۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
عید

حوزہ/ تمام مسلمانوں کا اس دن نماز پڑھنا اورآپس میں گلے ملنا یہ اتحاد اور وحدت کی علامت ہے جو ایک  معاشرے کے لئے بہت ضروری اورمفید ہے اس عمل سے سب سے پہلے جو ذلیل و خوار ہو تا ہے وہ شیطان ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی مدیر قرآن وعترت فاونڈیشن،علمی مرکزقم،ایران حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا سید شمع محمد رضوی عید الفطر کی مناسبت سے اپنے ایک تحریری میں اشارہ کیا ہے؛

عید کے لغوی معنی :  کلمۂ عید عاد (عود) یعود سے ماخوذ ہے جس کے معنی پلٹنے کے ہیں شاید اسی لئے عید کے دن توبہ کی بہت زیادہ فضیلت بیان ہوئی ہے ،جسکا مفہوم عید سے بہت ہما ہنگ ہے ، اہل لغت نے عید کے معنی جشن اور خوشی کے بیان کئے ہیں۔

٢۔ عید کے اصطلاحی معنی  :  دینی اصطلاح میں عید وہ دن ہے جس دن انسان کوئی گناہ انجام نہ دے، جیسا کے روایتوں میں ملتا ہے کہ امیر المومنین فرماتے ہیں :ہر وہ دن جس میں اللہ کی نافرمانی اور معصیت نہ کی جائے وہ عید کادن ہے (١ )

٣۔عید قرآن مجیدکی روشنی میں :  لفظ عید قرآن میں خوشی اور جشن کے معنی میں ایک بار استعمال ہوا ہے ،جب جناب عیسیٰ کے چاہنے والے حواریوں نے آپ سے جنتی کھانے کی درخواست کی تو جناب عیسی نے خداوند عالم سے عرض کی : ''اللھم ربنا انزل علینا مائدةمن  السماء تکون لنا عید اً و لنا وآخرنا و آیةمنک وارزقنا وانت خیرالرّازقین '' خدایا ! ہمارے اوپر آسمان سے دسترخوان نازل فرما،تاکہ ہمارے اول و آخر کے لئے عید ہوجائے اور تیری قدرت کی نشانی بن جائے اور اس میں رزق دے کہ توبہترین رزق دینے والا ہے (۔٢)..... یہ بات واضح ہے کہ جناب عیسیٰ کا مطالبہ قوم کے تقاضے کی ترجمانی اور اپنی طرف سے اتمام حجت کی بنا پر تھا، ورنہ خدا کے نبی کو ان مادّی غذاؤں کی پرواہ نہیں ہوتی ، وہ راہ خدا میںہر طرح کی مصیبت برداشت کرنے کے لئے تیار رہتا ہے اور یہیں سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت عیسی کے حواریوں اور سرکار دوعالم کے مخلص اصحاب میں کس قدر فرق تھا کہ حواریوں نے طرح طرح کی غذائوں کا مطالبہ کیا اور اصحاب سرکار دوعالم ۖنے طرح طرح کی مصیبتوں کا سامنا کیا اوراف تک نہیں کہا ،اور اسی معیار کے پیش نظرامام حسین کو کہنے کا حق تھا کہ جیسے اصحاب مجھے ملے ویسے کسی کو نہیں ملے کہ تین دن کی بھو ک و پیاس کے باوجود آسمانی یازمینی غذائوں کا مطالبہ نہیں کیا، بلکہ راہ خدامیں جہاد کے لئے کمر بستہ رہے ......

۴۔عید حدیث کی روشنی میں :   رسول اسلا م  ۖنے فرمایا :''زینو العیدین بالتھلیل والتکبیر والتحمید والتقدیس'' عیدالفطر کے مبارک دن کو تکبیر ، تہلیل، حمد الٰہی اور اس کی تسبیح کے ذریعہ زینت بخشو۔ (٣)...حضرت علی  فرماتے ہیں :انّما ھو عید لمن قبل اللہ صیامہ و شکر قیامہ،یہ اس کی عید ہے جس کے روزے مقبول اور اس کا قیام مشکور ہے۔ (٤)امام حسین  نے عید کے دن کچھ لوگوں کو کھیل کود میں مست دیکھ کر اپنے اصحاب سے فرمایا: خداوند عالم نے رمضان المبارک کو بندوں کے لئے آزمائش قرار دیا ہے تا کہ امتحان میں کامیاب ہو کر اطاعت و بندگی اور خوشنودی خدا حاصل کر سکیں ،عید فطر کے دن لہو ولعب میں مصروف و مشغول ہو نے والوں پر مجھے تعجب ہو تا ہے کہ ایسے لوگ نقصان اور خسارے میں ہیں جو اس دن کھیل کو د میں مست رہتے ہیں ۔(٥)جب امام حسن  اور امام حسین نے اپنی مادر گرامی سے عید کے دن نئے کپڑے کی فرمائش کی توروایتوں میں ملتا ہے کے امام حسن اور امام حسین کے لئے رضوان جنت کو درزی بنناپڑا ،اوریہی نہیں بلکہ ان دونوں شہزادوں کے لئے جنت سے نئے لباس لے کران کے گھر آنا پڑا۔  (٦)چوتھے امام حضرت زین العابدین عید کے موقع پر اس طرح فرماتے ہیں :اللھم انا نتوب الیک فی یوم فطرناالذی جعلتہ للمومنین عیداو سرورا،'' خدایا! میں تیری بارگاہ میں عید فطر کے دن توبہ کرتاہوں کہ جس کو اہل ایمان کے لئے عید اور خوشی کا دن قرار دیا ہے'' (٧)روایتوں میں ملتاہے کہ آٹھویں امام علی رضانے عید کے دن غسل فرمایا ، سر پہ سفید عمامہ باندھا،ہاتھ میں عصا لیا ،برہنہ پا ہاتھ میں تسبیح و تحلیل کرتے ہوئے مصلیّٰ کی طرف بڑھے آپ کی زبان پر یہ کلمات جاری تھے!!اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر علی ما ھدانا اللہ اکبر علی ما رزقنا من بھیمتہ الا انعام  والحمد للہ علی مولانا ،،(٨) .....             

(۵) پہلی شوال کو روز عید ہونے کی  دو علّتیں ہیں: جسمانی اور معنوی ..(الف) جسمانی پہلو:   عید آنے پر یہ وہ پہلا دن ہے جہاں ایک مہینہ کے بعد دن میںکھانے پینے سے اب پرہیز نہیں ہے بلکہ مومنوں کو اجازت دی گئی ہے کہ افطاری کے ذریعہ اپنے روزوں کو توڑلیں کیونکہ فطر اور فطور کھانے اور پینے کی ابتدا کے معنی میں استعمال ہوا ہے ، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ کھانے اور پینے کی شروعات کے معنی میں بھی ہے چونکہ ایک مدت تک دن میں کھانے اور پینے سے پرہیز کیا جاتا ہے ، لہٰذا اب اجازت دی جاتی ہے کہ اس فعل کو انجام دیں ۔(٩)......(ب)معنوی اور روحانی پہلو:عید فطر کا دن وہ دن ہے جس دن کو خدا وند عالم نے انتخاب کیا ہے ، چونکہ یہ عید ایک مہینہ کے روزوشب کی بیداری کا نتیجہ ہے اسی وجہ سے خداوند عالم نے اسے انتخاب فرمایا ہے، یقینا عید کا دن وہ دن ہے جو خدا وند عالم سے بخشے جانے اور انعام لینے کا دن ہے ،یہ عید نیمئہ رمضان اور شب قدر کا ثمرہ اور سحر کے وقت مناجات اور گریہ و زاری کا انعام ہے ، اور شاید یہی وجہ ہے کہ امیرا لمومنین حضرت علی نے فرمایا :یہ عید اس کی ہے جس کے روزے مقبول اور اسکا قیام مشکور ہے۔ (١٠).............

