اتوار 13 اپریل 2025 - 07:05
مرجع عالیقدر حضرت آیت اللہ العظمی سید حسین طباطبایی بروجردی رضوان اللہ علیہ

حوزہ/ 13 شوال ؛ مرجع عالیقدر حضرت آیت اللہ العظمی سید حسین طباطبایی بروجردی رضوان اللہ علیہ کے رحلت کی تاریخ ہے۔ اس موقع پر مرجع عالیقدر کی مختصر سوانح حیات قارئین کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہے۔ 

حوزہ نیوز ایجنسی | 13 شوال ؛ مرجع عالیقدر حضرت آیت اللہ العظمی سید حسین طباطبایی بروجردی رضوان اللہ علیہ کے رحلت کی تاریخ ہے۔ اس موقع پر مرجع عالیقدر کی مختصر سوانح حیات قارئین کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہے۔

ولادت و خاندان

سید حسین احمدی طباطبائی 1254 ہجری شمسی میں بروجرد میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد مرحوم آقا سید علی طباطبائی اور والدہ دونوں، سید محمد طباطبائی کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے، جو ایک علمی اور دینی خاندان تھا۔

آیت اللہ بروجردی، آمنہ بیگم مجلسی (جو ملا محمد تقی مجلسی کی بیٹی تھیں) کے بڑے پوتے تھے۔ انہوں نے ایک رسالے میں، جس میں اپنے خاندان کی علمی شیعہ سلسلے سے نسبت کو بیان کیا، آمنہ بیگم کے بارے میں لکھا: "یہ روایت میری جدہ، عالمہ، فاضلہ، زاہدہ، عابدہ آمنہ نے اپنے والد علامہ مولیٰ محمد تقی مجلسی سے نقل کی ہے۔

تعلیم اور اساتذہ

سید حسین طباطبائی نے سات سال کی عمر میں بروجرد میں دینی تعلیم کی ابتدا کی۔ پھر 1271 ہجری شمسی میں اپنے والد کے مشورے سے اصفہان گئے تاکہ وہاں کے حوزہ علمیہ میں اپنی تعلیم مکمل کر سکیں۔ انہوں نے جامع المقدمات، سیوطی، منطق اور گلستانِ سعدی مکتب میں پڑھی، اور نحو، صرف، بدیع، فقہ و اصول جیسے علوم مدرسہ نوربخش میں سیکھے۔1

انہوں نے اپنے چچازاد بھائی آقا نوح الدین کے ساتھ مدرسہ صدر میں رہائش اختیار کی۔ آقا نوح الدین نے ابتدا میں ہی ان سے کہا: اگر تم علم حاصل کرنے اور تدریس میں کامیاب ہونا چاہتے ہو تو علمی محفلوں میں سوالات کرو اور اساتذہ سے گفتگو کرو، ورنہ گمنامی میں زندگی گزرے گی۔2

ان کے دیگر اساتذہ میں سید محمد باقر درچئی، ملا محمد کاشی، میرزا ابوالمعالی کلباسی، سید محمد تقی مدرس، اور معروف حکیم میرزا جہانگیر قشقائی شامل تھے۔

آیت اللہ بروجردی کو ربیع الاول 1314 ہجری قمری میں ان کے والد نے بروجرد واپس بلایا، جہاں انہوں نے 22 سال کی عمر میں شادی کی۔3 کچھ مہینوں بعد وہ دوبارہ اصفہان چلے گئے۔4

1320 ہجری قمری (1280 شمسی) میں وہ اپنے چھوٹے بھائی سید اسماعیل کے ساتھ نجف اشرف روانہ ہوئے۔ اس وقت وہ 28 برس کے تھے اور ایک جوان مجتہد سمجھے جاتے تھے۔ انہوں نے آیت اللہ آخوند ملا محمد کاظم خراسانی کے درس میں شرکت کی اور ان کے خاص شاگرد بن گئے۔ شاگردوں نے ان سے درخواست کی کہ استاد کے درس کو مزید وضاحت کے ساتھ بیان کریں۔ یوں انہوں نے استاد کے دروس کی تقاریر شروع کی۔5 بعد میں انہیں اپنے استاد سے اجازہ اجتہاد ملا۔

