۱ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۱ شوال ۱۴۴۵ | Apr 20, 2024
علامہ محمد اقبال

حوزه/ علامہ اقبال رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) کی نگاہ کرم، لطف و عنایت اور رحمت بیکراں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: کہ اگر آپ کی ذات مقدس کسی انسان پر مہربان ہو جائے، اور آپ کسی پر نگاہ کرم کر دیں، اور اسے اپنے لطفِ عمیم سے نوازیں، تو پھر اس کے لئے دنیاں کی تمام تر تلخیاں شرین ہو جاتی ہیں، تمام مصیبتیں آسان اور تمام تکلیفیں دور ہو جاتی ہیں

 وہ ملتفت ہوں - تو کنج قفس بھی آزادی 
 نہ ہوں تو صحنِ چمن بھی، مقام مجبوری 
 ملتفت: متوجہ، مہربان۔
 کنج قفس: پنجرہ کا ایک زاویہ۔
حوزه نیوز ایجنسی| اللہ کے صالح بندوں کو جہاں خالقِ کون ومکاں نے اور بہت سی خوبیوں سے نوازا ہے، وہاں ان کی شخصیت میں بے پناہ تاثیر، اور ان کے حلقہءِ سخن کو عجیب جاذبیت اور عنایت فرمائی ہے، اسی وجہ سے لوگ جوق در جوق ان کی شخصیت میں جذب ہونے لگتے ہیں، ان کی صحبت میں بیٹھنے کو اپنے لئے فخر و مباہات تصور کرتے ہیں، اور ان کے حلقہءِ سخن کی طرف کھینچے چلے جاتے ہیں۔ اور شاید اس کا سبب یہ ہے کہ اللہ نے فطرتِ انسان میں حق و حقیقت سے گہرا تعلق ودیعت کیا ہے، لہذا جہاں حق صاف و شفاف اور باطل کی آمیزش سے پاک نظر آیا، دلوں کو جذب کرتا گیا۔
اس بات پر واضح اور روشن دلیل انبیاء کرام (علیہم السلام) اور خصوصا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) اور آپ کے اہل بیت (علیہم السلام) کی ذواتِ مقدسہ ہیں۔ اس کے باجود کہ انسان فطرتاً غلامی کو ناپسند کرتا ہے، اور آزادی کے ساتھ زندگی گزارنے کے لئے کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کرتا، ان سب کے باجود تاریخ نے لکھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) اور آپ کے اہل بیت (علیہم السلام) کی غلامی کو فخر سمجھا جاتا تھا اور آج بھی یہی تصور ہے، اور ان کے در کے غلام اپنے آپ کو دنیا کے بڑے بڑے بادشاہوں سے زیادہ خوش قسمت اور عزیز محسوس کرتے تھے۔ کیونکہ ان کی غلامی حق کی پیروی ہے، اور حق کی پیروی ہی بندہ مومن کا نصب العین ہے۔
علامہ صاحب ظاہراً یہاں رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم) کی نگاہ کرم، لطف و عنایت اور رحمت بیکراں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: کہ اگر آپ کی ذات مقدس کسی انسان پر مہربان ہو جائے، اور آپ کسی پر نگاہ کرم کر دیں، اور اسے اپنے لطفِ عمیم سے نوازیں، تو پھر اس کے لئے دنیاں کی تمام تر تلخیاں شرین ہو جاتی ہیں، تمام مصیبتیں آسان اور تمام تکلیفیں دور ہو جاتی ہیں، آپ کی نگاہِ التفات ذرے کو مہرِ منور، مٹی کو گوہر اور ہستیءِ بے نمود کو درِ نایاب بنا دیتی ہے۔
اے مولائے یثرب! اے رحمت خدا کے مظہر! اے مہر و محبت، شفقت و عنایت کے پیکر! ایک نگاہ کرم ادھر بھی، کیونکہ یہ دنیا جو بندہ مومن کے لئے کسی زندان سے کم نہیں، یہاں آپ کی نگاہ التفات، آپ کی توجہ، اور دست شفقت اس زندان میں بھی راحت و سکون کا سامان فراہم کرتا ہے، روح کو ترو تازہ اور دل کو یاد خدا سے آباد کردیتا ہے، آپ کی نگاہ کرم کی تاثیر یہ ہے کہ اس دنیا کے زندان میں رہتے ہوئے بھی انسان صالح یہاں کی تمام تر تلخیاں اور مصیبتں بھولا دیتا ہے، اور یہاں کی تمام تر رنگینیوں اور رعنائیوں سے آزاد ہو کر جمال حق کی تلاش میں کھو جاتا ہے، لیکن خدانخواستہ اگر آپ کی توجہ نہ ہو، آپ کا لطف نظر نہ ہو تو پھر ایک مومن کے لئے آسائشوں سے بھری زندگی بھی کسی عذاب سے کم نہیں، المختصر بندہ صالح کے لئے آپ کی رضامندی اور نگاہ کرم سب کچھ ہے، کیونکہ آپ ہی کی ذات وہ سفینہ ہے جو انسانیت کو شرک کے متلاطم سمندر سے نکال کر توحید کے ساحل پر لے جاتا ہے۔

تحریر: محمد اشفاق

نوٹ: حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .