۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
مولانا سید عمار حیدر زیدی

حوزہ/ اگر ہم بنی امیہ اور حکومت حق کے غاصبوں اور بشریت کے تباہ کرنے والوں پر لعنت اور نفرین بھیجتے ہیں تو اس کو بھی ہم نے قران ہی سے سیکھا ہے۔

تحریر: مولانا سید عمار حیدر زیدی قم المقدس

حوزہ نیوز ایجنسیآج ہم اپنے ملک پاکستان میں دیکھ رہے ہیں کہ کچھ تکفیری اور فساد پسند لوگ جو کہ خود کو مسلمان کہتے ہیں مگر قرآن میں موجود خداوند عالم کے فرمان کی کھلے عام نافرمانی کررہے ہیں کبھی ناموس صحابہ کے دفاع کے نام پر لوگوں میں فساد برپا کرکے ملک کے حالات کو برباد کرنے میں مشغول ہیں اور کبھی زیارت عاشورہ کو اپنا ہدف بنا کر فساد اور انتشار کی آگ روشن کر کے ملک میں امن کی فضا کو خراب کر رہے ہیں :

میرا ان لوگوں سے یہ سوال ہے کہ آپ اگر مسلمان ہیں تو قران کریم میں موجود فرمان خداوند کریم کو کیوں بھول گئے ہیں اور توجہ نہیں کررہے۔

پرودگار عالم ارشاد فرما رہا ہے : 

الۡفِتۡنَۃُ اَشَدُّ مِنَ الۡقَتۡلِ

فتنہ پیدا کرنا قتل سے بڑا گناہ ہے۔

تو کیوں فتنہ و فساد پیدا کررہے ہیں اور اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ ہم اس وجہ سے احتجاج اور یہ فساد کررہے ہیں کہ شیعہ مکتب فکر کے لوگ زیارت عاشورا میں تبرہ کر رہے ہیں اور ہمارے بڑوں پر لعنت کررہے ہیں تو جناب اس کا جواب یہ ہے کہ ہم قران میں موجود فرمان الہی کو بجالا رہے ہیں اپنے پاس سے نہیں کررہے ہیں قران کریم کے زریں اصولوں میں سے ایک اصول جس پر قران اصرار کرتا ہے یہ ہے کہ اچھوں اور اچھائیوں سے محبت کرنی چاہیے اور بروں اور برائیوں سے پرہیز اور نفرت کرنی چاہیے۔

قران کی سورہ توبہ آیت 114 میں ارشاد ہوتا ہے:

وَ مَا کَانَ اسۡتِغۡفَارُ اِبۡرٰہِیۡمَ لِاَبِیۡہِ اِلَّا عَنۡ مَّوۡعِدَۃٍ وَّعَدَہَاۤ اِیَّاہُ ۚ فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہٗۤ اَنَّہٗ عَدُوٌّ لِّلّٰہِ تَبَرَّاَ مِنۡہُ ؕ اِنَّ اِبۡرٰہِیۡمَ لَاَوَّاہٌ حَلِیۡمٌ

ترجمہ:  اور(وہاں)ابراہیم کا اپنے باپ (چچا) کے لیے مغفرت طلب کرنا اس وعدے کی وجہ سے تھا جو انہوں نے اس کے ساتھ کر رکھا تھا لیکن جب ان پر یہ بات کھل گئی کہ وہ دشمن خدا ہے تو وہ اس سے بیزار ہو گئے، ابراہیم یقینا نرم دل اور بردبار تھے۔

اسی طرح سورہ برات اس بات کی نشاندہی کر رہی ہے کہ صرف خوبیوں کی طرف رغبت ہی کافی نہیں ہے بلکہ نشر و اشاعت ، خط و کتابت، زبان و علم، نالہ و فریاد ، اشک و عمل کے ذریعے بری باتوں اور برے لوگوں سے دوری اختیار کرنی ہے اور ان سے نفرت اور بیزاری کا اظہار کرنا چاہیے۔
 ہر سال تقریبا دنیا کے لاکھوں مسلمان خانہ کعبہ کے نزدیک میدان منی میں حضرت ابراہیم ع کی پیروی کرتے ہوئے تین روز لگاتار 49 پتھر شیطان کی صورت ظاہری کی طرف پھینک کر شیطان نما افراد سے بیزاری کا ثبوت دیتے ہیں ۔
قابل غور بات یہ ہے کہ شیطان کی طرف پتھر پھینکنے کے بعد تمام حاجی اس دعا کو پڑھتے ہیں کہ اے میرے خدا میرے حج کو قبول فرما ! اس میں یہ راز پوشیدہ ہے کہ حج کی قبولیت شیطان کو سنگسار کرنے اور اس کو خود سے دور رکھنے پر منحصر ہے اور یہ بات واضح ہے کہ شیطان ہر زمانے میں کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔
زیارت عاشورہ میں ہم امام حسین علیہ السلام اور انکے باوفا اصحاب پر سلام بھیجتے ہیں اور آپ کے دشمنوں پر جو خدا اور دین خدا کے دشمن ہیں ان پر لعنت بھیجتے ہیں تو میدان منی میں شیطان کو پتھر مارنا اور زیارت عاشورہ میں سلام اور لعنت اس بات کا ثبوت ہے کہ اچھوں سے محبت اور بروں سے نفرت ہماری سرشت کا حصہ ہے۔
اگر ہم بنی امیہ اور حکومت حق کے غاصبوں اور بشریت کے تباہ کرنے والوں پر لعنت اور نفرین بھیجتے ہیں تو اس کو بھی ہم نے قران ہی سے سیکھا ہے۔

اِنَّ الَّذِیۡنَ یُؤۡذُوۡنَ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ لَعَنَہُمُ اللّٰہُ فِی الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃِ وَ اَعَدَّ لَہُمۡ عَذَابًا مُّہِیۡنًا﴿۵۷﴾

۵۷۔ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو اذیت دیتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں اللہ نے لعنت کی ہے اور اس نے ان کے لیے ذلت آمیز عذاب تیار کر رکھا ہے۔
بعض مجرموں پر نہ تنہا خدا اور رسول بلکہ تمام شعور رکھنے والی موجودات بھی لعنت بھیجتی رہتی ہیں۔

اُولٰٓئِکَ یَلۡعَنُہُمُ اللّٰہُ وَ یَلۡعَنُہُمُ اللّٰعِنُوۡنَ

 تو ایسے لوگوں پر اللہ اور دیگر لعنت کرنے والے سب لعنت کرتے ہیں۔

المختصر یہ کہ تمام زیارتوں بالخصوص زیارت عاشورہ میں ہمارا سلام اور ہماری لعنت اسلامی تہذیب و ثقافت اور قرآن سے لی گئی ہے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .