرے کہ مشکل میں گر فتار اور پریشان حال شخص اس سے زیادہ دعا کا محتاج ہے ۔
انسان عید فطر کے نماز کی دعائے قنوت میں اللہ کی عظمت، کبرائی اور سخاوت کے اقرار کے ساتھ، اللہ کے حضور گناہوں کی مغفرت، نعمتوں کی بخشش اور صالحین کے راہ پر گامزن رکھنے کی درخواست کرتا ہے۔ اسی طرح خدا وند متعال کے اسامی گرامی اور درود پر مشتمل دعا پڑھ کر سماء الہی کی ورد کرتا ہے اور محمد و آل محمد پر صلوات بھیج کر اللہ تعالی کی بارگاہ میں ماہ رمضان کے روزوں کے قبولیت ، حج ادا کرنے کی توفیق، گناہان کبیرہ کی مغفرت اور کنز رحمت سے رزق عطا کرنے کی استدعا کرتا ہے۔
۵۔ ہر نماز اور دعا میں محمد و آل محمد پر درود بھیجنے کے بارے میں متعدد بار تاکید کا مقصد ، انسانوں کو چودہ معصومین علیہم السلام کے ساتھ متصل رکھنا ہے نیز صلوات کا مختلف الفاظ میں نقل ہونا معصومین کے صفات جمیلہ کے جلوے کا عکاس ہے، صلوات جہاں خود ایک دعا اور مستحب عمل ہے وہاں دوسری دعاؤں کے قبولیت کا ذریعہ بھی ہے۔
۶۔ زکات فطرہ ادا کرکے انسان اللہ کے فرمان پر عمل کرتا ہے جس کا فائدہ سب سے پہلے فطرہ ادا کرنے والے کو واجب کی انجام دہی، خود اس کی سلامتی اور مال میں برکت کی صورت میں ملتا ہے اس کا دوسرا فائدہ مستحقین اور مالی طور پر کمزور افراد کو عید کی خوشیوں میں شامل کرکے ان سے احساس محرومی کو دور کر نا ہے جوکہ روایات کے مطابق فطرے کا فلسفہ بھی یہی ہے۔ امیر المومنین علیہ السلام کا فرمان ہے: زکات فطرہ ادا کیا کرو کیونکہ یہ پیغمبر اکرم کی سیرت اور خدا وند کی طرف سے واجب فریضہ ہے۔۔۔۔۔یہ(فطرہ) روزہ ماہ رمضان کے قبول ہونے کی شرط اور آئندہ سال تک انسان کے حفظ و امان میں رہنے کا ذریعہ بھی ہے۔اسلام کے آفاقی قوانین میں واجبات کی ادائیگی میں ہمیشہ سہولت کا لحاظ رکھا گیا ہے چنانچہ فطرہ ادا کرنے میں ان چیزوں کو مقدم رکھا گیا ہے جن کو سال بھر میں زیادہ استعمال کرتا ہے ، حتی کہ مکلف کو معین شدہ جنس اور اس کی قیمت میں مختار بنایا گیا ہے تاکہ واجب کی ادائیگی میں اس کو دقت نہ ہو۔
۷۔ عید فطر کے اعمال میں باطنی طہارت کے ساتھ جسمانی اور ارد گرد کے ماحول کی صفائی کا درس بھی ملتا ہے۔
نتیجہ:
مذکورہ سطور ذکر شدہ مطالب سے نتیجہ نکلتا ہے کہ عید فطر مسلمانوں کے لیے ایک عظیم خوشی کا دن ہے۔ جس دن روزہ دار ایک مہینہ اللہ کی عبادت میں مشغول رہ کر اخروی زندگی کیلئے ذخیرہ بھی حاصل کرتے ہیں ساتھ ساتھ زکات ادا کرکے معاشرے کےمالی کمزور افراد کو عید کی خوشیوں میں شامل کرتے ہیں گویا یہ ظاہر ی و باطنی پاکیزگی ، صلہ رحمی ، ہمدردی ، خوشی منانے اور دوسروں کو خوشی میں شامل کرنے کا دن ہے۔
منابع:
۱۔صحیفه سجادیه،امام زین العابدین علی ابن الحسین،ترجمه سید ذیشان حیدر جوادی و مفتی جعفر حسین،قم، انصاریان پبلکیشنز، ط2، 2008 ء،۔
۲۔ فرھنگ فارسی عمید، حسن عمید، انتشارات امیر کبیر، 1378ش۔
۳۔ الروضہ البہیہ فی شرح اللمعہ الدمشقیہ،محمد ابن جمال الدین مکی العاملی، ام ، موسسہ مطبوعات اسماعیلیان،1317 ۔
۴۔ پیام قران،ناصر مکارم شیرازی،تہران، دار الکتب الاسلامیہ، 1386ش۔
۵۔ نگرشی نوع بہ غدیر ، علی اصغر رضوانی ،قم، عطر عترت ، 1389ش
۶۔ لغات در تفسیر نمونہ،
۷۔ الفروع الکافی، ابو جعفر محمد بن یعقوب ابن اسحاق الکلینی، احتمام محمد حسین درایتی ،قم،مرکز بحوث دار الحدیث ،1429 ھ ق
۸۔ کلیات مفاتیح نوین
۹۔ منتخب الاحادیث، ابو القاسم کردستانی ،تہران،پیام قران،1393 ش۔
۱۰۔ اقبال الاعمال، سید ابن طاؤس ،ترجمہ محمد روحی ،قم، سما قلم،1383ش۔
۱۱۔ عروج السالکین فی تمام ادعیہو اعمال و صلوات شہر رمضان المرویہ عن النبی والایمہ الطاہرین ،بیروت دار المرتضی ،ط1 1320 ھ۔
۱۲۔ ثواب الاعمال و اعقاب الاعمال ، ابو جعفر محمد بن علی ابن بابویہ شیخ صدوق ، ترجمہ محمد رضا انصاری محلاتی ، قم ، نسیم کوثر، 1394ش۔
۱۳۔ منتخب توضیح المسایل ،امام خمینی، تنظیم و گزینش تکمال الدین خدامی، قم، شفق ،1379ش۔
۱۴۔ وسائل الشیعہ ،محمد بن الحسن العاملی، بیروت، موسسہ الالبیت الاحیا التراث ، بی تا ۔
۱۵۔ احکام زکات و فقہ صدقات ، ایت اللہ سید محمد تقی المدرسی ،مترجم سرور دانش ،تہران، محبان الحسین ،1381ش۔
۱۶۔ مفاتیح الجناح، شیخ عباس قمی، بی تا، بی جا ، بی نا۔
۱۷۔ مفتاح الفلاح علی عمل الیوم و اللیلیہ، الشیخ بہاء الدین محمد ابن الحسین الحارثی العاملی، تعلیق محمد اسمعیل المازنی الخواجوئی، قم، موسسہ النشر الاسلامی، 1415ہ۔
۱۸۔ احکام مقدمات نماز ، آیہ اللہ السید محمد تقی المدرسی، تہران ، محبان الحسین،1381۔
۱۹۔ عدہ الداعی و نجاح الساعی، احمد ابن فہد حلی، حسین غفاری ساروی، قم ، بنیاد معارف ز،1383ش۔