حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،امام جمعہ نجف اشرف حجۃ الاسلام و المسلمین سید صدر الدین قبانچی نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی کانفرنس نے عربی ہونے کے دعویداروں کے اصل چہرے کو بے نقاب کردیا،کہا کہ شیعہ دنیا کی قیادت کو سنبھالنے والے ہیں اور امریکہ تنزلی کا شکار ہو رہا ہے۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ آیۃ اللہ العظمی سیستانی نے انتخابات کے حوالے سے اپنے حالیہ بیان میں واضح ردعمل کا اعلان کیا ہے لہٰذا کسی کو بھی انتخابات میں حصہ نہ لینے کا حق حاصل نہیں ہے۔
حجۃ الاسلام و المسلمین سید صدر الدین قبانچی نے شمالی عراق میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول لانے کے بارے میں منعقدہ کانفرنس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس کانفرنس نے عرب اصلیت اور قوم پرستی کا دعوی کرنے والوں کے اصل چہرے کو نمایاں کردیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیلی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کا منصوبہ امریکہ اور اسرائیل کو زندہ کرنے کے لئے ویکسین کی تازہ ترین خوراک کی مانند ہے۔
امام جمعہ نجف اشرف نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ آج امریکہ شدید معاشی بحران کا شکار ہے اور اندر سے تباہ ہو رہا ہے اور زوال کی طرف گامزن ہے،مزید کہا کہ ہم بھی اربیل کانفرنس کی مذمت کرتے ہوئے اس میں شریک افراد کےلئے سزا کا مطالبہ کرتے ہیں۔
حجۃ الاسلام والمسلمین قبانچی نے کہا کہ اگر پوری دنیا بھی اسرائیلی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لائے لیکن شیعہ ایسا نہیں کریں گے اور جب تک خطے میں شیعہ موجود ہوں گے اس وقت تک یہودیت کے لئے کوئی گنجائش نہیں ہو گی۔
انہوں نے اربعین حسینی مارچ کی کامیابی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ اربعین حسینی ایک منفرد عالمی سماجی تجربہ ہے،کہا کہ اربعین حسینی قوموں کے اتحاد اور اخلاقی اقدار کا نام ہے۔
امام جمعہ نجف اشرف نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ اس تجربے کو نائجیریا،آذربائیجان،لندن اور کویت سمیت دنیا کے مختلف ممالک تک پھیلا دیا گیا ہے اور کویت کے شیعہ عراق کی سرحدوں تک پیدل چل کر آئے، مقامات مقدسہ،حوزہ ہائے علمیہ، مراجع عظام اور سیکورٹی ادارے اور ان تمام لوگوں کا جنہوں نے اربعین حسینی میں شرکت کی،شکریہ بھی ادا کیا۔
انہوں نے آخر میں،انسانی روحانی نشوونما اور ترقی کے حوالے سے ابوذر غفاری کو پیغمبر اسلام(ص)کے بیان کردہ دروس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ آنحضرت نے فرمایا کہ:آمرنی رسول الله بسبع:«أَوْصَانِی أَنْ أَنْظُرَ إِلَی مَنْ هُوَ دُونِی وَ لَا أَنْظُرَ إِلَی مَنْ هُوَ فَوْقِی وَ أَنْ أُحِبَّ الْفُقَرَاءَ وَ أَدْنُوَ مِنْهُمْ وَ أَنْ أَقُولَ الْحَقَّ وَ إِنْ کَانَ مُرّاً وَ أَنْ أَصِلَ رَحِمِی وَ إِنْ کَانَتْ مُدْبِرَةً وَ لَا أَسْأَلَ النَّاسَ شَیْئاً وَ أَوْصَانِی أَنْ أُکْثِرَ مِنْ قَوْلِ لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ الْعَلِیِّ الْعَظِیمِ فَإِنَّهَا کَنْزٌ مِنْ کُنُوزِ الْجَنَّةِ»؛
پیغمبر اسلام(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے سات خوبیوں کا حکم دیاہے1:مادی امور میں، میں مجھ سے کم درجے کے لوگوں کی طرف دیکھوں نہ کہ مجھ سے برتر لوگوں کی طرف دیکھوں،2:یہ کہ میں غریب اور ضرورت مندوں کو دوست رکھوں،3:غریبوں اور مسکینوں کے نزدیک رہوں،4:سچ بتاؤں چاہئے وہ تلخ ہی کیوں نہ ہو،5: میرے رشتہ داروں سے رابطہ برقرار رکھوں،حالانکہ انہوں نے مجھ سے منہ موڑ لیا ہو،6:یہ کہ میں لوگوں سے کچھ نہیں مانگوں،7:اور حکم دیا ہے کہ میں ہمیشہ «لا حول و لا قوة إلا بالله العلی العظیم»کہتا رہوں کہ یہ ذکر جنت کے خزانوں میں سے ایک ہے۔