۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
عید سعید فطر کی فضیلت اور اعمال

حوزہ/ماہِ رمضان بندگی تک پہنچنے کا ذریعہ اور عید الفطر بندگی کی ترقی کا دن ہے۔

تحریر: دانش عباس خان اعظمی

حوزہ نیوز ایجنسیکل شام کچھ جوان لڑکوں نے کہا چلتے ہیں کھنبات کے سمندر کا نظارہ کرنے ہوا تیز چل رہی ہے معلوم ہوتا ہے سمندر کا پانی سمندر کے کنارے چڑھ رہا ہے چونکہ عام دنوں میں پانی ۵،۶ کیلو میٹر کی دوری پہ ہوتا ہے عموماً وہاں تک پیدل لوگ نہیں جا پاتے ہیں مگر جس وقت شہر کے لوگ تیز ہوا کے جھونکوں کا احساس کرتے ہیں تو سمجھ جاتے ہیں کہ سمندر کے کنارے پانی چڑھ رہا ہے تو شہر سے بعض لوگ سمندر کے پانی کا نظارہ کرنے کیلئے جاتے ہیں تو بعض نہانے کی خاطر اور کچھ مچھوارے مچھلی پکڑنے کی غرض سے چل پڑتے ہیں اس لئے کل ہم بھی بعض جوان لڑکوں کے کہنے پہ سمندر کا نظارہ کرنے نکل پڑے وہاں پہنچنے پہ مچھواروں کو دیکھا کہ ان کے کندھوں پہ مچھلیاں پکڑنے کا جال ہے اور پیٹھ پہ بظاہر کھانے کی چھوٹی گٹھری باندھے ہیں اور ساتھ میں کچھ لکڑیاں ہیں جو ان کے قد سے کچھ لمبی ہیں جسکو پانی میں لئے اتر رہے ہیں جیسے جیسے آگے بڑھتے جاتے ہیں ایک ایک لکڑی کافی فاصلے پہ دھنساتے چلے جا رہے ہیں نوجوان ساتھیوں سے پتہ کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ مچھوارے مچھلیاں پکڑنے کے لئے ۳،۴ کیلومیٹر دور چلے جاتے ہیں جب گھر واپس آنا چاہتے ہیں تو یہ لکڑیاں نشانِ راہ کا کام کرتی ہیں جو ان کو منزل تک واپس لانے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں ورنہ اگر یہ لکڑیاں نہ ہوں تو پھر واپسی میں مچھوارے راستہ بھول جائیں گے اور سمندر میں گھومتے ہی رہ جائیں گے نتیجے میں سمندر کے ہی ہوکر رہ جائیں گے۔اب اس مثال کی روشنی میں خدا کے مومن بندہ ہونے کی حیثیت سے ہم اپنی زندگی کا جائزہ لیتے ہیں:

ہماری زندگی میں بارہ مہینے آتے ہیں جس میں ایک مہینہ وہ عظیم مہینہ ہے جسے ماہِ مبارکِ رمضان کہا جاتا ہے جو ہماری زندگی میں اللہ کی بندگی تک پہونچانے میں نشانِ راہ بنانے کی حیثیت رکھتے ہیں جس میں بندے کو منزل تک پہونچنے کیلئے ایسے ہی نشانِ راہ کھڑا کرنا ہے جیسے ایک مچھوارا گھر تک پہونچنے کیلئے لکڑیوں کا نشان بناکر کھڑا کرتا ہے۔۔۔۔۔جس طرح سے مچھوارا اگر لکڑیوں کو نہیں کھڑا کرے تو پھر سمندر کا ہی ہوکر رہ جائے گا اسی طرح اگر بندہ ماہِ رمضان میں گناہوں سے نکلنے کیلئے اپنے نفس کے سمندر اور دلدل میں تقوی کا نشان اور علامت نہ بنائے تو پھر وہ نفس کا بندہ ہوکر رہ جائے گا بلکہ خواہشاتِ نفسانی کے سمندر میں اس کا ایمان برباد ہوکر رہ جائے گا نتیجہ میں اس کی بندگی خود اس کی خواہشات کے دلدل میں دفن ہوکر رہ جائے گی بظاہر وہ گیارہ مہینے زندہ رہے گا مگر چلتی پھرتی لاش کہلائے گا۔

