حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق ایران کے نامور خطیب حجت الاسلام و المسلمین رفیعی نے حرم مطہر حضرت فاطمہ معصومہ(سلام اللہ علیھا) قم میں موجود شبستان امام خمینی(رہ) میں سورۂ انبیاء کی تفسیر بیان کرتے ہوئے کہا: سورۂ انبیاء کی تلاوت کا کم سے کم ثواب ’’انبیاء الٰہی(علیھم السلام) کے ساتھ ہمنشینی ہے‘‘۔
جامعۃ المصطفی العالمیہ میں علمی کمیٹی کے رکن نے کہا: سورۂ انبیاء کا آغاز قیامت کے بارے میں سوال سے ہوتا ہے اور یہ آیت انسانوں کو متوجہ کرتی ہے کہ حساب کتنا نزدیک ہے!!
انہوں نے کہا: لفظ ’’اقترب‘‘ کے بارے میں مفسران کی دو رائے ہیں، بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد ’’موت کا نزدیک ہونا‘‘ ہے اور بعض دوسرے مفسر حضرات اس سے ’’قیامت کا نزدیک ہونا‘‘ مراد لیتے ہیں۔
حجتالاسلام والمسلمین رفیعی نے اس بیان پر تاکید دیتے ہوئے کہ ہر حتمی چیز کا ہونا بہت نزدیک ہے، کہا: موت اور قیامت کا انسان کے نہایت قریب ہونا ایک یقینی اور قطعی امر ہے لیکن وہ چیز جس کا سورۂ انبیاء کی اگلی آیات میں اشارہ ہوا ہے وہ یہ ہے کہ انسان باوجود موت اور قیامت کے نزدیک ہونے کے اس سے غافل ہے۔
انہوں نے اپنے بیانات میں اس بات پر تاکید کی کہ انسان اپنی زندگی میں چھ منازل کو پیچھے چھوڑتا ہے، صلب پدر، رحم مادر اور اس عالم خاکی کو اور اسی طرح تین دوسری منازل یعنی منزل قبر، برزخ اور قیامت جو کہ انسان کے نزدیک ہیں۔
جامعۃ المصطفی العالمیہ میں علمی کمیٹی کے رکن نے مزید کہا: سورۂ انبیاء کی پہلی آیت میں انسان کی چار منفی صفات یعنی غفلت، بے توجہی، روگردانی اور لہو و لعب کو شمار کیا گیا ہے۔
حجتالاسلام والمسلمین رفیعی نے غفلت کو انسان کے لئے بدترین بیماری قرار دیا اور اسے بقیہ تمام صفات رذیلہ کے لئے ریشہ اور جڑ قرار دیتے ہوئے کہا: غفلت جہالت اور فراموشی کے ساتھ فرق کرتی ہے چونکہ جہالت اور فراموشی میں انسان خود بھی بے خبر ہو کر خطا کرتا ہے لیکن غفلت میں انسان اس برے کام سے آگاہی ہونے کے باوجود اپنی بے توجہی اور بی دقتی کا مظاہرہ کرتا ہے۔
انہوں نے کہا: کئی ایک کام ہیں جو انسان کی غفلت کا باعث بنتے ہیں کہ زندگی اور مال و اولاد کی لگن ان امور میں سے ایک ہیں۔
حوزہ علمیہ قم کے استاد نے مناجات شعبانیہ سے استدلال کرتے ہوئے وقت کے ضیاع کو غفلت کے معانی میں سےایک قرار دیتے ہوئے کہا: خداوند متعال نے قرآن کریم میں آنکھ، کان اور دل کو بعنوان نعمت الٰہی قرار دیا ہے لیکن بعض افراد خدا کی دی ہوئی انہی نعمتوں کو بیہودہ کاموں میں استعمال کرتے ہیں اور انہی اعضاء کے ساتھ گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں۔
حجت الاسلام والمسلمین رفیعی نے مزید کہا: مناجات شعبانیہ میں امام معصوم(علیہ السلام) بھی خداوند متعال سے مناجات کرتے ہوئے کہتے ہیں:’’بارالہٰا! یہ غفلت ہی ہے کہ جس نے تجھ سے ملاقات کی استعداد کو مجھ سے سلب کر رکھا ہے‘‘۔
انہوں نے مزید کہا: جس معاشرے میں غفلت زیادہ ہو جاتی ہے اس معاشرے میں سود خوری، گران فروشی، ناگہانی اموات اور لوگوں کی زندگیوں میں حادثات وغیرہ میں اضافہ ہو جاتا ہے کہ نماز اول وقت، وصیت نامہ لکھنے، مراقبت اور دائم الوضوء رہنے کے ساتھ اس غفلت کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔
جامعۃ المصطفی العالمیہ میں علمی کمیٹی کے رکن نے کہا: نماز گناہوں کے محو ہونے کا باعث ہے اور یاد رہے کہ غفلت بدترین بیماری ہے لیکن اس خطرناک بیماری کا علاج نماز اول وقت کے ساتھ ممکن ہے۔