نجف اشرف میں انہوں نے آخوند خراسانی کے علاوہ شیخ الشریعہ اصفہانی اور سید محمد کاظم یزدی جیسے بزرگ علماء سے بھی علم حاصل کیا۔ وہ خود بھی طلبہ کو اصول فقہ کے موضوع "فصول" کی تعلیم دیتے رہے۔ آخرکار 1328 ہجری قمری کے آخر میں والد کے اصرار پر بروجرد واپس آ گئے۔6

تدریس اور شاگرد

آیت اللہ بروجردی کا ارادہ تھا کہ وطن میں مختصر قیام کے بعد نجف واپس جائیں، لیکن والد کی بیماری اور وفات نے ان کا ارادہ بدل دیا۔ آخوند خراسانی کے محبت بھرے تعزیتی پیغام نے انہیں تسلی دی اور نجف میں ان سے ملاقات کا اشتیاق ظاہر کیا تاکہ وہ یہاں کے تمام امور سے فارغ ہوکر نجف تشریف لے آئیں۔ لیکن جیسے ہی وہ نجف جانے کی تیاری کر رہے تھے، انہیں استاد کے رحلت کی خبر ملی، جس سے وہ شدید غمگین ہوئے۔ وہ کہا کرتے تھے: "چھ مہینے کے اندر دو باپ (والد و استاد ) کی وفات میرے لیے بہت بھاری تھی"7

اسی لیے آیت اللہ بروجردی نے ہجرت کا خیال ترک کیا اور بروجرد میں تدریس اور رہنمائی کا سلسلہ شروع کیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ لوگ ان کی علمی عظمت کو پہچاننے لگے۔ آیت اللہ شیخ محمد رضا دزفولی کی ان سے محبت اور عقیدت نے ان کی شہرت اور وقار میں اضافہ کیا۔ دزفولی کی وفات کے بعد ان کے بیشتر مقلدین نے آیت اللہ بروجردی کی تقلید اختیار کر لی، اور وہ علاقائی سطح پر مرجع تقلید بن گئے۔8

آیت اللہ بروجردی نے اپنی علمی زندگی میں کئی عظیم شاگرد تیار کیے، جن میں سے بعض اعلیٰ درجے کے مراجع تقلید بنے۔ ان میں سے چند مشہور نام درج ذیل ہیں:

امام خمینی رہ

شہید مرتضی مطہری رہ

محمد فاضل لنکرانی رہ

سید علی سیستانی حفظہ اللہ

لطف اللہ صافی گلپایگانی رہ

ناصر مکارم شیرازی حفظہ اللہ

جعفر سبحانی حفظہ اللہ

سید موسی شبیری زنجانی حفظہ اللہ

آثار و تألیفات

آیت اللہ بروجردی تدریس اور روزمرہ کے کاموں کے ساتھ ساتھ تحقیق کا کام بھی انجام دیتے تھے اور اپنی تحقیقات کے نتائج کو قلمبند کرتے تھے۔ اس عالم ربانی کی چند علمی تصانیف درج ذیل ہیں:

1. جامع احادیث الشیعہ: آیت اللہ بروجردی نے اپنی زندگی کے آغاز سے ہی یہ ارادہ کیا تھا کہ ایسی مجموعہ حدیث تیار کریں جو فقہاء کو احکام کے استنباط میں مدد دے اور انہیں متعدد روایتی کتب کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت نہ رہے۔ جب آپ قم تشریف لائے اور ماہر شاگردوں کی تربیت کی، تو ان کے تعاون سے آٹھ سال کی مدت میں بیس جلدوں پر مشتمل "جامع احادیث الشیعہ" کی تیاری مکمل کی اور اسے اشاعت کے لیے پیش کیا۔9

2. تجرید اسانید الکافی

3. تجرید اسانید التہذیب

4. اسانید کتاب من لایحضره الفقیه

5. اسانید رجال کشی

6. اسانید الاستبصار

7. اسانید کتاب خصال شیخ صدوق

8. اسانید کتاب امالی

9. اسانید کتاب علل الشرائع شیخ صدوق

10. تجرید فہرست شیخ طوسی

11. تجرید رجال نجاشی

12. الحاشیۃ علی الکفایۃ (کفایۃ الاصول پر حاشیہ)

13. شیخ طوسی کی "النہایہ" پر حاشیہ

14. عروۃ الوثقی پر حاشیہ

15. فہرست شیخ منتجب الدین رازی پر

16۔ شیخ منتجب الدین رازی کی فہرست پر حواشی اور تکمیلات

17۔ کتاب مبسوط پر حواشی

18۔ صحیفہ سجادیہ کی سند کے بارے میں ایک رسالہ

19۔ رجال طوسی کی اصلاح اور تکمیلات

20۔ شیعہ گھرانے / شیعہ خاندان

21۔ تین تقریرات

22۔ نہایۃ التقرير فی مباحث الصلاۃ،

سماجی اور ثقافتی خدمات

جب عظیم مرجع آیت اللہ سید ابوالحسن اصفہانی کا انتقال ہوا تو آیت اللہ بروجردی کی مرجعیت عام ہو گئی، اور مؤمنین ہر طرف سے اس آزاد منش فقیہ کی طرف رجوع کرنے لگے۔ یہ بات ظاہر ہے کہ عوام کی اس رجحان میں الٰہی عنایات اور تائیدات کا بڑا دخل تھا۔ مثال کے طور پر آیت اللہ شیخ علی اکبر نهاوندی، جو خود شیعہ روحانیت کے بزرگوں میں شمار ہوتے تھے، نے اپنی امامت آیت اللہ بروجردی کے سپرد کی اور نجف چلے گئے۔ آیت اللہ سید ابوالحسن اصفہانی جو بیماری میں مبتلا تھے، انہوں نے مرحوم نهاوندی کو نماز جماعت کی امامت کا حکم دیا۔ شیخ نهاوندی اس واقعے کی تفصیل کچھ یوں بیان کرتے ہیں:

"پہلی رات جب میں اُن کی جگہ نماز جماعت پڑھانے کے لیے گیا، اور جب میں جائے نماز پر بیٹھا تو ایک آواز سنی جو کہہ رہی تھی: 'عظّمتَ ولدی عظّمتُک'؛ تُو نے میرے بیٹے کی تعظیم کی، میں نے تجھے عظمت دی۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا، ہر طرف دیکھا، لوگ صفوں میں بیٹھے تھے، لیکن اس غیبی پیغام کو میرے سوا کسی نے محسوس نہ کیا۔"10

آیت اللہ بروجردی علمی کوششوں اور ماہر شاگردوں کی تربیت کے ساتھ ساتھ، گذشتہ علماء کی علمی میراث کی حفاظت کو بھی بڑی اہمیت دیتے تھے۔ مختلف مواقع پر نایاب و قلمی علمی آثار کو شائع کراتے تھے۔ چھوٹی اور بڑی لائبریریاں قائم کرتے تھے تاکہ اہل علم کے لیے ان آثار تک رسائی ممکن ہو۔ قم کی مسجد اعظم کے ساتھ ان کی عظیم لائبریری، اس شیعہ مرجع کی اس خدا پسندانہ کام میں دلچسپی کی علامت ہے۔

ان کی دیگر سماجی سرگرمیوں میں شامل ہیں:

حوزہ علمیہ قم کی توسیع؛

مذہب تشیع کو مقبول عام مذہب بنانے کی کوشش؛

تعلیم و تربیت کی نصابی کتب میں دینی تعلیم کا شامل کیا جانا؛

اجتہاد میں نئی روح پھونکنا اور فقاہت کی باریک بینیاں؛

غیر ملکی ممالک میں مبلغین اور مذہبی نمائندوں کو بھیجنا تاکہ وہاں کے لوگوں کو حقیقی اسلام سے روشناس کرایا جا سکے؛

اسلامی وحدت، باہمی افہام و تفہیم اور اسلامی مذاہب کے درمیان وحدت اور تقریب بین المذاهب کی کوشش۔

دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے فلاحی خدمات انجام دینا، جن میں شامل ہیں: ایران، عراق، لبنان، افریقہ اور یورپ میں ہزار سے زائد مساجد، مدارس، ہسپتال، کتب خانے، حمام اور پرائمری اسکولوں کا قیام۔11

وفات

شوال ۱۳۸۰ ہجری قمری میں بیماری نے عالمِ اسلام کے اٹھاسی سالہ مرجع پر غلبہ پایا۔ انہی دنوں میں کچھ عقیدت مند ان کی عیادت کے لیے پہنچے۔ استاد جو بہت غمگین نظر آتے تھے، سر اُٹھا کر بولے:

"خلاصہ یہ ہے کہ ہماری عمر گزر گئی، ہم رخصت ہو رہے ہیں اور ہم کچھ بھی اپنے آگے نہ بھیج سکے، کوئی قیمتی عمل انجام نہ دے سکے۔"

ان میں سے ایک شخص نے کہا: "آقا، آپ ایسا کیوں فرما رہے ہیں؟ الحمدللہ، آپ نے اتنے نیک آثار چھوڑے ہیں، پرہیزگار شاگردوں کی تربیت کی ہے، قیمتی کتابیں تحریر کی ہیں، مسجدیں اور کتب خانے تعمیر کیے ہیں۔ ایسے الفاظ تو ہمیں کہنے چاہئیں!"

تو اس شیعہ پرہیزگار فقیہ نے فرمایا:

"خَلِّصِ العَمَل فَانَّ الناقِدَ بصیر بصیر"

"اپنے عمل کو خالص اللہ کے لیے کرو، کیونکہ وہ ہر چیز کو دیکھنے والا اور انسان کی نیتوں سے باخبر ہے۔"

یہ بات سن کر سب حاضرین بہت متاثر ہوئے۔12

آخرکار، تیرہ شوال ۱۳۸۰ ہجری قمری (مطابق دس فروردین ۱۳۴۰ ہجری شمسی) کو وہ ہمیشہ کے لیے اس دنیا سے رخصت ہو گئے، اور قم کے مسجدِ اعظم اور حرم کے درمیانی راہداری میں سپرد خاک کیے گئے۔13

حواشی:

1۔ زندگینامه آیه الله بروجردی، علی دوانی

2۔ زندگینامه آیه الله بروجردی، علی دوانی، ص 23- 26

3۔ زندگینامه آیه الله بروجردی، علی دوانی، ص 52،53

4۔ خاطرات زندگانی آیه الله بروجردی، ص 27

5۔ خاطرات زندگانی آیه الله بروجردی، ص 31، 32

6۔ خاطرات زندگانی آیه الله بروجردی، ص 32- 35

7۔ خاطرات زندگانی آیه الله بروجردی، ص 32- 35

8۔ خاطرات زندگانی آیه الله بروجردی، ص 36- 37

9۔ مجله نور علم، نمبر 12، آبان 1364ش، ص 87- 89

10۔ مجله نور علم، نمبر 12، آبان 1364ش، ص 65- 71

11۔ زندگی نامه آیه الله بروجردی، ص 139

12۔ مجله نور علم، ص 98، 99

13۔ مجله نور علم، ص 98، 99

منابع:

گلشن ابرار، جلد 2، زندگی‌نامه "آیت الله بروجردی" از عباس عبیری.

"آیت الله بروجردی"، پژوهشگاه باقرالعلوم علیه‌السلام، فریبا مرادی، بازیابی: 14 اسفند 1392.

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha