حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مدیر الاسوہ فاؤنڈیشن سیتاپور، حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا سید حمید الحسن زیدی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ عالم اسلام کے لئے بہت بڑی مصیبت ہےکہ ایک سر پھرا جس نبئ پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دین اسلام کے نام پر ہندوستان کےایک بڑے صوبے میں اوقاف اسلامی کے سب سے بڑے عہدے تک پہنچا اور اس کے صدقے سے اپنے جہنم کو بھرنے کے لئے بے ایمانیوں پہ بے ایمانی کرتا رہا اس سر پھرے نے جب اپنی رسی کو تنگ ہوتے ہوئے دیکھا تو اپنے گناہوں پر پردہ ڈالنے کے لئے اسی کے دین سے برگشتہ ہو گیا۔
مولانا موصوف نے کہا کہ وسیم رشدی نے اپنے دین اسلام سے الگ ہونے کے لئے سب سے پہلے معجزۂ اسلام قرآن مجید کی آیتوں کا مذاق اڑایا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ قرآن مجید میں اضافہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد ہوا ہے اس طرح وہ خود کو دین اسلام سے وابستہ دکھانے کی ناکام کوشش کرکے دین اسلام کے ماننے والوں میں تفرقہ ڈالنا اور اوقاف پر دوبارہ قبضہ کرنا چاہتا تھا جب کہ قرآن مجید کی آیتوں کا انکار اس کے اسلام سے باہر ہونے کا کھلا ہوا اعلان تھا اور اس کے اسلام سے باہر ہونے کے لئے کسی کی جانب سے کسی اعلان کی ضرورت نہیں رہ گئی تھی اگرچہ اسی موقعہ پر اس کے خلاف قانونی کاروائی اس کی اس بے ہودگی کا سد باب کرسکتی تھی لیکن افسوس امت کی مصلحت پسندی یا اس پر طاری خوف نے اس کے خلاف کسی طرح کی قانونی چارہ جوئی کی کوشش نہیں کی جس کے نتیجہ میں اس کی جسارت یہیں پر نہیں رکی اور اس نے اپنی عنان کو ڈھیلا دیکھ کر اپنے شیطانی پاوں اور زیادہ پسارنا شروع کر دئے ۔
چنانچہ اب اس نے رحمت للعالمین پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں بے ادبی کر کے جس طرح اپنے کفر و شرک بلکہ اسلام سے جنگ کا کھلا ہوا اعلان کیا ہے اس کے دائرہ ٔاسلام سے باہر ہونے کے لئے کسی طرح کے کسی فتویٰ کی بالکل ضرورت نہیں ہے لہٰذا مراجع کرام سے کسی طرح کے فتوے کا تقاضا کرنے کے بجائے خود اس کے اپنے اعلان اور بیان کے مطابق اسے دائرہ اسلام سے باہر سمجھیں ۔
انہوں نے کہا کہ دین اسلام کی ابتدائی تعلیمات سے واقفیت رکھنے والے افراد بھی ایسے شخص کے شرعی حکم سےو اقف ہیں لہٰذا ایسا شخص کسی بھی صورت میں اسلامی اوقاف کے انتظام و انصرام کی ذمہ داری میں دخل اندازی کی صلاحت نہیں رکھتا اور اوقاف تو کیا ایسا بدذات سرپھرا کسی بھی طرح کی انسانی ذمہ داری کا اہل نہیں ہے ۔
مزید کہا کہ دائرہ ٔ اسلام سے باہر نکلنے کا مسئلہ اس کا ذاتی مسئلہ تھا لہٰذا اگر اس پر امت مسلمہ خاموش رہتی تو شاید اتنا تعجب نہ ہوتا لیکن سرکار ختمی مرتبت کی شان میں اس کی بے ادبی اور گستاخی نہ صرف عالم اسلام بلکہ پوری دنیائے انسانیت کے لئے ناقابل برداشت ہے اس کی اس مفسدانہ راہ و روش سے مقابلہ کے لئے ہمارے ملک کی حکومت اور عدالت کے سامنے قوانین موجود ہیں لہٰذا ملکی قوانین کے احترام میں ہمیں کسی طرح کے قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی ضرورت نہیں لیکن کم از کم ہم اتنا ضرور کر سکتے ہیں کہ صوبائی حکومتوں سے لیکر مرکزی حکومت تک اپنی آواز احتجاج پہونچائیں اور ملک کی اعلیٰ عدالت سے یہ درخواست کریں کہ ایسے فتنہ پرور اور فاسد انسان کو ملکی آئین کے مطابق قرار واقعی سزا دے ۔ لہٰذا امت اسلامی کے ہر ہرفرد کی ذمہ داری ہے کہ اس مفسد زمانہ کے جسارتوں کے سلسلہ میں علاقائی سطح پر۔FIR اور قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے اپنے احتجاج کو درج کرانے کی تدبیر کرے جیسا کہ اس سے پہلے گستاخ عصمت کی گستاخی کے موقع پر کیا جا چکا ہے امت اسلامی اور علمائے کرام کی طرف سے یکسر خاموشی ایسی جسارت کرنے والے مفسد وں کی جسارتوں میں اضافہ کا سبب بنتی ہے ۔اگر چہ اس کی اس بے ادبانہ حرکت پر مہلت تمام ہونے کے بعد خدا وند عالم کی جانب سے اسکے لئے درد ناک عذاب کا سامنا یقینی ہے ۔ ولا تحسبن الذین کفرو ا انما نملی لھم خیر لانفسھم انما نملی لھم لیزدادوا اثما ولھم عذاب مھین ۔ سورہ ٔ آل عمران ، ۱۷۸۔
آخر میں کہا کہ امید ہے ہمارے ملک کی عدالت اور حکومت ایسے فاسد ؛بے ادب؛ سر پھرےگستاخ زمانہ کو لگام دینے کےلئے اطمینان بخش قدم اٹھائے گی تاکہ ملک کے ہر با ضمیر شہری کی تسلی ؛اطمینان اور اعتماد کا سامان فراہم ہو سکے۔