۹ فروردین ۱۴۰۳ |۱۸ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 28, 2024
نو محلہ مسجد

حوزہ/بریلی تو تاریخ کے بہت سے واقعات کا گواہ ہے۔ یہاں ایسی مختلف مقامات اور یادگاریں ہیں جو جنگ آزادی سے متعلق تاریخ کے صفحات میں درج ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،نو محلہ مسجد بریلی شہر میں ایک تاریخی مقام ہے۔ یہ نو محلہ مسجد شہر کے گورنمنٹ انٹر کالج کے سامنے سے ایوب خاں چوراہے کو جانے والی سڑک کے وسط میں واقع ہے۔

یہ مسجد جتنی قدیم ہے۔ اُس کی تاریخ اُتنی ہی زندہ اور جاویدہ ہے۔ شہید وطن حافظ رحمت خاں نے جب سنہ 1749ء میں بریلی میں اپنا اختیار قائم کیا، تو اُنہوں نے نو محلہ علاقے کو دوبارہ آباد کیا اور اپنے پیر و مرشد سید شاہ معصوم شاہ کے سپرد کر دیا۔

اس سے قبل برطانوی حکومت نے اس علاقے کو تباہ و برباد کر کے اپنا قبضہ قائم کیا تھا۔ یہاں کثیر تعداد میں سید خاندان بسے ہوئے تھے اور یہ "نو محلوی سید" کہلاتے تھے۔

سید معصوم شاہ کی اولادیں مجاہدین آزادی کی خوب مدد کیا کرتی تھیں۔ شہید وطن نواب خان بہادر خان، صوبہ دار بخت خاں، رسالت دار خاں، محمد شفیع اور انقلابی کونسل کے تمام ممبران، سادات نو محلہ یعنی نو محلوی سیدوں کے یہاں خوب آتے تھے اور یہیں سے انگریزوں کے خلاف جنگ اور بغاوت کے منصوبہ تیار کرتے تھے۔

nau mohalla masjid

برطانوی حکومت کے خلاف جو بھی منصوبہ، جلسہ اور تقریب کا اہتمام ہوتا تھا، وہ بعد نماز جمعہ منعقد کیا جاتا تھا۔ سنہ 1857ء کی تحریک آزادی سے پہلے برطانوی حکومت نے سب سے پہلے نو محلہ علاقے کو، اور خاص طور پر نومحلہ مسجد کو ہی اپنے تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔

بہت بڑے پیمانے پر خون خرابہ ہوا تھا۔ ساداتِ نومحلہ کا ایک ایک گھر ویران کر دیا گیا تھا۔ مؤذن سید اسماعیل کو اذان دیتے وقت شہید کیا گیا تھا۔ ایسے انتشار اور تشدد کے ماحول میں سید خاندان کی تقریباً 70 سے 80 پردہ نشین خواتین اپنی آبرو بچانے کے لیے نومحلہ مسجد کے احاطے میں واقع کوئیں میں کود گئیں تھیں۔

nau mohalla masjid

اُنہوں نے جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنی آبرو بچائی اور وطن کی آن، بان اور شان کے لیے قربان ہو گئیں۔ یہ کواں تو اب ختم ہو چکا ہے، لیکن بطور نشانی اس کوئیں کی بانڈری وال یعنی چار دیواری موجود ہے۔ آج بھی ان شہید خواتین کی قبریں مسجد کے احاطے میں واقع قبرستان میں قائم ہیں۔

سادات کے جو خاندان اس جنگ میں محفوظ رہ گئے تھے، اُنہوں نے جنگلوں میں پناہ لے کر اپنی جان بچائی اور پھر وہیں زندگی بسر کرنے لگے۔ جب حالات سازگار ہو گئے تو پھر یہ تمام کنبہ واپس شہر لوٹ آئے۔ برطانوی حکومت کے قہر و ظلم اور سانحہ کے بعد طرح طرح کے قصہ اور کہانیوں کی وجہ سے لوگ اس علاقے سے گزرنے کی ہمت نہیں کرتے تھے. یہ علاقہ تقریباً 49 برس تک تباہ و برباد رہا۔

سنہ 1906ء میں یہ علاقہ دوبارہ آباد ہوا۔ مسجدِ نومحلہ کے احاطے میں شہیدانِ وطن، مجاہدین آزادی اور اُن کے اساتذہ سمیت خواتین اور بچوں کی تمام قبریں موجود ہیں۔

سید احمد شاہ جی بابا اور اُن کے بیٹے سید معصوم شاہ جی کا مزار بھی اسی احاطے میں موجود ہے۔ جِن کا خاندانی شجرہ سید ناصر ترمذی کے ذریعہ شہید اعظم شہیدانِ کربلا حضرت امام حسین علیہ السلام سے ملتا ہے۔ سنہ 1906ء میں اس احاطے میں اسی سلسلہ کے عظیم بزرگ حضرت سید ناصر میاں کی درگاہ قائم ہوئی، تب سے اب تک یہ پورا علاقہ آباد ہے اور یہ سنہ 1857 کی تحریک آزادی میں شہید ہونے والے سادات کی یاد تر و تازہ کر دیتا ہے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .