۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
علامہ ساجد نقوی

حوزہ/ قائد ملت جعفریہ پاکستان نے کہا کہ کبھی بھی عالمی مالیاتی اداروں کے اشاروں پر چل کر ملکی معیشت ٹھیک نہیں ہوگی بلکہ اس سے ایک طرف ملک مزید عالمی مالیاتی اداروں کی دلدل میں دھنسے گا تو دوسری جانب عوام کا جینا محال ہوجائےگا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، لاہور / قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے کہا ہے کہ جمہوری حکومت کا بنیادی کام عوام کو ریلیف فراہم کرناہے، ان کی مشکلات میں اضافہ کرنا نہیں، چه سے سات ماہ کے دوران ایک اور بجٹ آنا باعث پریشانی ہے، نمک، کتابوں لسمیت زرعی بیج بهی مہنگے کرنے سے سطح غربت میں مزید اضافہ ہوگا، معاشی تحفظ کےلئے عالمی مالیاتی اداروں کی طرف دیکهنے کی بجائے خود انحصاری کی پالیسی اپنائی جائے۔

وفاقی حکومت کی طرف سے منی بجٹ پیش کئے جانے پر رد عمل میں علامہ ساجد نقوی نے کہاکہ عالمی مالیاتی اداروں کی ایماءپر عوام کی مشکلا ت میں اضافہ کرنے کی بجائے، جمہوری حکومت کا کام عوامی مفاد کو مد نظر رکهنا اور ریلیف دینا ہوتاہے ۔مگر انتہائی افسوسناک بات ہے کہ ہر دورحکومت میں عام آدمی کو ریلیف دینے کی بجائے اسے عالمی مالیاتی پالیسیوں کی بهینٹ چڑهایاگیا، حکمرانوں کی ناقص معاشی پالیسیوں کے سبب ملک میں مڈل کلاس تقریباً ختم ہوچکی ہے جس نے ملکی معیشت میں ریڑه کی ہڈی کا کام انجام دینا ہوتاہے اور اسی باعث امیر و غریب کے درمیان فرق مزید واضح ہونے کے ساته ساته سطح غربت میں مزید اضافہ ہورہاہے۔

انہوں نے کہاکہ ہم نے سالانہ بجٹ پر کہا تها کہ حکومت کی معاشی پالیسیاں ایسی ہیں کہ شائد کچه عرصہ بعد پهر منی بجٹ کے ذریعے عوام پر مزید بوجه ڈال دیا جائےگا اور ایسا ہی کیا گی گیا، پہلے جواز تراشا جاتا تها کہ مہنگائی بیرونی اشیاءکی درآمد سے ہوتی ہے مگر منی بجٹ میں گوشت، نمک، بچوں کے دوده، کتابوں اور سلائی مشینوں سمیت کپاس و دیگر اجناس پر ٹیکس لگایا جارہاہے جنہیں درآمد نہیں کیا جاتا بلکہ انہیںبرآمد کیا جاتاہے۔

قائد ملت جعفریہ نے واضح کیاکہ کبهی بهی عالمی مالیاتی اداروں کے اشاروں پر چل کر ملکی معیشت ٹهیک نہیں ہوگی بلکہ اس سے ایک طرف ملک مزید عالمی مالیاتی اداروں کی دلدل میں دهنسے گا تو دوسری جانب عوام کا جینا محال ہوجائےگا اس لئے ضروری ہے کہ ان مالیاتی اداروںکی بجائے ملکی مفاد میں مشکل ترین فیصلے کئے جائیں مگر عوام کے ساته سچ بولا جائے اور خود انحصاری کی پالیسی اپنائی جائے ۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .