۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
News ID: 373031
4 اکتوبر 2021 - 21:04
حیات نبوی

حوزہ/ جناب خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی (ص) نے اسی میدان غدیر میں لوگوں کی کامیابی و کامرانی کے دو اسباب بیان فرمائے اور افسوس تو اس بات پر ہے کہ امت مسلمہ اور نبی کی محبت کا دم بھرنے والے افراد ان دونوں سے کوسوں دور ہیں ۔ ایک کا نام قرآن تو دوسری وہ شئی جو لوگوں کو نجات دینے والی ہے خود رسول کے اہل بیت یعنی علی,فاطمہ اور حسنین علیہم السلام ہیں۔

تحریر: مولانا حیدر رضا متعلم مدرسہ جامعۃ العلوم قم

حوزہ نیوز ایجنسیمکہ کی سر زمین پر انسانیت انتہائی کرب و اضطراب کے عالم  میں کروٹیں بدل رہی تھی مختلف قسم کی بدعتیں اور رسومات رائج تھیں جس کے سر پر اللہ نے اشرفیت کا تاج رکھا تھا وہ انسان اس قدر حقیر, پست اور بے غیرت ہوچکا تھا کہ سنگ تراشوں کے ہاتھوں سے بنائی گئی مورتیوں اور کجھوروں سے بنائے گئے بتوں کے سامنے اپنی جبین نیاز کو خم کررہاتھا  وحدانیت اور یکتا پرستی جرم شمار کی جارہی تھی۔ لات ,عزی,منات و ھبل مشرکین مکہ کے نامور خدا تھے  حد تو یہ ہے کہ ہر قوم و قبیلہ کا ایک مخصوص بت تھا۔ مشرکین مکہ شرافت ,عزت نفس اورغیرت سے کوسوں دور تھے ۔  جب انہیں بچی کی ولادت کی خبر دی جاتی تھی تو ان کے چہرے غصے سے سیاہ پڑجایا کرتے تھے اور نہایت سنگدلی اور بے رحمی کے ساتھ اپنی نومولود بچیوں کو رئیس قبیلہ کی اتباع میں زندہ در گور کردیا کرتے تھے۔محصنہ اور شادی شدہ عورتوں سے زنا کو باعث فخر سمجھتے ۔ گھوڑے کی ریس میں ایک فریق کی فتح و کامرانی سالھا سال(ستر سال) جنگ و جدال کا سبب بن جایا کرتی تھی, شیطانی وسوسوں نے ان کے دلوں میں گھر کرلیااور ابالیس زمانہ اپنے ناحق اور باطل مقاصد کے تئیں انہیں روند رہے تھے , قتل و غارتگری ان کا شیوا بن چکی تھی متنفر چیزیں کھانے کے عادی ہوچکے تھے اور  گندھا پانی پیتے تھے مختصر یہ کہ اہل مکہ کھلی ہوئی گمراہی میں تھے ۔
‎انہیں اک ایسے ہادی ,رہنما اور رہبر کی ضرورت درپیش تھی جو انہیں ان گمراہیوں کے سمندر سے نجات دے کر ہدایت و عافیت کے ساحل پر پہونچا دیتا اور وہ رہبر اپنے ہمراہ اک ایسی الہی کتاب لاتا جو نظم وقوانین زندگی پر مشتمل ہوتی اور پھر ان کے نفسوں کا تزکیہ کر انہیں اس کتاب قانون و حکمت سے باخبر کرتا تاکہ انسانی خلقت کے مقاصد پورے ہوجائیں اور یہ انسان عبودیت اور بندگی کے اس اعلی مقام پر پہونچ جائے کہ جہاں فرشتے اس کے مقام پر رشک کرتے ہوئے نظر آئیں۔
‎  17ربیع الاول سن 1عام الفیل کو اللہ نے اپنی کنیر خاص( جناب آمنہ بنت وہب) کو  ایسا ہی اک نایاب ھدیہ عطا فرمایا کہ جس کی مدح سرائی  اور قصیدہ خوانی قرآنی آیات نے کچھ اس انداز  میں کی ہے:
‎"و ما ارسلناک الا رحمۃ للعالمین , "وما محمد الا رسول, "انک لعلی خلق عظیم" ھو الذی بعث فی الامیین رسولا منھم یتلو علیھم آیاتہ و یزکیھم و یعلھم الکتاب و الحکمۃ و ان کانوا من قبل لفی ضلال مبین ۔۔۔
‎اعلان نبوت سے پہلے آنحضرت کے اخلاق و کردار کے سبب اہل مکہ آپکو صادق و امین کہہ کر پکارا کرتے تھے لیکن آیہ "و انذر عشیرتک الاقربین" کے نزول کے بعد جب آپکی جانب سے آشکارا طور پر  تبلیغ نبوت کا سلسلہ شروع ہوا تو بہتیروں کو اپنے ذاتی مفادات و منافع خطرے کی زد میں نظر آنے لگے لہذا تبلیغ دین مبین سے دست بردار ہونے کے لئے ان لوگوں نے آنحضرت کو جاہ و حشم دولت و ثروت  اور نامور خاندانوں میں شادی کی پیشکش کی حضور نے جب انکار کی صورت میں جواب دیا تو کفار مکہ کو یہ بات اس قدر ناگوار گزری کہ انہوں نے اب اک دوسرے حربہ کا استعمال کیا اور صادق و امین کی جگہ ساحر , شاعر اور مجنوں کہہ کر پکارنے لگے لیکن قرآنی تعلیمات کے سامنے رسومات جاہلیت نے دم توڑنا شروع کردیا اور  کردار رسول اس قدر جذاب , دلنشیں اور پر کشش تھا کہ دن بہ دن توحید پرستوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا اب دشمنوں کی جانب سے ایذا رسانیاں بڑھیں خدا پرستوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ دیئے گئے صدر اسلام کے مسلمانوں نے بے تحاشا مصیبتیں برداشت کیں  جناب یاسر و سمیہ مشرکین مکہ کے شکنجوں کو برداشت نہ کرسکے لہذا ان قسی القلب افراد(مشرکین مکہ) کے ہاتھوں ان دو عظیم ہستیوں نے جام شہادت کو نوش فرمایا ۔ 
‎بلال , عمار اور دیگر اصحاب پیغمبر کو مختلف قسم کی اذیتیں دی گئیں جناب بلال کو دھکتے انگاروں پر لٹادیا گیا لیکن زبان بلال تھی جو احد احد کا ورد کرتی جارہی تھی ۔ رسول خدا کی راہ میں کانٹے اور خاردار جھاڑیاں بچھائی گئیں شان رسالت میں گستاخیوں کاسلسلہ جاری رہا حالت نماز میں غلاظتیں اور اوجھڑیاں  ڈالی جاتی رہیں  لیکن اب بھی دشمن ناکام اور شکست خوردہ تھا اور مبلغ دین مبیں اپنے مقصد میں کامیاب و کامراں ۔
‎دشمن مسلسل اپنے حربے بدلتا رہا لہذا اب اس نے  مسلمانوں کا بائیکاٹ کردیا جس کے سبب اللہ والوں نے تین سال کا انتہائی سخت  زمانہ شعب ابی طالب میں گذارا ۔
‎جب تک آنحضرت کی مونس و غمخوار  شریک حیات حضرت خدیجہ  اور آنحضرت کے موحد  اور محسن اسلام چچا جناب ابوطالب باحیات رہے نبی اکرم نے مکہ کو خیرباد نہ کہا لیکن ان دونوں ہستیوں کی وفات اس قدر غمناک اور  المناک تھی کہ حضور نے اس سال کو عام الحزن سے تعبیر کیا اور اپنے آبائی وطن کو خیرباد کہہ کر مدینہ کی جانب ہجرت فرمائی۔

‎مکہ کی سختیوں کے سبب بہت سے  اسلامی قوانین نافذ نہ ہوسکے تھے  لہذا جب اللہ کے رسول سر زمین مدینہ پر پہونچے تو فروع دین کی علنی تبلیغ کی جس کے سبب مسجد نبوی میں نماز جماعت قائم ہونے لگی اور حضور نے نماز پنجگانہ , نماز جنازہ, روزہ ,اعتکاف, عدت طلاق و وفات اور قصاص وغیرہم کے مسائل کو تفصیلی طور پر بیان فرمایا مھاجرین و انصار کے درمیان عقد اخوت جاری فرمایا لیکن ہمیں اس بات سے بے خبر نہیں ہونا چاہیئے کہ اب بھی مشرکین مکہ گھات لگائے موقع کی تلاش میں تھے اور ایک ایسے سنہرے موقع کا انتظار کررہے تھے جس میں وہ  مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہونچا سکیں اسی ناحق مقصد کی تکمیل کی خاطر ابو سفیان نے اپنے ہم عقیدہ افراد کے ہمراہ مدینہ پر متعدد دفعہ چڑھائی کی اور اس طرح سرزمین مدینہ میدان کارزار میں تبدیل ہوگئی بہت سے اصحاب پیغمبر دین حق کا دفاع کرتے ہوئے مقام شہادت پر فائز ہوئے یوں تو تمام شہیدان راہ خدا کی جدائی اور انکی شہادت رسول خدا کے لئے شاق تھی لیکن جب اللہ کا حبیب میدان احد میں اپنے شہید چچا جناب حمزہ کے لاشہ پر پہوچا تو کیا دیکھا شکم چاک ہے اور ان کے عزیز و شفیق چچا کی لاش کا مثلہ کیا جا چکا ہے رسول تاب ضبظ نہ لاسکے غموں کا سمندر چشم رسالت مآب سےآنسؤوں کی شکل میں اس طرح جاری ہوا کہ رسول اکرم کی ریش مبارک آنسوؤوں سے تر ہوگئی۔
‎امام سجاد علیہ السلام کی روایت کے مطابق یہ پہلی وہ عظیم مصیبت تھی جو خاندان عصمت و طہارت پر بہت سخت گزری اور دوسری وہ مصیبت جس کا تذکرہ امام زین العابدین علیہ السلام نے کیا وہ جنگ موتہ میں جناب جعفر طیار کی مظلومانہ شہادت ہے۔ جناب جعفر طیار کی عظمت و فضیلت کے لئے بس یہی کافی ہے کہ فتح خیبر کے موقع پر جب جناب جعفر طیار حبشہ سے پلٹے تو حضرت رسول خدا نے ارشاد فرمایا کہ میں جعفر کی آمد پر زیادہ خوشی مناؤں یا فتح خیبر پر۔
‎ادھر مشرکین مکہ جنگوں میں مسلسل شکست کے بعد اس بات سے باخبر ہوگئے کہ اگر ہمیں اسلام کے اصول و قوانین کو نیست و نابود کرنا ہے تو ہمیں بھی بظاہر اسلام قبول کرنا پڑےگا لہذا فتح مکہ کے موقع پر  ابوسفیان اور معاویہ جیسے بہت سے منافقوں نے اظہار اسلام کیا ۔
‎ادھر دشمنان دین خدا دین الہی کو مٹانے کے لئے آمادہ و تیار تھے اور ادھر بانئ اسلام اپنے آخری حج سے واپسی کے وقت میدان غدیر میں حکم الہی سے سوا لاکھ حاجیوں کے درمیان  محافظ دین و شریعت کو اپنے ہاتھوں پر بلند کر کے علی جیسے صفات حمیدہ رکھنے والے مولا کی ولایت اور انکی پیروی کا اعلان اپنے ان الفاظ میں کررہا تھا ;" من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ۔
‎یہی وہ دن تھا کہ جب دین کامل ہوا نعمتیں تمام ہوئیں اور اللہ دین اسلام سے راضی ہوگیا 
‎"الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلام دینا"۔
‎اور اسی دن وہ کافر بھی مایوس ہوگئے کہ جن کی رگوں میں کفر خون بن کر دوڑ رہا تھا اور ساتھ ہی ساتھ اپنے نفاق کو مخفی رکھتے ہوئے مولائے کائنات کو ان الفاظ میں مبارکباد پیش کی کہ آج بھی دنیا کی اک بڑی تعداد ان کا قصیدہ پڑھ رہی ہے۔
‎درحقیقت جتنے بھی انبیاء آئے تھے ہر ایک کا یہی مقصد تھا کہ لوگ کامیاب ہوجائیں کمال اور قرب الہی کی منزل تک پہونچ جائیں اور اپنے انہیں مقاصد کی تکمیل کی خاطر وہ ہمیشہ کوشاں رہے ۔
‎جناب خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی (ص) نے اسی میدان غدیر میں لوگوں کی کامیابی و کامرانی کے دو اسباب بیان فرمائے اور افسوس تو اس بات پر ہے کہ امت مسلمہ اور نبی کی محبت کا دم بھرنے والے افراد ان دونوں سے کوسوں دور ہیں ۔ ایک کا نام قرآن تو دوسری وہ شئی جو لوگوں کو نجات دینے والی ہے خود رسول کے اہل بیت یعنی علی,فاطمہ اور حسنین علیہم السلام ہیں۔
‎روز محشر اللہ کا حبیب ان دونوں پر ڈھائے گئے مظالم کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ سے انصاف کا مطالبہ کریگا" یا رب ان قومی اتخذوا ھذا القرآن مھجورا"
‎اور اپنی آل پر ڈھائے گئے مظالم کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ کو مخاطب قرار دے کر ارشاد فرمائےگا: اے میرے معبود میں نے ہر اک مناسب مقام پر اور متعدد دفعہ  اپنی آل کو پہچنوایا کبھی حسنین کو منبر سے تو کبھی علی کو غدیر کے منبر سے اور نزول  آیہ تطہیر کے بعد  ہر نماز صبح کے وقت در فاطمہ پر سلام کرکے خود فاطمہ کی عظمت و منزلت کو اور اہل خانہ کی عصمت و طہارت کو پہچنوایا لیکن اس حق ناشناس قوم نے نہ صرف ان کے حق کو نہ پہچانا بلکہ اس ظالم قوم کا نفاق کچھ اس طرح ظاہر ہوا کہ میری وفات کے فورا بعد ہی اس رذیل قوم نے میری بیٹی فاطمہ کے گھر میں آگ لگادی جلتا ہوا دروازہ میری اکلوتی بیٹی کے پہلو پر گرایا پسلیاں ٹوٹ گئیں محسن نے رحم مادر میں دم توڑ دیا اور میرے اس نواسے نے  شکم مادر میں جام شھادت   کو نوش کیا علی کے گلے میں رسی کا پھندا ڈالا گیا  غش سے افاقہ ہونے کے بعد میری بیٹی نے جب علی کو اس عالم میں دیکھا تو دفاع ولایت کے لئے آگے بڑھی قنفذ نے غلاف شمشیر سے وار کیا کسی نے تازیانہ تو کسی نے طمانچے لگائے , میرے بیٹے حسن کو زہر دغا دیا گیا جس کے جگر کے ٹکڑے طشت میں گرے اور نہ صرف میرے بیٹے حسن کو میرے جوار میں نہ دفن کرنے دیا گیا بلکہ میرے مظلوم بیٹے پر تیروں کی بارش کردی گئی, میرے بیٹے حسین کو اس کے اصحاب وانصارا ور اقرباء کے ہمراہ کربلا کے میدان میں تین شب و روز کا بھوکا اور پیاسا قتل کر ڈالا گیا ۔
‎اے میرے معبود آج تیرا حبیب تیری بارگاہ میں انصاف طلب کرنے کے لئے آیا ہے جن افراد نے بھی میری آل پر ظلم کیا ہے تو انہیں انکے جرم کی سزا دے اور قرآن اور میرے اہل بیت کی پیروی کرنے والوں کو اپنی بہشت میں جگہ عطا فرما۔
‎رسول کی التماس و درخواست بارگاہ الہی میں شرف قبولیت کو پہوچے گی قاتلان زہرا اور قاتلان آل زہرا  دوزخ کے بھڑکتے شعلوں کے حوالے کردیئے جائیں گے اور عاشقان اہل بیت اور محبان حضرت زہرا مسرت اور خوشی کے عالم میں داخل بہشت ہوجائیں گے۔
‎تاریخ کے صفحات گواہی دیتے ہیں کہ جناب  رسول خدا  کو بھی زہر دغا دیا گیا تھا اور اس زہر کی کیفیت یہ تھی کہ یہ زہر آہستہ آہستہ اثر کررہاتھا ۔ 11ہجری کی 28صفر آئی زہر کے اثرات حبیب الہی کے بدن پر نمایاں ہونے شروع ہوگئے بار بار غش آتا تھا لیکن جب بھی غش سے افاقہ ہوتا کبھی حسن کا بوسہ لیتے کبھی مولا حسین کی پیشانی تو کبھی ان کے  گلے کا بوسہ لیتے اور بعض ارباب مقاتل نے اس جانب بھی اشارہ کیا ہے کہ مولا حسین کے سینہ کا بوسہ لیتے تھے تو کبھی جناب فاطمہ کو لگنے والے طمانچے کا تذکرہ کرتے تو کبھی علی کی غربت و تنہائی اور مظلومیت پر اشک بہاتے, پھر وہ وقت بھی آیا کہ جب اللہ نے اپنے دست قدرت سے اپنے حبیب کی روح کو قبض کرلیا مدینہ ماتم کدہ بن گیا رونے والے تو بہت آئے لیکن در سیدہ میں لگی ہوئی آگ کو بجھانے کوئی نہ آیا نبی اکرم کی اکلوتی اور لاڈلی بیٹی مرثیہ پڑھتی رہی ; 
‎صبت علی مصائب لو انھا
‎صبت علی الایام صرن لیالیا۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .