پیر 6 جنوری 2025 - 23:32
امام علی نقی (ع) کی حیاتِ طیبہ کے سنہرے نقوش

حوزہ/یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ آئمہ اطہار علیہم السلام نے جو زندگیاں گزاری ہیں وہ زمانے کے اعتبار کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے گزاری ہیں، اس لیے امام ہادی علیہ السّلام کی حیاتِ طیبہ ہر دور کے لیے نمونۂ عمل ہے۔

تحریر: مولانا گلزار جعفری

حوزہ نیوز ایجنسی| یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ آئمہ اطہار علیہم السلام نے جو زندگیاں گزاری ہیں وہ زمانے کے اعتبار کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے گزاری ہیں، اس لیے امام ہادی علیہ السّلام کی حیاتِ طیبہ ہر دور کے لیے نمونۂ عمل ہے۔

حضراتِ آئمہ علیہم السّلام نے ہر زمانے کے مسائل و مصائب کو قبول فرمایا ہر ظالم و جابر حکومت و بادشاہت سے نبرد آزما رہے اور ایک بہترین مؤقف کو اختیار کیا ہے جو بھی موقع اور محل کی نزاکت تھی اسے بروئے کار لاکر آپ نے اپنی حیات کی شمع ہدایت روشن فرمائی تاکہ اندھیروں میں بھٹکتی ہوئی قومیں اپنی سیاسی اور سماجی راہوں کو ان اجالوں میں دیکھ سکیں جس دور میں جیسے حالات رہے ویسی ہی زندگی گزار کر امت کے لیے نمونہ عمل قرار پایے انھیں آئمہ علیہم السلام میں سے ہمارے اور آپ کے دسویں امام حضرت امام علی نقی علیہ السلام ہیں آپکی ولادت باسعادت پانچ رجب المرجب 214 ہجری اور شہادت تین رجب 254

آپ کے زمانے کے شاہان وقت میں سب سے پہلا نام مامون رشید کا اتا ہے یہ ہارون رشید کا بیٹا اور امین کا بھائی تھا جن کی حقیقتیں تاریخ میں نقل کی گئی ہیں کہ کس طرح مامون نے اپنے ہی بھائی امین کو کس بیدردی سے قتل کیا اور عرب و عجم دونوں کے تخت حکومت پر قبضہ کیا اس کے بعد 218 ہجری میں معتصم باللہ خلیفہ ہوا معتصم کے بعد 227 ہجری میں واثق ابن معتصم نے حکومت سنبھالی اور 232 ہجری میں واثق واصل جہنم ہو گیا تو متوکل کے ہاتھ میں زمام خلافت آگئی اور وہ 247 تک تخت پر قابض رہا ان 15 سالوں میں جبر و استبداد اپنے عفان پر رہا ،ظلم و جور کی انتہا کی گئی متوکل کو بنی عباس کا یزید کہا جاتا ہے یعنی تاریخ میں جو کردار یزید ابن معاویہ کا تھا وہی کردار بلکہ اس سے کہیں زیادہ بدتر کردار بنی عباس میں متوکل نے اپنایا اس کے جرائم کے سلسلے میں لکھا گیا ہے کہ لاکھوں افراد کو تہ تیغ کیا جس میں سادات کرام کا کثیر تعداد میں خون بہایا گیا ابن سکیت جیسے عالم و ادیب کو صرف اس لیے قتل کیا کہ اس نے فرمایا کہ علی ع کا غلام قنبر اسکے خاک پا تیرے ان دونوں بیٹوں سے کہیں بہتر ہیں یہ سنکر ظالم نے گدی سے زبان کھینچوا لی اور میثم کے نقش کفا پا پر چل کر ایک اور متکلم نے جام شہادت نوش فرمایا متوکل کے مظالم کی انتہا یہ ہے کہ اس نے نشان قبر امام حسین علیہ السلام مٹانے کے لیے کبھی نہر فرات کو کاٹا اور کبھی ہل چلا کر مٹانے کی ناکام کوشش کی گئی مگر جن کے وجود کی بقا کا وعدہ قدرت نے لیا ہو تو پھر ظالم کا ہر حربہ ناکام نظر اتا ہے تاریخ اسلام میں متوکل اتنا بدکار، بد کردار، زنا کار، عیاش و فحاش حکمراں تھا کہ تاریخ میں ملتا ہیکہ اس کے محل میں چار ہزار کنیزیں تھیں اور سب کے سب اس کے تصرف میں تھی شراب نوشی کرنا اس کا پسندیدہ عمل تھا بے تحاشہ شراب پیتا تھا ظاہر میں اپنے چہرے پر نقاب اسلام تھی مگر اندر سے اسلامی قوانین کا مذاق اڑانے والا ذلیل ترین خلیفہ وقت تھا گویا ایسے ایسے لوگوں نے تختہ خلافت پر قدم رکھ کر اس کی آبرو کو ختم کرنے کی مسلسل سعی نا کام کی ایسے ظالم و جابر حکمراں کے دور میں امام علیہ الصلوۃ والسلام نے 15 سال گزارے جب کہ سیاسی حالات مسلسل اس کے خلاف رہے مگر پھر بھی اپ ع نے کبھی ان حالات سے فائدہ نہیں اٹھایا، بلکہ ہمیشہ اپنی حکمت عملی کو اختیار کرتے رہے۔ امام علیہ السلام کے عظیم کارناموں میں یہ کارنامہ بھی ہے کہ اپ کے دہن اقدس سے زیارت جامعہ کبیرہ جاری و ساری ہوئی جس میں آپ نے محمد و ال محمد کے فضائل کے دریا بہا دئے جس کے ایک ایک لفظ کی اگر تفسیر و تفصیل کی جائے تو اس کی کتابیں لائبریریوں پر مشتمل نظر آئیں گے زیارت جامعہ اہل بیت علیہم الصلوۃ والسلام کے فضائل کا وہ گلشن ہے جس میں امام نے ہر طرح کے گل زیبا کو جگہ دی ہے امام علیہ السلام نے دنیا پر واضح کر دیا ہے کہ جب نشان قبر حسین علیہ السلام مٹانے کی ناکام کوشش کی جائے جب اہل فضیلت کے روضوں کو ڈھانے کی دھمکیاں دینے والے لوگ بر سر اقتدار ہوں جب نفرتیں اپنے عروج پر ہوں ظلم اپنی انتہا پر ہو تو صبر کو نصر میں بدل جانا چاہیے اور جب عداوت کی انتہا ہو تو محبت کا چشمئہ شیریں جاری کر کے امت کو حقیقت اشنا بنا دینا چاہیے یہ ہمارے لیے ایک درس ہے کہ جب ال محمد علیہم السلام کی عظمتوں کا انکار کیا جائے اور دشمنوں کو سر پر چڑھایا جائے ان کے ناموں کی شپت گرہن کی جائے ان کی نسلوں کا نام لیا جائے بن جنی ماؤں کی ناجائز اولادیں جب احفاد کے نام کی قسمیں اٹھانے پر تل جائیں۔

تو ضرورت ہے کہ آل محمد علیہم السلام کے فضائل کے دریا بہا دیے جائیں اور جتنا زیادہ سے زیادہ ہو سکے اس دانشوری اور عقلمندی کے دور میں فضائل آل محمد علیہم السلام سے دنیا کو آشنا کیا جائے زبان و قلم فکرو نظر کے موتی صفحہ حقیقت پر بکھیر دئے جائیں یہ برق رفتاری کے زمانے کا سنہرا موقع ہے اہل علم و حکمت وقت سے استفادہ کریں عصر رواں میں خامہ فرسائی ، تکلم کی دہلیز پر قدم زن ہونا ، خدمت دین مبین کے لیے تمامتر وسائل کو اپنی وسعت و طاقت کے حساب سے بروئے کار لاکر عصمتوں کی حکمتوں کو پورا کر کے دنیا و آخرت میں سر خرو ہو نا خوشنودی آل محمد کا سبب ہو گا اور ایک حساس دل کو ایک صاحب نظر کو ایک صاحب عقل و شعور کو ایک صاحب علم و بصیرت کو یہ معلوم ہو جائے گا کہ تعصب و تنگ نظری کی عینک لگا کر تاریخ نہیں پڑھی جاتی بلکہ منصف مزاج بن کے تاریخ کے صفحات کی ورق گردانی کی جائے تب انسان کو حقائق سے آشنائی ہوگی۔

تاریخ شاہد ہیکہ عبد الرحمن مصری نے جب اپنے شیعہ ہونے کا اعلان کیا تو اس کے پس منظر میں اک واقعہ بیان کیا ہے جسے ہم یہاں اپنے لفظوں میں حوالہ قرطاس کریں گے۔

عبد الرحمٰن مصری نے بتایا کہ میں دربار متوکل میں کھڑا تھا مال کی طلب نے خلافت کی دہلیز پر لاکر کھڑا کردیا فقیروں کی قطار میں دست طلب پھیلانے کھڑا تھا جہاں چہرہ کا پانی اتر رہا تھا عزت نیلام ہو رہی تھی شرم و ندامت کا پسینہ حیاء کی پیشانی سے جاری تھا مگر ضرورت کا کاسہ گدائی دست طلب میں رکھا تھا کہ اچانک حاکم خونخوار کے چہرے پر آثار غضب نمایاں ہوئے اور اس نے طیش میں کسی سید علوی کو طلب کیا اسکے غیض و غضب سے لگ رہا تھا کہ یہ اس کے آتے ہی تو تیغ کردیگا ہم بھی منتظر تھے کہ وہ کون ہے کہ اچانک دربار میں ایک خوب رو خوش و خرم جوان جو نہایت خوبصورت حسین و جمیل تھا وارد دربار ہوا اسکے چہرہ کی ہیبت و شرافت سے اسکی شجاعت و شہامت کا پتہ چل رہا تھا لب و رخسار کا جلال و جمال دیکھنے کے قابل تھا اسکی آنکھیں عین اللہ تھیں اسکا چہرہ وجہ اللہ تھا میری پہلی نظر اس کے رخ اطہر پر پڑی کہ فورا میرے دل میں اسکی محبت کی شمع روشن ہو گئی اور میں نے دل ہی دل میں یہ خیال کیا کہ کتنا حسین و جمیل جوان ہے خدا اسکی حفاظت کرے ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ وہ جوان میرے قریب سے گزرا اور میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا عبد الرحمٰن پریشان نہ ہو مجھے کچھ نہیں ہوگا۔

میری حیرت کی انتہا نا رہی کہ یہ کون ہے جو میرے دل کی دھڑکن کو سن چکا ہے ابھی تو میرے خیال نے لفظوں کا لباس زیب تن نہیں کیا ہے ابھی تو میرے لبوں پر میرے خیال نے دستک نہیں دی ہے یہ کون ہے جو لفظوں سے پہلے معانی کی آواز سن لیتا ہے جو چہرے کی چمک سے دل کی رمق کو محسوس کر لیتا ہے جو گوشۂ چشم کے اشاروں کو جانتا ہے ابھی میں اپنے حیرت و استعجاب میں تھا کہ اس نے دوسرا جملہ کہا عبد الرحمان جا تیرا مقصود پورا ہوا تجھے مال بھی ملےگا اور اولاد بھی؛ بس اس آواز کا ساز میرے کانوں میں گونجا اور میں اس راز سے واقف ہو گیا کہ اب فقیروں کی قطار سے نکلو اور انکی راہ محبت پہ چل پڑوں جنکے سامنے دست طلب بھی پھیلانے کی ضرورت نہیں ہے، یہاں چہرہ کا پانی نہیں اترے گا جو دل کے احوال کو چہرے کے نشیب و فراز سے سمجھ لیں بس انکی روش حیات کو سمجھ لو اپنے شیعہ ہونے کا اعلان کردو، پس میں جب لوٹ کر آیا تو ساری دعاییں مقبول ہو چکی تھیں لھذا ہم نے شیعہ ہونے کا اعلان کردیا۔

دل چاہتا ہیکہ چشم تصور میں امام علی نقی علیہ السلام کے قدموں کا بوسہ لوں کاسہ معرفت کو پھیلاؤں اور دست سوال دراز کرکے پوچھوں مولا ابھی ابھی اسکے دل میں شمع محبت روشن ہوئی ہے اور اپنے سب کچھ عطا کردیا شاید مولا جواب دیں تاکہ تمہیں یہ سبق مل جائے کہ جب ہم لمحوں کی محبت کا قرضہ نہیں رکھتے تو صدیوں کی محبت کو کیسے بھول سکتیں جو نسلوں سے نسلوں تک لمحوں سے صدیوں تک در دہلیز آل محمد پر ہیں وہ ہرگز ہرگز پریشان نہ ہوں بس ہم پر اعتبار رکھیں ہم جب محبت کا صلہ دیتے ہیں تو پھر نسلوں کی حفاظت سے علم و دولت کی پکار تک سب کو سنتے ہیں' بس تمہارا شعور طلب بیدار ہو اور منقار معرفت سے صحن محبت کے دانوں کو چننے کا ہنر پیدا کرلو۔

رب کریم ہمیں حقیقی معرفتِ امام سے آشنا فرمائے۔

ولادتِ باسعادت امام علی نقی علیہ السلام کے پر مسرت موقع پر ہدیہ تبریک و تہنیت پیش کرتے ہیں۔

  • امام محمد باقر (ع) کی حیات طیبہ ایک مختصر تعارف

    امام محمد باقر (ع) کی حیات طیبہ ایک مختصر تعارف

    حوزہ/ امام محمد باقر علیہ السلام کی ولادت باسعادت یکم رجب المرجب ۵۷ ہجری مدینہ منورہ میں ہوئی۔ آپ خاندان عصمت و طہارت کی وہ پہلی کڑی ہیں، جن کا سلسلہء…

  • ماہ رجب المرجب کی مناسبتیں

    ماہ رجب المرجب کی مناسبتیں

    حوزہ/ ماہ رجب خدا کے نزدیک بڑی عظمتوں والا مہینہ ہے، کوئی بھی مہینہ حرمت و فضیلت میں اس کا ہم رتبہ نہیں اور اس مہینے میں کافروں سے جنگ و جدال کرنا حرام…

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha