حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،حوزہ علمیہ آیت اللہ خامنہ ای،بھیک پور،بہار،ہندوستان میں جاری ہفتہ وحدت کے دوسرے دن کے پروگرام میں مقررین نے بیان کیا کہ جہاں دنیاکے ہرگوشہ و کنار میں ہفتہ وحدت کے پروگرام کا انعقاد ہے وہیں حوزہ علمیہ آیت اللہ خامنہ ای،بہار،ہندوستان میں بھی عالی شان جشن کا اہتمام ہمارے لئے شرف ہے۔
مہمان مقرر نے کہا کہ جوانوں کو چاہیے کہ تاریخ پر بھرپور نظرڈالیں اور تمام چیزوں پربھرپور دقت کریں،ذرا،اس زمانے کی حالت تو دیکھیں کس زمانے میں پیغمبر (ص) دنیا میں آئے کتنی مشکلات تھیں،کتنی پریشاناں تھیں،کتنی گھٹن تھیں۔
مزید کہا کہ زمانہ جاہلیت میں عورت کی حیثیت، زمانہ جاہلیت میں جزیرہ عرب میں عورت کے لئے کوئی قابل ذکر حقوق نہ تھے، عورت کی حیثیت کو ماننا تو درکنار اس کو اس معاشرے میں زندہ بھی رہنے کاحق نہ تھا، معاشرے میں عورت کا مرتبہ و مقام ناپسندیدہ تھا، وہ مظلوم اور ستائی ہوئی تھی، اور ہر قسم کی بڑائی اور فضیلت مردوں کے لئے تھی، اس میں عورتوں کا حصہ نہ تھا حتی کہ عام معاملات زندگی میں بھی مرد اچھی چیزیں خود رکھ لیتے اور بے کار چیزیں عورتوں کو دیتے زمانہ جاہلیت کے لوگوں کے اس طرزِ عمل کو قرآن حکیم کی سورہ الانعام، ١٣٩آیت بیان کرتی ہے، "وقالوا ما فِی بطونِ ھٰذہ الانعامِ خالِصة لِزکورنا ومحرم علیٰ ازواجِنا وان یکن میتة فهم فِیه شرکاء سیجزِیهم وصفهم انه حِکیم علِیم۔۔۔اور یہ بھی کہتے ہیں کہ ان چوپایوں کے پیٹ میں جو بچے ہیں وہ صرف ہمارے مردوں کے لئے ہیں اور عورتوں پر حرام ہیں،ہاں اگرمردارہوں توسب شریک ہونگے، عنقریب خداان بیانات کابدلہ دیگاکہ وہ صاحب حکمت بھی ہے اور سبکا جاننے والابھی ہے ۔
اس آیت کریمہ سے پتہ چلا کہ اس معاشرے میں عورتوں اور مردوں کے درمیان چیزوں کی تقسیم اور لین دین کے معاملات میں نہ صرف تفریق کی جاتی بلکہ عورت کو مرد کے مقابلے میں نسبتا کمتر سمجھا جاتا تھا۔ یہی نہیں بلکہ عورت کی حیثیت کا اقرار کرنا تو درکنار وہاں تو عورت سے اس کے جینے کا حق تک چھین لیا جاتاتھا۔ اس لئے لڑکی کے پیدا ہونے پر غصہ میں ہوتے اور انہیں زندہ دفن کردیا کرتے تھے۔
مقررین نے رسول اسلام (ص) کی زحمتوں کومشقتوں کوبیان کرتے ہوئے کہا کہ قرآن کریم میں ان قوموں کے اس طرزِ عمل کی عکاسی یوں کی گئی:جدیدتہذیب میں عورت کی حیثیت ایک جائزہ اسلام سے قبل دنیا کی مختلف تہذیبوں اور معاشروں کا جائزہ لیں اور عورت کی حیثیت کو پہچاننے کی کوشش کریں تو ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ عورت بہت مظلوم اور معاشرتی و سماجی عزت و احترام سے محروم تھی، اسے تمام برائیوں کا سبب اور قابل نفرت تصور کیا جاتا تھا، یونانی، رومانی، ایرانی اور زمانہ جاہلیت کی تہذیبوں اور ثقافتوں میں عورت کو ثانوی حیثیت سے بھی کمتر درجہ دیا جاتا تھا،اس آیت کریمہ سے پتہ چلا کہ اس معاشرے میں عورتوں اور مردوں کے درمیان چیزوں کی تقسیم اور لین دین کے معاملات میں نہ صرف تفریق کی جاتی بلکہ عورت کو مرد کے مقابلے میں نسبتا کمتر سمجھا جاتا تھا۔
مزید کہا کہ یہی نہیں بلکہ عورت کی حیثیت کا اقرار کرنا تو درکنار وہاں تو عورت سے اس کے جینے کا حق تک چھین لیا جاتاتھا۔ اس لئے لڑکی کے پیدا ہونے پر غصہ میں ہوتے اور انہیں زندہ دفن کردیا کرتے تھے۔ اسلام نے ان تمام قبیح رسومات کودفن کیااور عورت کو معاشرے میں نمایاں حیثیت سے نوازا،جس طرح دوسرے مقام پر عملِ صالحہ کو جنت کے داخلے اور رزقِ کثیر کے ساتھ مشروط کیا، خداوندعالم نے سورہ المومنون، ٤٠،٤١ آیت میں ارشاد فرمایا !من عمِل سیِئة فلا یجزیٰا ِلا مِثلها ومن عمِل صالِحا مِن ذکرا و نثیٰ وھومومن فاولٰئکِ یدخلون الجنة یرزقون فِیها بِغیرِحِساب" جوبھی کوئی برائی کریگا تو اسے ویساہی بدلہ دیا جائے گا اورجونیک عمل کریگاچاہے وہ مردہویاعورت بشرطیکہ صاحب ایمان بھی ہوانہیں جنت میں داخل کیاجائیگااوروہاں بلاحساب رزق دیاجائیگا۔محبان رسول اکرم (ص) نے اس اہم پروگرام میں دیئے گئے مصرعہ طرح پربھی سامعین کے قلوب کومنورکی۔ا