(6) امیرالمومنین حضرت علی کے خطبہ(١) میں عید فطر کی خصو صیات :عید کا دن وہ دن ہے جس میں نیکی کرنے والے ثواب کے مستحق ہو تے ہیں ۔۔۔عید کا دن وہ دن ہے جس میں گناہ کرنے والے نقصان اور خسارے میں ہو تے ہیں۔۔۔۔عید کا دن وہ دن ہے جو قیامت کے دن کی شبیہ ہے۔۔۔۔عید کا دن وہ دن ہے جو عطا و بخشش کا دن ہے ۔۔۔عید کا دن وہ دن ہے جو توبہ اور استغفار کا دن ہے ....(٦)  شب عید الفطر کے اعمال(١١) :   ١۔غروب آفتاب کے بعد غسل کرنا ....٢۔چاند دیکھنے کی کوشش کرنا اور چاند دیکھتے وقت مخصوص دعائیں پڑھنا.....٣۔تمام شب مسجدوں میں خداوند عالم کی دعا ، استغفار جیسی عبادت میں بسر کرنا.....٤۔زیارت امام حسین پڑھنا....٥۔رمضان المبارک کے اعمال اور عبادات کے قبول ہونے کے لئے دس رکعت نماز پڑھنا۔....٦۔یا دائم الفضل علی البریہ یا باسط الیدین بالعطیہّ یاصاحب المواہب السنّیہ صل ّعلی محمد وآلہ خیر الوری سجیئةًواغفرلنا یا ذا العلی فیھذہ العشیّہ  کے ذکر کو پڑھنا... (٧ ) فطرہ نکالنا  (٨) دعائے ندبہ اور دعای فرج پڑھنا اور امام زمانہ کے ظہور کی دعا کرنا(٩)محا سبۂ نفس کرنا ( ١١) امام سجادسے منقول آخر ماہ رمضان المبارک کی الوداعی دعا پڑھناآخر شب میں غسل کرنا اور طلوع فجر تک مصلّٰی پر یاد خدا وندی میں مشغول رہنا......(٧) .اعمال روز عیدالفطر (١٢) :

١۔ طلوع فجر کے بعد اورنماز عید پڑھنے سے پہلے غسل کرنا۔٢۔نیا لباس پہننا،خوشبو لگانااور زیر آسمان نماز پڑھنا۔٣۔خرمایا مٹھائی سے عیدالفطر کی نماز پڑھنے سے پہلے افطار کرنا۔٤۔نماز پڑھنے سے پہلے فطرہ نکالنا۔٥۔زیارت امام حسین  پڑھنا۔٦ ۔دعائے ندبہ پڑھنا۔٧۔نماز عید کے لئے روانہ ہونے سے پہلے پانچویں امام کی دعا پڑھنا۔(١٣)عید آنے پر یہ وہ پہلا دن ہے جہاں ایک مہینہ کے بعد دن میںکھانے پینے سے اب پرہیز نہیں ہے بلکہ مومنوں کو اجازت دی گئی ہے کہ افطاری کے ذریعہ اپنے روزوں کو توڑلیں کیونکہ فطر اور فطور کھانے اور پینے کیابتدا کے معنی میں استعمال ہوا ہے ، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ کھانے اور پینے کی شروعات کے معنی میں بھی ہے چونکہ ایک مدت تک دن میں کھانے اور پینے سے پرہیز کیا جاتا ہے ، لہٰذا اب اجازت دی جاتی ہے کہ اس فعل کو انجام دیں (١٣).....                                   

۷ ۔:نماز عیدالفطر وحدت کا ایک نمونہ: تمام مسلمانوںکا اس دن نماز پڑھنا اورآپس میں گلے ملنا یہ اتحاد اور وحدت کی علامت ہے جو ایک  معاشرے کے لئے بہت ضروری اورمفید ہے اس عمل سے سب سے پہلے جو ذلیل و خوار ہو تا ہے وہ شیطان ہے جو انسان کا اندرونی نفس ہے تمام مسلمان آپس میں اختلاف کے باوجود معاشرہ کا خیال کرتے ہوئے ایک ساتھ بیٹھ کر خداوند عالم کی عبادت کرتے ہیں اور شیطان کو خود سے دور کرتے ہیںاوراس عمل سے جو دوسرا ذلیل وخوار ہو تاہے وہ ظاہری شیطان واستکبار ہے یہ تمام مسلمانوںکو متحد دیکھ کر کانپنے لگتا ہے اور اپنے اہداف ومقاصد سے مایوس نظرآنے لگتا ہے .....منابع:١۔مستدرک الوسائل ،٦٦٧٩ویں حدیث  ...٢۔سورئہ مائدہ،١١٤ویں آیت ، ساتواں پارہ....٣۔منتخب میزان الحکمتہ،٤٧٠٧ ویں حدیث...٤۔منتخب میزان الحکمتہ ،٤٧٠٠ ویں حدیث...٥۔وسائل الشیعہ جلد ٣ص ١٤٠،....٦۔مناقب ابن شہر آشوب.....٧۔ تحف العقول ص١٠٧....٨۔بحارالانوار جلد ٤٩ ص ١٣٤ ،١٣٥،...٩۔ثقافت اسلامی میں مفہوم عید پر مقالہ،،رہ توشہ راھیان نور،ص ٢٤٩..١٠۔المراقبات١٦٧،..١١۔میزان الحکمت جلد ٩ ،ص ٤٢٠١۔٤٢٠٢  ۔۔۔١٢۔مراقبات ماہ رمضان،باتلخیص ازص٤٥٨،١٣٤٧١۔مراقبات ما ہ رمضان با تلخیص ازص٤٥٨،٤٧١،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسلامی ثقافت میں ماہ شوال کا پہلا دن عید فطر یعنی فطرت کی طرف واپسی کا دن قرار دیا گیا ہے۔اس لئے کہ روزہ دار مسلسل ایک مہینہ اپنے پروردگار کی بارگاہ میںتوبہ و استغفار کرکے اپنے دل و جان کو تمام تر ظاہری و باطنی آلودگیوں سے پاک و صاف کرکے اپنی حقیقی فطرت کی طرف واپس آتاہے۔ حضرت امیر المومنین علیہ السلام عید کے اسی پہلو کو مد نظر رکھتے ہوئے فرماتے ہیں: ''انما ھو عید لمن قبل اللہ صیامہ و شکرقیامہ و کل یوم لا یعصی اللہ فھو عید''(١) یہ ان لوگوں کی عید ہے کہ جن کے روزوں کو پردردگارعالم نے قبول کر لیا ہو اور جن کی نماز کی ستائش کی ہو اور ہر وہ دن جس میں خدا کی نافرمانی نہ ہو عید کا دن ہے۔یقینا ترک گناہ اور برائیوں سے دوری کا دن اور شیطانوں پر غلبہ کا دن ہی عید کا دن ہے۔ لغت میں بھی عید فطر اسی معنی میں ہے، عید یعنی پیچھے واپس آنا، فطر یعنی فطرت و طبیعت۔مسلمان ایک مہینہ خدا کا مہمان رہتا ہے، جس کے نتیجے میں اس کا باطن پاک و پاکیزہ ہو جاتا ہے اور وہ اپنی حقیقی شخصیت کو پا لیتا ہے۔ ایک سال کی غفلت و نادانی اور گناہوں میں مبتلا ہو کر انسان اپنی پاک فطرت سے دور ہو جاتا ہے جس کے نتیجے میں خود فراموشی اور خدا فراموشی کا شکار ہو جاتا ہے۔لیکن رمضان المبارک آنے کے بعد مسلمان اس کے روحانی ماحول اور اپنی سعی و کوشش سے ایک نئی زندگی حاصل کرتا ہے کہ جسے ہم خودیابی سے تعبیر کر سکتے ہیں۔عید فطر کے دن ایک مسلمان گویا پھر سے پیدا ہوتا ہے۔ اس لئے کہ حضرت امیرالمومنین کا ارشاد گرامی ہے کہ شب عیدفطر روزہ دار تمام آلودگی اور برائی سے پاک ہو جاتا ہے اور اپنا کمترین انعام(یعنی پاک و پاکیزہ ہونا) پاتاہے۔ آپ ارشاد فرماتے ہیں:'' واعلموا عباداللہ ان ادنی ما للصائمین و الصائمات ان ینادیھم ملک فی آخر یوم من شھر رمضان؛ ابشروا عباداللہ! فقد غفر لکم ما سلف من ذنوبکم فانظروا کیف تکونون فیما تستانفون'' (٢) اے خدا کے بندو! جان لو کہ روزہ دار مرد اور عورت کے لئے کمترین انعام یہ ہے کہ رمضان المبارک کے آخری دن ایک فرشتہ آواز دیتا ہے کہ اے اللہ کے بندو!تمہیں بشارت ہو، خداوند متعال نے تمہارے تمام گزشتہ گناہوں کو بخش دیا ہے لہٰذا دیکھو اس کے بعد تم کس طرح عمل کرتے ہو۔شیخ مفید تحریر فرماتے ہیں کہ ماہ شوال کا پہلا دن اہل ایمان کے لئے عید اس لئے مقرر کیا گیا ہے کہ وہ اپنے اعمال کے قبول ہونے اور گناہوں کے بخشے جانے پر خوش ہیں اور اس لئے کہ خدا نے ان کے گناہوں کو بخش دیا ہے اور ان کے عیبوں پر پردہ ڈال دیا ہے اور ان کو بہترین انعام و اکرام کی بشارت دی ہے اور اس لئے کہ وہ رمضان المبارک میں اپنی دن و رات کی محنت و مشقت کے نتیجے میں چند قدم اپنے پروردگار سے قریب ہو گئے ہیں بہت ہی زیادہ خوش ہیں۔عید کے دن غسل کا مستحب قرار دیا جانا گناہوں سے پاک ہونے کی نشانی ہے۔ عطر لگانا،پاک و پاکیزہ لباس زیب تن کرنا، صحرا میں جاکر زیر آسمان نماز پڑھنا یہ سب خوشی کی نشانیاں ہیں۔                                               

۸ عید فطر میں روزہ داروں کے مراتب:    اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ عید فطر کی آمد پر ہر مسلمان خوش ہوتا ہے لیکن اس باعظمت دن سے ہر مسلمان فیض حاصل نہیں کرتا، ہر شخص اپنی معرفت اور ایمان کی حد تک اس سے بہرہ مند ہوتا ہے۔ اسی جہت سے عارف واصل مرزا جواد آقا ملکی تبریزی قدس سرہ روزہ داروں کو پانچ حصوں میں تقسیم کرتے ہیںاور کم ترین سطح کے بارے میںتحریر فرماتے ہیں: ''روزہ داروں کا ایک گروہ روزہ کی حقیقت سے ناواقف ہوتا ہے، بھوک و پیاس کی تکلیف برداشت کرتا ہے، دوسرے مبطلات سے پرہیز کرتا ہے اور اپنے اسی عمل کو اطاعت سمجھتا ہے، لیکن اپنے اعضاء و جوارح کو گناہوں سے محفوظ نہیں رکھتا، جھوٹ، غیبت اور تہمت سے اپنی زحمتوں کو برباد کر دیتا ہے۔ خداکے نزدیک ان کی کوئی منزلت نہیں ہوتی مگر یہ کہ یہ لوگ عید کے دن خدا کے فضل کی امید کے ساتھ اس کی بارگاہ میں حاضر ہوکر توبہ و استغفار کریں''۔اور بلندترین سطح کے روزہ داروں کے بارے میں لکھتے ہیں کہ یہ وہ روزہ دار ہیں کہ جو ندائے الٰہی کی لذت میں اپنی بھوک و پیاس اور شب زندہ داری کی تکلیف بھول جاتے ہیں، اشتیاق و بے تابی کے ساتھ اس کی بارگاہ میں حاضر ہوتے ہیں، تیزی کے ساتھ سیر و سلوک کی منزلوں کو طے کر کرتے ہیں اور دل و جان سے رب الارباب کی آواز پرلبیک کہتے ہیں۔خداوندعالم اپنی بارگاہ میں اس گروہ کے اعمال کو حسن قبولیت سے نوازتا ہے اور انھیں مقام قرب اور مقام ''او ادنیٰ'' عطا کرتا ہے۔ عید فطر اور سماجی و اقتصادی مشکلات کا حل:عید فطر کے سماجی و اقتصادی پہلوؤں میں سے زکات فطرہ ایک اہم عنصر ہے۔ اس کے ذریعے اسلامی معاشرے سے فقر اور دوسری اجتماعی مشکلوں کو دور کیا جاسکتا ہے اور اسے اقتصادی ترقی کی راہ پر لایا جا سکتا ہے۔ غریبوں کی مدد کے علاوہ اسلام میں فطرہ کے دوسرے مصارف ہیں مثلاً زکات فطرہ کی رقم کو مسلمانوں کے سماجی کاموں میں خرچ کرنا، مقروض کا قرض ادا کرنا، اس رقم سے مسجد، مدرسہ، اسکول، پل، راستہ اور اسپتال بنوانا اور مسلمانوں کی دوسری تمامجائز ضرورتوں کا پورا کرنا۔ اسی طرح فطرے کی رقم کو ضعیف الایمان اور ضعیف الاعتقاد مسلمانوں کے ایمان اور عقیدے کی تقویت کے لئے بھی خرچ کیا جاسکتا ہے۔زکات فطرہ ادا کرکے اور اس کو ان امور میں خرچ کرکے مسلمان رمضان المبارک میں نماز کے بعد پڑھی جانے والی دعاؤں کے کچھ حصوں پر عمل کرتا ہے اور چونکہ زکات فطرہ کو قصد قربت کے ساتھ ادا کیا جاتا ہے لہٰذا اسے مادیات کے ذریعے معنویات تک پہونچنے کا ایک راستہ بھی شمار کیا جاتا ہے۔اسی لئے کہا جاتا ہے کہ روزے کا قبول ہونا زکات کے ادا کرنے پر منحصر ہے، کیوں کہ زکات ادا کرنا مادی وابستگی اور خواہشات نفسانی سے جدائی کا اعلان ہے۔ انسان اگر فطرت الہی اور عہد فطری (ألست)  کی طرف پلٹنا چاہتا ہے تو اسے مادیات کی زنجیر سے آزاد ہونا پڑے گا، حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں :''تخففوا تلحقوا'' اپنے کو ہلکا کرو تا کہ (مقصد ) تک پہونچ جاؤ۔(٤) وصال حق کے لئے سنگین وزن اور دنیاوی وابستگی موزوں نہیں ہے، سورۂ اعلی میں ارشارد ہوتا ہے:(قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکَّیٰ وَذَکَرَ اسْمَ رَبِّہِفَصَلَّیٰ) یقینا وہ شخص کامیاب ہے جو (زکات ادا کرکے) اپنا تزکیہ کرے اور اپنے پروردگار کے نام کا ذکر کرے اور نماز پڑھے۔(٥)اس آیت کا ایک مصداق عید فطر اور زکات فطرہ ہے۔ روایات میں ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم عید کے دن مسجد جانے سے قبل فطرہ کو مستحقوں میں تقسیم کر تے تھے اور اس آیت کی تلاوت فرماتے تھے۔(٦)عید فطر اور شعائر اسلامی کی تعظیم:خداوندعالم کا ارشاد ہے: (وَ مَنْ یُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللّٰہَ فَاِنَّھَا مِنْ تَقْوَیٰ الْقُلُوْبِ) اور جس شخص نے خدا کی نشانیوں کی تعظیم کی تو کچھ شک نہیں کہ یہ بھی دلوں کی پرہیزگاری سے حاصل ہوتی ہے۔ (٧)عید فطر کی دوسری خصوصیت، شعائر الٰہی کی تعظیم ہے۔ تکبیر، تہلیل، تحمید اور تقدیس کے نعروں سے عید کے دن کو ایک خاص رونق ملتی ہے۔ایک مسلمان کا فریضہ ہے کہ مختلف راستوں سے توحید کی حیات بخش آواز کو دنیا والوں کے کانوں تک پہونچائے، اس کا ایک راستہ ''مذہبی نعرہ'' ہے۔ حضرت رسول خداۖ فرماتے ہیں: ''زینوا اعیادکم بالتکبیر'' (٨) اپنی عیدوں کو تکبیر سے زینت دو، ایک دوسری حدیث میں ارشاد ہوتا ہے: ''زینوا العیدین بالتھلیل و التکبیر والتحمید والتقدیس''(٩) عیدفطر اور عیدقربان کو لاالہ الا اللہ، اللہ اکبر، الحمد للہ اور سبحان اللہ سے زینت دو۔ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود بھی ایسا ہی کرتے تھے، آپ عید کے دن نماز کے لئے جب اپنے بیت الشرف سے باہر آتے تھے تو راستے میں بلند آواز سے ''لاالہ الا اللہ'' اور ''اللہ اکبر'' کا نعرہ لگاتے تھے۔حضرت امام رضا علیہ السلام عید کے دن نعرۂ تکبیر (اللہ اکبر) لگانے کے بارے میں فرماتے ہیں: ''تکبیر، خدائے متعال کی تعظیم اور ا س کی ہدایتوں اور نعمتوں پر شکر ہے۔ (١٠)...............

۹ عید فطر اور وحدت مسلمین:عید الفطر کا عظیم اجتماع مسلمانوں کے درمیان باہمی تعلقات اور ہمدلی کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے، اس اجتماع میں مسلمان ایک دوسرے کے نظریات، مشکلات اور پریشانیوں سے آگاہ ہوتے ہیں، اس اجتماع میں بغض و کینہ، دوستی اور ہمدلی میں تبدیل ہوتا ہے، جب مومنین ایک صف میں کھڑے ہوتے ہیں تو اتحاد و ہمدردی کا احساس پیدا ہوتا ہے۔عیدفطر ایک طرف خدا اور انسان میں معنوی تعلق ہے تو دوسری طرف اپنے ہم نوع کے ساتھ تعلق اور رابطہ بھی ہے۔حضرت امام سجاد علیہ السلام عید کے دن کو جشن و سرور و اجتماع اورآپس میں ایک دوسرے کی مدد کا دن جانتے ہیںاور فرماتے ہیں: ''اللھم انا نتوب الیک یوم فطرنا الذی جعلتہ للمومنین عیدا و سرورا و الاھل ملتک مجمعا و محتشدا'' پروردگارا! ہم عید کے دن تیری طرف پلٹ رہے ہیں، وہ دن کہ جس کو تونے اہل ایمان کے لئے عید اور اپنے اہل ملت کے لیے اجتماع و تعاون کا دن قرار دیا ہے۔ (١١)

معاشرے کی معنوی، اقتصادی اور اجتماعی تبدیلی میں عیدفطر کے کردار کے متعلق حضرت امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں : ''انما جعل یوم الفطر العید، لیکون للمسلمین مجتمعا یجتمعون فیہ و یبرزون للہ عز وجل فیمحد ونہ علی ما منَّ علیہم، فیکون یوم عید و یوم اجتماع و یوم زکات و یوم رغبة و یوم تضرع و...فاحب اللہ عز وجل ان یکون لہم فی ذٰالک مجمع یحمدونہ فیہ و یقد سونہ'' عیدفطر کا دن معین کیا گیا ہے تاکہ مسلمان اس دن ایک جگہ جمع ہوںاور خدا کے لئے ظاہر ہوںاور اس کی نعمتوں کا شکرانہ ادا کریں، یہ دن عید کا دن ہے، اجتماع کا دن ہے، فطر کا دن ہے، زکات کا دن ہے، رغبت اور تضرع... کا دن ہے، خدائے عظیم چاہتا ہے کہ مسلمان اس دن اکٹھا ہوں اور اس کی مدح و ثنا کریں۔ (١٢).....

10 عید فطر اور سیاسی تحریکیں:تاریخ اسلام میں عید فطر کا اجتماع اس قدر اہم اور انقلاب آفریں تھا کہ سیاسی رہنماؤں نے بھی اس سے استفادہ کیا ہے مثلا بنی امیہ کے مقابلے میں ابومسلم خراسانی کی سیاسی تحریک، ابومسلم نے سلیمان بن کثیر کو حکم دیا کہ عید کی نماز ادا کرے اور اپنے خطبے میں لوگوں کو بنی امیہ کے خلاف ورغلائے۔سلیمان نے بھی نمازعیدفطر کے خطبے میں اپنے انقلاب کا اعلان کیا۔اور اس طرح   ١٢٩ھ میں عید فطر کے دن ماوراء النہر کے شہروں میں لوگوں نے اپنی مخالفت کا اعلان کیا اور مختصر سی مدت میں بنی امیہ کا قصہ ختم کردیا۔ (١٣)......حضرت امام رضا علیہ السلام کی نماز عید کا منظر:تاریخ اسلام میں حضرت امام رضاعلیہ السلام کی نماز عید کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے، اس حماسہ تحریک سے پتہ چلتا ہے کہ اگر ائمہ معصومین علیہم السلام کو اسلامی معاشرے میں نماز عیدفطر عیدقربان سے استفادہ کا موقع ملتا تو یہ عیدیں مسلمانوں کے لئے کتنی نتیجہ خیز ہوتیں۔ سیرت معصومین علیہم السلام میں ان عیدوں سے آشنائی اور اسلامی دنیا میں اس تحریک کی عظمت اور اس کے معنوی و سیاسی کردار کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے:پہلی رمضان المبارک   ٢٠١ھ میں حضرت امام رضا علیہ السلام کی ولیعہدی کا اعلان ہوا اور جب عید کا موقع آیا تو مأمون نے حضرت سے نماز عیدپڑھانے کی درخواست کی تو امام علیہ السلام نے فرمایا: میں نے ولی عہدی اس شرط پر قبول کی تھی کہ مجھے اس طرح کے امور سے معاف رکھا جائے۔ لیکن مأمون نے اصرار کرتے ہوئے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ اس عمل سے لوگوں کا دل مطمئن ہو جائے اور لوگوں پر آپ کی فضیلت عیاں ہو جائے۔ مأمون مسلسل اصرارکرتا رہا اور حضرت مسلسل انکار کرتے رہے لیکن آخرکار امام علیہ السلام نے فرمایا کہ اے مأمون! اگر مجھے اس امر سے معاف رکھے تو بہتر ہے اور اگر تو چاہتا ہے کہ میں نماز عید ادا کروں تو میں نماز کے لئے اسی طرح اپنے گھر سے نکلوں گا جس طرح حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نکلتے تھے۔ مأمون نے کہا : آپ کو اختیار ہے، آپ جس طرح چاہیں نماز پڑھائیں۔ پھر حکم دیا کہ تمام لوگ عید کے دن علی الصباح امام کے دروازے پر اکٹھا ہو جائیں۔ یہ خبر پاتے ہی لوگ بے تابی سے اس گھڑی کا انتظار کرنے لگے، جب خورشید طلوع ہوا تو امام نے غسل کیا، سفید عمامہ سرپر رکھا جس کا ایک سرا سینے پر اور دوسرا سرا شانوں کے درمیان آویزاں کیا، کمر میں پٹکا باندھااور اپنے چاہنے والوں کو حکم دیا کہ وہ بھی ایسا ہی کریں، پھر حضرت نے عصا لیا اور پابرہنہ بیت الشرف سے باہر آئے اور اپنے چاہنے والوں کے حلقے میں عیدگاہ کی طرف چل پڑے۔گھر سے نکلتے ہی آپ نے آسمان کی جانب دیکھا اور چارمرتبہ تکبیر کہی، ان تکبیروں میں ایسی خاص روحانیت تھی کہ گویا زمین و آسمان اور در ودیوار بھی آپ کے ہم صدا ہوگئے۔ گھر کے باہر قوم کے بزرگ، فوجی دستہ اور تمام لوگ صف بستہ کھڑے تھے، جب امام اور امام کے چاہنے والوں کو اس حالت میں دیکھا تو بے ساختہ تکبیر کہنے لگے۔پورے شہر مرو میں تکبیروں کی آواز گونجنے لگی، دیدار اہل بیت علیہم السلام کے مشتاق ہزاروں لوگوں کے نالہ وشیون نے شہر کو ہلا کررکھ دیا، امام کو دیکھتے ہی لوگ اپنی اپنی سواریوں سے نیچے اتر کر برہنہ پا ہوگئے اور امام کے پیچھے پیچھے چلنے لگے۔امام بھی پاپیادہ تھے اور ہر قدم پر رک رک کر تین بار رتکبیر کہتے پھر آگے بڑھتے۔امام کے خادم جناب یاسر بیان کرتے ہیں : ہم لوگوں کو یہ احساس ہو رہا تھا کہ زمین و آسمان، کوہ و دشت سب کے سب آپ کے ہم آواز ہوکر تکبیریں کہہ رہے ہیں۔ مأمون کے وزیر فضل ابن سہل نے جب یہ منظر دیکھا تو مأمون سے کہا: اگر (امام) رضا اس حالت میں مصلے تک پہونچ گئے تو لوگوں کو سنبھالنا بہت مشکل ہو جائے گا اور ہو سکتا ہے کہ ایک اشارے میں ہی تیری حکومت کا تختہ پلٹ جائے، لہذا بہتر ہوگا انھیں واپس بلا لے۔مأمون نے فوراً اپنا نمائندہ بھیجا اور امام سے درخواست کی کہ آپ واپس آجائیں، امام نے اپنا نعلین طلب کیا اور مرکب پر سوار ہوکر واپس آگئے۔یہ روایت جہاں امام رضا کی اس دور اندیشی کو ظاہر کرتی ہے جو انھو ں نے مامون کی شیطانی سیاست کو ختم کرنے کے لئے اپنائی وہاں عید جیسی عظیم عبادت کے حوالے سے اہلبیت علیہم السلام کی سیرت کو بھی بیان کرتی ہے کہ اس عظیم سیاسی اور مذہبی عبادت کو کس طرح انجام دینا چاہیئے اور یہ اسلام کا سالانہ عظیم اجتماع کس طرح مسلمانوں کی تقدیر کو بدل سکتا ہے اور اس عبادت کو خالق کی رضا حاصل کرنے کے ساتھ مخلوق کی مشکلات کو حل کرنے کے لئے کس طرح مؤثر بنایا جاسکتا ہے۔ اور امام توکہتے ہی اسے ہیں جس کے ایک عمل میں کئی حکمتیں پائی جاتی ہوںجہاں خالق کائنات کی اطاعت بھی ہوجائے اور مخلوق کے مسائل بھی حل ہو سکیں۔ ۔۔۔۔۔   

( حوالہ جات ١۔نہج البلاغہ: حکمت ۴٢٨۔    ٢۔امالی شیخ صدوق: ص ١٠٠۔۔۔۔۔ ٣ ۔مسار الشیعہ: ص٣٠۔۔۔۔۔۔ ۴ :نہج البلاغہ: خطبہ٢١۔۔۔۔۔۔۔٥: سورہ اعلیٰ١۴و١٥۔۔۔۔۔۔ ٦۔ تفسیر المیزان: ذیل تفسیر سورہ اعلیٰ ۱۴۔۔۔۔۔  ۷:۔سورۂ حج٣١۔ ۔۔۔۔۔٨: کنزل العمال: ح ۲۴۰۹۴۔۔۔۔۔۔۔  ٩:کنزل العمال: ح۲۴۰۹۵۔۔۔۔ ۔عیون اخبار الرضا: ج١، ص١٢٢۔۔۔۔۔  ١١: صحیفہ سجادیہ: دعائے ۴۵۔۔۔۔۔۔  ١٢: وسائل الشیعہ: ج۷، ص۴۸۱، ح۴۔۔۔۔ ١٣۔ تاریخ طبری: ج٦، ص٢٦۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .