۴ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۴ شوال ۱۴۴۵ | Apr 23, 2024
آسٹریلیا

حوزہ/سیاسی الاینس کی جانب سے مسلمانوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کے حوالے سے قابل اعتراض قانون بنانے کی کوشش ہورہی ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی بین الاقوامی رپورٹ کے مطابق،آسٹریا کی حکومت مسلمانوں پر نظارت کے لیے متنازعہ قانون سازی کی تیاری کررہی ہے جسمیں "اسلام سیاسی" کے نام پر اسلامی اقدار کی سرکوبی کا پروگرام بنایا گیا ہے۔

اطلاعات کے مطابق،سال کے آغاز سے اس پروگرام اور قانون سازی کے حوالے سے مختلف سطح پر اعتراضات کیے جارہے ہیں۔

ڈیموکریٹک پارٹی کا کہنا تھا کہ ایک مرکز قایم کیا جارہا ہے جس کے تحت یہودی فوبیا، نسل پرستی، شدت پسندی سے مقابلہ کے راہوں پر غور ہوگا اور اس میں سیاسی اسلام پر نظارت کی جائے گی۔

اس قانون کے تحت تمام مساجد اور اسلامی مراکز کے پروگرامز مانیٹر ہوں گے۔

موصولہ اطلاعات کے مطابق،آسٹریا میں اس قسم کا پہلا مرکز سال ۱۹۶۳ میں قایم کیا گیا تھا جو نازی فاشیزم کے حوالے سے کام کرتا ہے۔

اس قانون کے منتقدین کا کہنا تھا کہ اس طرح مرکز کے قیام سے  نازیسم اور ​​اسلام کو برابر قرار دیا گیا ہے۔

جارج ٹاون یونیورسٹِی کے استاد فرید حافظ نے اس قانون سازی پر تشویش کا اظھار کرتے ہوئے کہا: اس قانون سازی سے مسلمانوں کے خلاف سیاسی استفادے کا آلہ تیار کیا جاسکتا ہے اور انہیں بنیادوں پر مساجد اور اسلامی مراکز کی بندش اور حجاب پابندی کے اقدامات اٹھائے گیے ہیں۔

حافظ کا کہنا تھا کہ کہ عقلی حوالے سے کل کو ہر قسم کی سرگرم کو سیاسی اسلام سے جوڑ کر پابندی لگانے کا جواز پیدا ہوسکتا ہے۔

انکا کہنا تھا کہ مرکز کے تعریف میں امن پسندی اسلامی سرگرمی کا زکر ہوا ہے تاہم اسکی کوئی مکمل تعریف نہیں۔

سیاسی پارٹی کے رکن هاکان گوردو، اس قانون کے تحت پر اسلامی اقدار پر آسانی سے حملہ کیا جاسکتا ہے ۔

گوردو کا کہنا تھا کہ جو سیاست کے حامی ہے انکو مسلمانوں کا دفاع کرنا چاہیے اور اسلام کو سیاسی اسلام کی نظر سے دیکھا جائے اور اس طرح کی قانون سازی سرکوبی کے لیے ہتھیار ثابت ہوسکتا ہے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .