۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
رحلت رسول

حوزہ/ پیغمبر اسلام (ص) نے 23سال کی مختصر مدت میں ایک اسلامی معاشرے کا قیام عمل میں لایا اور اسلام کے عالمگیر و آفاقی پیغام کے ذریعے انسانیت کےلئے مکمل اور نجات بخش نظام امانت کے طور پر مسلمانوں میں چھوڑگئے۔

تحریر: سکندر علی بہشتی

حوزہ نیوز ایجنسی। حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب،پیغمبر اکرم کے فلسفہ بعثت کے بارے میں فرماتے ہیں:’’یہاں تک کہ مالک نے اپنے وعدے کو پورا کرنے اور اپنی نبوت کو مکمل کرنے کے لئے حضرت محمدؐ کو بھیج دیا جن کے بارے میں انبیاء سے عہد لیا جاچکا تھا اور جس کی علامتیں مشہور اور ولادت مسعود ومبارک تھی۔اس وقت اہل زمین متفرق مذاہب،منتشر خواہشات اور مختلف راستوں پر گامزن تھے۔کوئی خدا کو مخلوقات کی شبیہ بتارہا تھا،کوئی اس کے ناموں کو بگاڑ رہا تھا اور کوئی دوسرے خدا کا اشارہ دے رہا تھا مالک نے آپ کے ذریعے سب کو گمراہی سے ہدایت اورجہالت سے باہر نکال لیا۔‘‘(نہج البلاغہ خطبہ۔۱)

خداوند عالم نے انسانیت کی نجات وسعادت  کاپیغام پہنچانے کے لئے انبیاء کاسلسلہ شروع کیا۔آدم سے لے کر خاتم النبین کی رسالتوں کامحور انسانیت کو جہالت کی تاریکی سے علم کی روشنی،کفر کی ظلمت سے نور ایمان ،غلامی سے آزادی،انسان پرستی سے خدا پرستی تک لے جانا تھا۔ہر نبی نے توحید یعنی  لا الہ الا اللہ سے اپنی دعوت کا آغاز کیا،اس راہ میں ہر قسم کی زحمات وتکالیف برداشت کیں اوردین حق کی اشاعت کے ذریعے کفر،شرک وانحرافی نظریات کوجڑ سے اکھاڑ پھینکا۔مگر انبیاء کی اس دنیا سے رحلت کے بعد اس نبی کے پیروکار الہی پیغام میں تحریف کرتے اوراس کے اصل چہرے کو مسخ کرتےتوخدا کی جانب سے دوبارہ پیغمبر مبعوث ہوتے۔

یہ سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ آخری نبی کو اللہ نےبھیجا۔رسالت ونبوت کا سلسلہ آپ پر ختم کردیااور قیامت تک کے لئے دین اسلام کو ایک جاویدانی اور ابدی دین قرار دیا ،آپ کی بعثت ایسے دور میں ہوئی جہاں جاہلیت اپنے عروج پر تھی۔
امام علیہ السلام نے اس خطبے میں بعثت سے پہلے دور کی صورتحال کاجائزہ پیش کیا ہے، حضرت کے فرمان کے مطابق بعثت سے پہلے توحید کا اصل مفہوم مکمل طور پر مسخ ہوچکا تھا۔کفر،شرک،بت پرستی کا دور دورہ تھا۔ انسان الہٰی تعلیمات اور انبیاء کی راہ سے دور ہونے کی وجہ سے مختلف قسم کے انحرافات کا شکارتھا۔جیسے 
متفرق مذاہب:
(واہل الارض یومئذ ملل متفرقہ) معاشرہ مختلف اقوام وملل میں بٹے ہوئے تھے،دین الٰہی سے دور ہونے کی وجہ سے ان مشکلات وبلاؤں میں مبتلا تھے ان میں سے پہلی بلا یہ ہے کہ اس دور کے انسان متفرق اور مختلف طبقوں میں بٹے ہوئے تھے بعض یہودی،مسیحی،بت پرست ومشرکین۔۔۔۔
اختلاف آرا وافکار:
( واہوامنتشرہ)
یعنی مختلف و اکثر مذاہب وادیان کی پیدائش کا سبب خواہشات نفسانی ہے اگر چہ اس کے پیروکار اس کو درک کرنے سے عاجزہوں.
مختلف راستے:
(وطوائق متشتۃ) وہ مختلف راستے یہ ہیں:
(مشبہ للہ بخلقہ)
 جیسے بت پرست خدا کو خوبصورت بیٹی یا نو ر کی شکل میں دیکھتے تھے درحالیکہ خدا مجرد کامل ہے اور مادیات سے مافوق ہے۔
(اوملحد فی اسمہ)
وہ اسما وصفات خدا پر اطلاق کرتے ہیں جو خدا کے لئے سازگار نہیں ہے ۔
(اومشیرالی غیرہ)
 یعنی غیر خدا کی طرف اشارہ کرتے ہیں.(یونس۔۱۸) یہ بت خدا کے نزدیک شفیع ہے۔
(فہداہم بہ من الضلالۃ)
ہدایت کے دو معنی ہے ایک معنی اراءۃ الطریق یعنی راستہ دکھانے کے ہیں دوسرا ایصال الی المطلوب یعنی مقصد تک پہنچانا۔پیغمبر نے انسانیت کی ہدایت کایہ عمل تمام تر سختیوں کے باوجود انجام دیا۔عرب کے اس جہالت سے بھرے معاشرہ کو ہدایت اور نور میں تبدیل کیا۔
(وانقذہم بمکانہ من الجہالۃ)
پیغمبر اور اسلام کی برکت سے جہاں علم نے ترقی کی یہاں تک مغرب اور یورپ نے ترقی کا ریشہ جہاں اسلام سے لیا ہے ۔اور انسان گمراہی وضلالت کی دلدل سے نکل کر احسن تقویم کی اس منز لت تک پہنچا دیا۔ 
اور آ پ کی یہ ہدایت زندگی کے کسی ایک شعبہ تک محدود نہیں بلکہ گھر،بازار،مسجد،صلح‘میدان جنگ،خیر وشر حقوق وفرائض....تمام جگہوں میں اس کے آثار نظر آتے ہیں۔

اسلام کے پیغام نے انسانوں کی اجتماعی زندگی کو بدل دیا اور مسلمان اس پیغام کے ذریعے دنیا پر چھا گئے اور متفرق مذاہب کو امت واحدہ میں تبدیل کر لیا اور اختلاف آراء ونظریات کو ختم کر کے کلمہ توحید اور آپ کی رسالت پر سب کو جمع کیا اور مختلف راستوں کو ختم کرکے صراط مستقیم کو ہی انسانیت کی نجات کا واحد وسیلہ قرار دیا۔
پیغمبر نے 23سال کی مختصر مدت میں ایک اسلامی معاشرے کاقیام عمل میں لایا۔اوراسلام کے عالمگیر وآفاقی پیغام کے ذریعے انسانیت کے لیے نجات بخش نظام مکمل شکل میں مسلمانوں میں امانت چھوڑگئے۔تاکہ وہ  اس کی پاسداری،نشروفرغ اور تحفظ کاعظیم فریضہ انجام دے۔مگر امت نے پیغمبر کی وصیت اور فرامین کو نظر انداز کیا جس کے نتیجے میں مسلمان قرآن وپیغمبر کے دستورات سے دور ہوتے گئے۔

 آج ہماری صورتحال پھر وہی دورجہالت کامنظر پیش کررہی ہے۔اور قرآن وسیرت پیغمبر اور اسلامی قوانین سے دوری کی وجہ سے پھر افتراق،خواہشات اور اختلاف مسلمانوں میں واضح وآشکار نظرآرہے ہیں۔

انسانیت الٰہی نظام اور قانون سے دور ہونے کی وجہ سے اعتقادات،نظریات میں توازن کھوبیٹھی ہے۔‘معنویت کا خاتمہ ہوچکا ہے،قوانین عدالت سے خالی،خود غرضی،اضطراب،بے چینی  اور غلامی نے انسانوں سے امن وسکون چھین لیا ہے۔

اس تاریک دور اور مشکلات سے نجات صرف اس وقت ممکن ہے جب محسن انسانیت کے پیغام کو مشعل راہ قرار دے کیونکہ آپ کی دعوت ہمہ گیر ،نظام عدل و انصاف سب کے لئے یکساں،قانون کی نظر میں برابر اور اس پیغام کا اثر زندگی کے ہر پہلو پر ہے
اس انقلاب کی بنیاد محبت،خیرخواہی پر قائم ہے۔ اس کی روح ‘حسن سلوک،معافی،دشمن کے ساتھ بھی انصاف اور ہر قسم کی امتیازات کا خاتمہ اس۔دین  کی بنیادی علامت ہے۔توحید ونبوت کے اقرار سے لسانی،مکانی،خاندانی اور قومی تعصبات ختم ہو کر فرد مسلم اس آفاقی پیغام کے ذریعے ایک ہی امت بن جاتی ہے اوراللہ کی بندگی وخدائی قوانین  پر عمل ہی معیار ہے۔ اور اس کاذریعہ رسول اکرم کی اطاعت ہے۔

 امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے کہ اس دعوت کا احیا کریں آپ کے قائم کردہ اصولوں پر تبدیلی کے لئے قدم اٹھائیں اور دور حاضر میں آنسانیت کے لئے درپیش مشکلات کو پیغمبر اکرم کی تعلیمات کی روشنی میں حل کرنے اور دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لئے اقدام کریں۔

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .