تحریر: مولانا سید ظفر عباس رضوی،قم المقدسہ
حوزہ نیوز ایجنسی । ویسے تو ہمارے یہاں خوشی کی تاریخیں بہت سی ہیں اور لوگ اپنے اپنے اعتبار سے خوشی مناتے بھی ہیں اور ہر خوشی کے منانے کا انداز الگ اور جدا ہوتا ہے، کچھ خوشیاں ایسی ہیں جنھیں کچھ لوگ مناتے ہیں اور کچھ لوگ نہیں مناتے ہیں، کچھ خوشیاں مخصوص ہیں اور کچھ مخصوص نہیں ہیں اور ہر خوشی کی اسی کے اعتبار سے اہتمام اور تیاری بھی کی جاتی ہے، جیسی خوشی ہوتی ہے ویسی ہی تیاری ہوتی ہے اور ہر آدمی چاہتا ہے کہ ہر بار بہتر سے بہتر تیاری کرے تاکہ لوگ بھی دیکھیں کہ اس بار پہلے کے مقابلہ میں زیادہ تیاری کی ہے، خوشی کے مواقع اور تاریخیں تو بہت سی ہیں لیکن ان ساری خوشیوں میں جیسی خوشی لوگ عید فطر کی مناتے ہیں کسی اور کی نہیں مناتے اور جیسی تیاری عید فطر کی کرتے ہیں کسی اور کی نہیں کرتے عید فطر ان خوشیوں میں سے ہے جسے ہر مسلمان مناتا ہے بلکہ مسلمان کے ساتھ ساتھ دوسرے مذہب کے لوگ بھی اس خوشی میں شامل ہوتے ہیں اور عید کی مبارک باد پیش کرنے کے لئے مسلمانوں کےگھر آتے ہیں، جیسا اتحاد، پیارو محبت اور گنگا جمنی تہذیب عید کے دن دیکھنےکو ملتی ہے کسی اور دن دیکھنے کو نہیں ملتی۔
عیدیں تو کئی ہیں عید قربان، عید غدیر اور جمعہ سب عید ہیں، لیکن مسلمانوں میں جس عید کی ظاہری طور پہ زیادہ اہمیت اور زیادہ تیاری ہوتی ہے وہ عید فطر ہے، اور دوسری عیدیں ظاہری اعتبار سے عید فطر کے مقابلہ میں پھیکی پڑجاتی ہیں، عید فطر کی تیاری ماہ مبارک رمضان شروع ہونے کے کچھ ہی دن بعد شروع ہو جاتی ہے اور لوگ سوچنے لگتے ہیں کہ اس بار عید میں کیا پہننا ہے کیا کھانا ہے وغیرہ،عید فطر ماہ مبارک کے پورے ایک مہینے کے روزوں کے بعد آتی ہے جس کا ہر انسان بہت ہی بے چینی اور بے صبری سے انتظار کرتا ہے، اور کرنا بھی چاہیئے، روزہ داروں سے زیادہ وہ لوگ عید کی تیاری میں دبلے ہوتے جاتے ہیں جو روزہ نہیں رکھتے ہیں، زیادہ تر لوگوں کا ہم وغم یہی ہوتا ہے کہ عید کی تیاری بہتر سے بہتر ہو۔
یہ ساری چیزیں اپنی جگہ پہ ہیں، لیکن جوچیز سب سے زیادہ غور کرنے کی ہے وہ یہ ہے کہ لوگ ایک مہینہ روزہ رکھنے کے بعد شب عید اور عید کے دن سمجھتے ہیں کہ اب آزاد ہو گئے ہیں جو چاہیں انجام دیں، گویا کہ آج ہمارے سماج اور معاشرے میں ایسا ماحول پیدا ہوگیا ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ شب عید اور روز عید جو بھی گناہ چاہیں کر سکتے ہیں سب کچھ جائز ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہے، حرام چیز ماہ رمضان میں بھی حرام ہے اور عید کے دن بھی حرام رہے گی، ایسا نہیں ہے کہ ماہ رمضان کے بعد جو چاہیں انجام دیں خاص طور سے عید کے دن۔عام طور سے عید کا مفہوم ہمارے ذہن میں جو ہوتا ہے حقیقت میں ویسا نہیں ہے، معصومین علیہم السلام نے حقیقی اور واقعی عید کو بیان کیا ہے کہ حقیقی اور واقعی عید کون سی ہے اور کس کی ہے۔
شب عید کی فضیلت
پیغمبر اکرم (ص ) ارشاد فرماتے ہیں:
"جو شخص شب عید عبادت میں بسر کرے اس کا دل اس دن مردہ نہیں ہوگا جس دن قلوب مردہ ہوجائیں گے"*(ثواب الاعمال، ص76 ناشر۔ دار الشریف الرضی للنشر، قم)
روز فطر کو عید کیوں قرار دیاگیا؟
امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں:
روز فطر کو اس لئے عید قرار دیاگیا ہے تاکہ مسلمانوں کے لئے محل اجتماع قرار پائے، اور سب ایک ساتھ جمع ہو جائیں اور خدا کے لئے باہر آئیں اور خدا نے جو نعمتیں ان کوعطا کی ہیں اس کے بدلے میں اس کی تعریف اور بزرگی بیان کریں، روز فطر، روز عید ہے، روز اجتماع ہے، روزہ کو توڑنے کا دن ہے، فطرہ کا دن ہے، دوستی کا دن ہے، تضرع اور گریہ وزاری کا دن ہے"(من لا یحضرہ الفقیہ، ج1 ص522 ناشر۔ دفتر انتشارات اسلامی قم)
حقیقی اور واقعی عید
امیر بیان حضرت علی علیہ السلام ایک عید کے موقع پہ فرماتے ہیں: "یہ عید صرف ان لوگوں کے لئے ہے جن کا روزہ قبول ہو جائے اور جن کی نماز قابل قدر ہو جائے اور ویسے جس دن بھی پروردگار کی معصیت نہ کی جائے وہی روز، روز عید ہے "(نہج البلاغہ، حکمت 428)
سوید ابن غفلہ کا بیان ہے کہ:
"میں عید کے دن حضرت علی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا میں نے دیکھا کہ آپ کے سامنے دسترخوان بچھا ہوا ہے اور اس پر تھوڑی سی روٹی اور ایک ظرف میں خطیفہ (کھیر) چمچہ کے ساتھ رکھا ہوا ہے میں نے کہا اے امیرالمؤمنین عید کے دن اور یہ غذا؟ آپ نے فرمایا کہ یہ عید اس کی ہے جو بخش دیا گیا ہو"(بحار الانوار ج40 ص326 ناشر۔ دار احیاء التراث العربی ، بیروت)
عید کے دن ذکر خدا
پیغمبراعظم (ص) فرماتے ہیں:
"اپنی عیدوں کو اللہ اکبر کے ذکر سے زینت دو" (کنزالعمال ج8 ص546 ح24094)دوسری جگہ پہ آپ فرماتے ہیں:"عید فطر اور عید قربان کو لاالہٰ الااللہ، واللہ اکبر والحمد للہ اور سبحان اللہ کے ذکر سے زینت دو"(کنز العمال ج8 ص546 ح-24095)"پیغمبر اکرم(ص) عید کے دن جب گھر سے باہر نکلتے تھے تو جب تک نماز کی جگہ تک نہیں پہونچ جاتے تھے تکبیر کہتے رہتے تھے"(کنز العمال ج7 ص89 ح-18104)
عیدفطر انعام کا دن ہے
جناب جابر امام باقر علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا: شوال کے پہلے دن کی صبح میں ایک منادی آواز دیتا ہے:"اے مومنوں اپنا انعام لینے کے لئے صبح کرو، اور پھر آپ نے فرمایا: اے جابر خدا کا انعام بادشاہوں کے انعام کی طرح نہیں ہے، پھر فرمایا کہ عید فطر انعام کا دن ہے"(کافی ج4 ص168 ناشر-دارالکتب الاسلامیہ تہران)
عید کے دن اور قیامت کے دن میں مشابہت
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: حضرت علی علیہ السلام نے عید کے دن ایک خطبہ دیا اور فرمایا:"اے لوگوں یہ دن تمہارا ایسا دن ہے جس میں نیک عمل انجام دینے والے اجرو ثواب پائیں گے اور برے عمل انجام دینے والے نقصان اور گھاٹا اٹھائیں گے اور یہ دن قیامت کے دن سے کا فی مشابہت رکھتاہے، پس جب تم عید کی نماز کے لئے اپنے گھروں سے نکلو تو اس دن کو ضرور یاد کرو جب اپنے پروردگار کی بارگاہ میں کھڑے ہوگے اور جب اپنے گھروں کو واپس آنے لگو تو اس دن کو یاد کرو جب اپنے جنت یا جہنم کے گھروں میں پلٹو گے، اے خدا کے بندوں سب سے کم اور معمولی جو چیز روزہ دار مرد اور عورت کے لئے ہے وہ یہ کہ ماہ رمضان کے آخری دن ایک فرشتہ ان لوگو ں کو آواز دیتا ہے:اے خدا کے بندوں تمہارے لئے خوشخبری ہے کہ خداوند عالم نے تمہارے پچھلے گناہوں کو بخش دیاہے، پس محتاط رہو کہ اس کے بعد کیا کروگے اور کون سا فعل انجام دوگے"(بحارالانوار ج87 ص362 ناشر-داراحیاء التراث العربی بیروت)
عید کے سلسلہ سے امام سجاد علیہ السلام کی دعا
امام سجاد علیہ السلام خدا کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں:
"خدایا ہم تیری بارگاہ میں آج کے یوم الفطر میں جسے تو نے صاحبان ایمان کے لئے روز عید و مسرت قرار دیا ہے اور اپنے اہل ملت کے جمع ہونے کا سامان فراہم کیا ہے، ہر اس گناہ سے توبہ کر رہے ہیں جس کا ارتکاب کیا ہے، یا جو برائی ہم سے سرزد ہوئی ہے، یا جو برا خیال ہمارے دلوں میں پایا جاتاہے، اور یہ توبہ ایسی ہے جس میں دوبارہ گناہ کی طرف پلٹ کر جانے کا کوئی خیال نہیں ہے اور نہ ہی دوبارہ خطا کرنے کا کوئی ارادہ ہے، یہ ہماری توبہ ہر طرح کے شک و ریب سے پاک ہے، لہذا اسے قبول کر لے اورہم سے راضی ہو جا اور پھر ہمیں اسی توبہ پر ثبات قدم بھی عنایت فرما"(صحیفہ سجادیہ دعا نمبر45)
عید کے دن بہترین دعا
عید کے دن ہمارے لئے بہترین دعا یہی ہے جس کو ہم قنوت میں پڑھتے ہیں کہ:"میرے معبود ہمیں ہر اس خیر میں داخل کر دے جس میں تونے محمد(ص) اور آل محمد علیہم السلام کو داخل کیا ہے اور ہر اس برائی سے نکا ل دے جس سے تونے محمد اور آل محمد علیہم السلام کو نکالا ہے"معصومین علیہم السلام کے اقوال کو پڑھنے کے بعد یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ عید صرف نئے کپڑوں کے پہن لینے کا دن نہیں ہے، صرف خوشیاں منانے کا دن نہیں ہے اور نہ ہی ایسا ہے کہ ہم شب عید اور روز عید جو چاہیں انجام دیں سب معاف ہے، بلکہ عید انعام کا دن ہے، خدا کو زیادہ سے زیادہ سے یاد کرنے کا دن ہے، گناہوں سے بچنے کا دن ہے، توبہ اور استغفار کا دن ہے، آخرت اور قیامت کو یاد کرنے کا دن ہے، پیار و محبت اور صلح و آ شتی کا دن ہے، صلہ رحم کا دن ہے، عید کے دن تو ہم کو اور احتیاط کرنا چاہیئے اور گناہوں سے بچنا چاہیئے اس لئےکہ پورے ایک مہینہ ہم نے عبادت و بندگی میں گزارے ہیں، اور ہماری پوری کوشش یہی ہونا چاہئیے کہ یہ سلسلہ ہمیشہ اسی طریقہ سے باقی رہے، اس لئے کہ نیک عمل انجام دینا آسان ہے لیکن اسے ویسے ہی باقی رکھنا مشکل ہوتا ہے، اور ہم پورے یقین سے کہہ بھی نہیں سکتے کہ ہم نے ماہ مبارک میں جتنی عبادتیں انجام دیں اور جنتے روزے رکھے سب قبول ہوگئے، جب ایسا ہے تو پھر ہمیں چاہیئے کہ عید کے دن اپنی کوتاہیوں کا اعتراف کرتے ہوئے خدا سے سچے دل سے توبہ کریں اور بخشش و مغفرت طلب کریں۔
عید کے دن ہم شوق سے نئے کپڑے پہنیں، خوشیاں منائیں، لیکن ایک بات ضرور یاد رکھیں کہ ہمارا کوئی بھی فعل اور عمل شریعت کے خلاف نہ ہو، عید کی شب اور عید کے دن ہم ایسا کوئی فعل انجام نہ دیں جو اہل بیت علیہم السلام کی سیرت کے خلاف ہو، جو امام زمانہ عج اللہ تعالی فرجہ الشریف کی ناراضگی کا سبب بنے۔
آخر میں خداوند عالم سے یہی دعا ہے کہ خدا محمد(ص) وآل محمد علیہم السلام کے صدقہ میں ہمیں توفیق عنایت فرمائے کہ ہم اس طریقہ سے عید منائیں جو اہل بیت علیہم السلام کی خوشنودی کا سبب بنے اور خدا ہمیں ہر اس خیر میں داخل کردے جس میں تو نے محمد(ص) و آل محمد علیہم السلام کو داخل کیا ہے اور ہر اس برائی سے نکال دے جس سے تو نے محمد(ص) اور آل محمد علیہم السلام کو نکالا ہے۔