مگر بندہ اگر مچھوارے کی طرح نشان راہ( لکڑیوں) کے سہارے بندگی کی منزل کو پالیتا ہے تو پھر اس کا ایک دن عید کا دن نہیں ہوتا ہے بلکہ پورا سال عید کا دن کا کہلاتا ہے
اسی لئے خطیب نہج البلاغہ امیر المؤمنین امام علی علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:کُلَّ یَومٍ لَا یُعصَیَ اللهُ تَعالَی فِیهِ فَهُوَ یَومُ عِیدٍ (کلمات قصار/۴۲۰) ہر وہ دن جس میں معصیتِ پروردگار نہ کیا جائے وہی عید کا دن ہے۔گویا کہ عید بندگی کی ترقی کا دن ہے جس کو پانے کیلئے ماہ رمضان بہترین زمانہ ہے جس کا ہر لمحہ سبق آموز اور نشانِ راہِ بندگی کی حیثیت رکھتا ہے۔

آخر کلام میں مذکورہ مضمون سے مربوط دعائے سحر کے ان فقروں کا سہارا لیتے ہیں جس میں بندہ سحر کے وقت رات کی تاریکی میں باب رحمت پہ دستک دے رہا ہوتا ہے :

إِلهِي وَقَفَ السَّائِلُونَ بِبابِكَ، وَلاذَ الفُقَراءُ بِجَنابِكَ وَوَقَفَتْ سَفِينَةُ المَساكِينِ عَلى ساحِلِ بَحْرِ جُودِكَ وَكَرَمِكَ يَرْجُونَ الجَوازَ إِلى ساحَةِ رَحْمَتِكَ وَنِعْمَتِكَ. إِلهِي إِنْ كُنْتَ لاتَرْحَمُ فِي هذا الشَّهْرِ الشَّرِيفِ إِلاّ مَنْ أَخْلَصَ لَكَ فِي صِيامِهِ وَقِيامِهِ فَمَنْ لِلْمُذْنِبِ المُقَصِّرِ إِذا غَرِقَ فِي بَحْرِ ذُنُوبِهِ وَآثامِهِ؟
إِلهِي إِنْ كُنْتَ لاتَرْحَمُ إِلاّ المُطِيعِينَ فَمَنْ لِلْعاصِينَ؟ وَإِنْ كُنْتَ لاتَقْبَلُ إِلاّ مِنَ العامِلِينَ فَمَنْ لِلْمُقَصِّرِينَ؟ إِلهِي رَبِحَ الصَّائِمُونَ، وَفازَ القَائِمُونَ، وَنَجا المُخْلِصُونَ، وَنَحْنُ عَبِيدُكَ المُذْنِبُونَ. فَارْحَمْنا بِرَحْمَتِكَ، وَاعْتِقْنا مِنَ النَّارِ بِعَفْوِكَ، وَاغْفِرْ لَنا ذُنُوبَنا بِرَحْمَتِكَ. يا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ.
( نقل از مفاتیح الجنان صفحہ ۲۵۳ )

پروردگار سوال کرنے والے تیرے در پر کھڑے ہیں اور فقراء تیرے حضور میں ہیں اور مسکینوں کا سفینہ تیرے جود و کرم کے ساحل پر ٹھہر گیا ہے مقصد یہ ہیکہ یہاں سے آگے بڑھ کر تیری رحمت و نعمت پا لیں، پروردگار اگر اس ماہِ شریف میں صرف ان پر رحم کرے گا جو تیرے صیام و قیام میں مخلص ہیں تو پھر اس کا کیا ہوگا جو اپنے گناہوں کے سمندر میں غرق ہیں؟ پروردگار اگر اطاعت گزاروں پہ رحم کرے گا تو جو گنہگار ہیں ان کا کیا ہوگا؟ پروردگار اگر عمل کرنے والوں کے اعمال قبول کرے گا تو کوتاہی کرنے والوں کا کیا ہوگا؟ پروردگار روزہ داروں نے فائدہ اٹھا لیا، نماز گزار کامیاب ہوگئے اور مخلصوں نے نجات حاصل کر لی ہم تو تیرے گنہگار بندے ہیں، اپنی رحمت سے ہم پر رحم فرما، اپنے عفو سے ہمیں جھنم سے آزاد کردے، اپنی رحمت سے ہماری مغفرت فرما، اے بہترین رحم کرنے والے۔

اس دعا کے فقروں سے واضح ہیکہ ماہ رمضان مسلسل گناہوں کے دلدل اور خواہشات نفسانی کے سمندر سے اپنے آپ کو باہر نکالنے کا بہترین ذریعہ ہے جہاں سے بندہ اس کے حَسین لمحات کو طے کرکے بندگی کے کمال کو حاصل کر سکتا ہے پھر اس کا آنے والا عید کا دن حقیقی معنوں میں بندگی کے ترقی کا دن کہلائے گا۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .