۲۹ اسفند ۱۴۰۲ |۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 19, 2024
/ ابو مریم صابر کربلائی

حوزہ/ ابو مریم صابر کربلائی کا حوزہ نیوز ایجنسی کیساتھ گفتگو میں کہنا تھا کہ اس مرتبہ یوم القدس ایسے موقع پر ہے جب ایک طرف امریکہ صدی کی ڈیل پر جون میں عمل درآمد کے لئے اگلے اقدمات اٹھائے گا اور اس مکروہ عمل کے لئے اپنے ساتھ بہت سے عرب ممالک کو ساتھ شامل کرلیا ہے تاکہ فلسطین کے خلاف غیر منصفانہ فیصلہ کرکے اسرائیل کو کلین چٹ دی جائے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس سال یوم القدس گزشتہ سالوں کے تمام یوم القدس کی نسبت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔

ابو مریم صابر کربلائی کا تعلق  پاکستان کے شہر کراچی سے ہے، اس وقت فلسطین فانڈیشن پاکستان کے مرکزی ترجمان ہیں اور گلوبل مارچ ٹو یروشلم کی سینٹرل کمیٹی کے اہم رکن ہیں۔صابر کربلائی کا شمار ان فعال افراد میں ہوتا ہے جو فلسطین اور القدس کی آزادی کی خاطر دن رات کام کر رہے ہیں۔ ماضی میں امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے مختلف عہدوں پر فائز رہے اور فعالیت انجام دیتے رہے، اس کے علاوہ صابر ابو مریم کالم نگاری بھی کرتے ہیں،حوزہ نیوز ایجنسی نے حالات حاضرہ بالخصوص مسئلہ فلسطین کے حوالے سے ابو مریم صابر کربلائی سے انٹرویو کیا ہے جو پیش خدمت ہے۔

 

حوزہ نیوز:نام نہاد امن منصوبہ "صدی کی ڈیل" کے مقابلے میں فلسطینیوں کی مزاحمتی تحریک کس حد تک کامیابی کی گامزن نظر آتی ہے؟

ابو مریم:امن منصوبہ جسے صدی کی ڈیل کہا جارہا ہے یہ امریکی صدر کی جانب سے پیش کیا گیا تھا  دراصل یہ امریکہ منصوبے  کے تحت فلسطین کو مکمل طور پر غاصب صیہونیوں کو دینا چاہتا ہے اور اس کے لئے زمینہ سازی کی ہے جس  میں  عرب ممالک اور  مختلف مسلمان ممالک میں امریکی صدر ٹرمپ کے داماد اور صیہونیوں نے مل کر ایک راہ ہموار کی ہے تاکہ فلسطین کا سوداکیا جائے تو عرب ممالک سے مزاحمت پیش نہ آئے سعودیہ عرب اردن اور امارات جیسے ممالک نے اس منصوبے کی حمایت کی ہے لیکن دوسری جانب فلسطینیوں کی مزاحمتی تحریک ہے جو  مسلسل تقویت پارہی ہے اور نئے مراحل میں داخل ہورہی ہے ۔پہلی دوسری اور اب یہ تیسری تحریک کا جائزہ لیں توواپسی کی تحریک ہے جس میں ایک ہی نعرہ بلند کیا جارہا ہے کہ فلسطینیوں کا حق واپسی ہو ۔یہ اس وقت ایک ایسی عالمی تحریک بن چکی ہے  اور فلسطین کے مزاحمتی تحریک کو آگے لیکر جارہی ہے اور اسی مزاحمتی تحریک کا اثر ہے کہ فلسطین کے تمام دھڑوں میںانہوںنے امریکہ کی طرف سے پیش کی گئی نام نہاد امن منصوبہ صدی کی ڈیل کی مذمت کی ہے اورمسترد کردیا ہے ہم بھی جو پاکستان میں تحریک فلسطین کے کارکنان ہیں  فلسطینیوں کی حمایت کے لئے اخلاقی و سیاسی طور پر سرگرداں ہیں  ہماری طرف سے وہی موقف ہے جو فلسطین عوام کا موقف ہے کہ نام نہاد امن منصوبہ ڈیل کی مذمت کرتے ہیں کیونکہ یہ مکمل طور پر فلسطین کو غصب کرنے کی تحریک ہے۔اس کو کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا اور انشاء اللہ فلسطینیوں کی تحریک اسی طرح سازشوں کو ناکام بناتے ہوئے آگے بڑھتی رہے گی ۔

حوزہ نیوز:اسرائیل مسلسل متنازعہ علاقوں میں قبضہ اور بالخصوص اردن کے مغربی کنارے پر یہودی کالونیوں میں اضافہ کر رہاہے،اسرائیلی سرمایہ کاری    دنیا سمیت فلسطین کاز کے لئے کیا نقصانات پہنچا سکتی ہے؟

ابو مریم :غاصب صیہونی ریاست  اسرائیل کا تعلق ہے 1948میں فلسطین پر قبضہ سے اب تک فلسطین کے مختلف علاقوں میں تسلط قائم کرتے رہیں اور صیہنیوں کو یہاں لاکر آباد کرتے رہیں ہیںان کا مقصد  بھی یہی ہے کہ وہ پورے فلسطین پر غاصب ہوجائیں ۔یہ مکروہ عمل 70سالوں سے جاری ہے افسوس کی بات ہے کہ دنیا کی طاقتیں اس انسانیت کی پامالی پرخاموش ہیںاسرائیلی سرمایہ کاری نہ صرف اسرائیلی بلکہ پوری دنیا کے امن کے لئے نقصان دہ ہے  اگر کوئی سمجھتا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلق قائم کرکے سرمایہ کاری کرے گا تو ان کے ملک کو فائدہوگا تویہ خامی خیالی  کی باتیں ہیں اسرائیل کے ایک ایسا جرثومہ اور ناجائز صیہونی ریاست ہے جس کا وجود نہ صرف فلسطین کے لئے خطرہ ہے پوری دنیا کے امن و انسانیت کے لئے خطرہ ہے جہاں بھی دہشت گردی ہورہی ہے ان کے پیچھے اسرائیلی سرمایہ کاری ہے  داعش اسرائیل کی سرمایہ کاری کا نتیجہ ہے  القاعدہ کے ساتھ  امریکہ و اسرائیل کی سرمایہ کاری تھی میں یہ سمجھتا ہوں کہ اسرائیلی کاز کے لئے نقصان دہ ہے بلکہ انسانیت کے لئے سنگین خطرہ ہے۔

حوزہ نیوز:اسرائیلی وحشیانہ کارروائیاں جاری ہیں غزہ کی پٹی پر اسرائلی فورسز کی بڑے پیمانے پر مشقیں بھی جاری ہیں  اس تناظر میں فلسطینیوں کا ایک سال سے جاری واپسی مارچ کیا رنگ لائے گا؟

ابو مریم :اسرائیل  بوکھلاہٹ  کا شکار ہے اور جو فلسطین کی جہادی تنظیمیں جن میں لبنان سے حزب اللہ ہے  جہاد اسلامی ،حماس اور دیگر مزاحمتی گروہوں کی مزاحمت نے اسرائیل کو مجبور کردیا ہے کہ اسرائیل پس پشت ایسی مشقیں کرنے پر مجبور  ہوا ہے تاکہ اپنی جنگی کیفیت کو جاری رکھ کر علاقے میںکنٹرول  قائم رکھ سکے  ۔اس لئے غزہ کے علاقے پر 12سالوں سے قبضہ کر رکھا ہے وہاں پر خوراک ادوایات پر پابندی اور انسانی زندگی کو محصور کرکے رکھ دیا ہے ۔اس لئے میں یہ سمجھتا ہوں کہ اسرائیل اپنے و جود کی بقاء کے لئے ایسی مشقوں کو انجام دے رہا ہے ۔فلسطینیوں کا حق واپسی مارچ جو گزشتہ سال مارچ سے جاری ہے مسلسل حق واپسی مارچ جاری ہے یہ فلسطینیوں کا ایسا حق ہے جس کو امریکہ سمیت کوئی بھی دنیا کی طاقت جھٹلا نہیں سکتی۔مسئلہ فلسطین کا بنیادی سنگ میل یہی ہے کہ ان کو واپسی کا حق ملنا ہے اور ایک ریفرنڈم کی مدد سے وہ اپنے مستقل کا فیصلہ کریں گے کہ وہ فلسطین میں ہی رہنا چاہتے ہیں کیونکہ فلسطین فلسطینیوں کا وطن ہے اور واپسی مارچ  یہ رنگ لائے گا کہ فلسطینیوں کا حقِ واپسی ملے گا اور ہم اس کی نوید جلد سنیں گے انشاء اللہ۔

حوزہ نیوز:وزیر اعظم پاکستان کے دورہ ایران سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں بہتری آئے گی ؟

ابو مریم:جی بالکل وزیر اعظم پاکستان عمران خان کا دو روزہ دورہ ایران  خوش آئند ہے اور ایسے وقت میں ہوا جب امریکہ نے ایران پر شدید پابندیاں لگائی ہیں افواج کو بھی دہشت گرد قرار دیکر اپنی جہالت اور شدت پسندی کا مظاہرہ کیا۔ایسے وقت میں اسلامی جمہوری پاکستان کے وزیر اعظم کا ایران کا دورہ کرنا اور معاہدے کرنا دونوں ملکوں بلکہ تعلقات کے لئے مثبت اورخوش  آئندقدم ہے دونوں پڑوسی اسلامی ممالک ہیں مشترکہ مفاد  کے لئے یقینی طور پرایسی ملاقاتیں اور ترقی کے معاہدے فائدہ مند ثابت  ہوسکتے ہیں۔

 

حوزہ نیوز:موجودہ عالمی تناظر میں فلسطین کاز کے حامیوں کے لئے یوم القدس کس قدر اہمیت کاحامل ہے؟

ابو مریم :ماہ رمضان المبارک کی آمد آمد ہے اور آپ کو معلوم ہے کہ جمعة الوداع کے موقع پر بابصیرت قائد اور رہنماء حضر ت امام خمینی  کے فرمان پر دنیا بھر میں عالمی یوم القدس منایا جاتا ہے ۔اس مرتبہ یوم القد س ایسے موقع پر جب ایک طرف امریکہ صدی کی ڈیل کورواں مہینے  کے بعد جون میں اس پر عمل درآمد کے لئے اگلے اقدمات اٹھائے گا  ا ور اس مکروہ عمل کے لئے  اپنے ساتھ بہت سے عرب ممالک کو ساتھ  شامل کرلیا ہے تاکہ  فلسطین کے خلاف غیر منصفانہ فیصلہ کرکے اسرائیل کو کلین چٹ  دی جائے ۔میںیہ سمجھتا ہوں کہ امسال یوم القدس گزشتہ سالوں کے تمام یوم القدس کی نسبت زیادہ اہمیت کا حامل ہے  دنیا کے مسلمانوں کو  استقامت کے ساتھ  امریکہ مردہ باد اور اسرائیل نامنظور کا نعرہ  بلند کرنا ہے۔اور فلسطین کی آزادی قبلہ اول کی آزادی کے لئے اور تجدید عہد کرنے کا دن ہے کیونکہ  امام خمینی  کے فرمان کے مطابق بلاتفریق یہ دن  دنیا بھر میںمنایا جاتا ہے پاکستان کی عوام سے یہ اپیل کرتا ہوں کہ امریکہ اسرائیل کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور  یوم القدس کو شایان شان طریقہ سے منائیں اور انشاء اللہ یہ وہ نسل ہے جو فلسطین کی آزادی کو اپنی آنکھوں سے دیکھے گی۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .