حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، بائیڈن انتظامیہ مزید عرب ممالک کو اسرائیل کو تسلیم کرنے اور اس کے بدلے تل ابیب کے ساتھ معاہدوں پر دستخط کرنے کی ترغیب دینے کی سابق امریکی صدر کی پالیسی پر گامزن ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹ کے مطابق یہی نہیں بلکہ صدر جو بائیڈن عرب ریاستوں اور اسرائیل کے درمیان موجودہ معاہدوں کو مستحکم بنانے کے لیے بھی دباؤ ڈال رہے ہیں جو غزہ کی پٹی میں گذشتہ ماہ ہونے والی تباہ کن جنگ کے بعد خطرے سے دوچار ہو گئے تھے۔
اپنے حریف ڈونلڈ ٹرمپ کے نام نہاد ’ابراہم معاہدے‘ کو آگے بڑھانا ڈیموکریٹ صدر کی غیر معمولی پالیسی کا حصہ ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ نے گذشتہ سال مشرق وسطیٰ میں یہودی ریاست کی خطے میں دشمنی اور تنہائی کو کم کرنے کے لیے اسرائیل اور چار عرب ریاستوں کے درمیان معاہدہ قائم کرنے کی حوصلہ افزائی کی تھی۔
بائیڈن انتظامیہ بھی اب اسی پالیسی کو آگے بڑھاتے ہوئے دیگر کئی عرب حکومتوں کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے اور معاہدوں پر دستخط کے نئے امکانات دیکھ رہی ہے۔
تاہم امریکی عہدے داروں نے ان مسلم اور عرب ممالک کے نام بتانے سے انکار کیا ہے جو امریکی کوششوں کے بعد اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے لیے رضامند ہو گئے ہیں۔
اے پی کے مطابق ان ممالک میں سوڈان ایسا ہی متوقع ملک ہے جس نے ابھی تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ عمان، جس میں عدم مداخلت کی پالیسی اسے مشرق وسطیٰ کے مسائل پر ثالثی کے لیے پرکشش ملک بناتی ہے، اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے والی ایک اور ممکنہ عرب ریاست ہو سکتی ہے۔
لیکن گذشتہ ماہ اسرائیل کی غزہ پر خون ریز جارحیت نے نئے معاہدوں کے لیے سفارت کاری کی امریکی کوششوں کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔
سوڈان میں سرگرم کارکن ڈورا گیمبو نے کہا کہ غزہ جنگ نے ملک میں اسرائیل کی مخالفت کرنے والے گروپ اور ان کے موقف کو تقویت بخشی ہے۔
اسرائیل کے ساتھ معاہدے پر دستخط کرنے والے چار ممکنہ عرب ممالک میں سے ایک سوڈان میں گذشتہ سال حکومت پہلے ہیناس معاملے پر تقسیم ہو گئی تھی۔
ٹرمپ انتظامیہ نے سوڈان کو اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بدلے امریکی پابندیوں کو ختم کرنے کی پیش کش کی تھی۔
پچھلے مہینے غزہ میں ہونے والی خوں ریزی پر، جس میں 66 بچوں سمیت 254 فلسطینی شہید ہوئے تھے، عرب عوام کی جانب شدید ردعمل سامنے آیا تھا، ان ممالک میں اسرائیل کو تسلیم کرنے والی ریاستیں بھی شامل تھیں۔
بائیڈن انتظامیہ اسرائیل میں سابق امریکی سفیر ڈین شاپیرو کو اسرائیل اور عرب حکومتوں کے مابین معاہدے کو آگے بڑھانے کے لیے نئی ذمہ داریاں سونپنے پر غور کر رہی ہے۔
اس معاملے سے واقف دو افراد نے تصدیق کی ہے کہ شاپیرو کو اس مقصد کے لیے نامزد کرنے پر غور کیا جارہا ہے جیسا کہ پہلے واشنگٹن پوسٹ نے رپورٹ کیا تھا۔
امریکی اہلکار چار عرب ریاستوں اور اسرائیل کے مابین مزید کاروبار، تعلیم اور دیگر تعلقات کو فروغ دینے کے لیے بھی کام کر رہے ہیں۔
واشنگٹن کو امید ہے کہ اس پالیسی کی کامیابی سے خطے میں دوطرفہ معاہدوں کو بھی فروغ ملے گا جب کہ اسی دوران امریکی اسرائیل اور فلسطین تنازع کے حل کو آگے بڑھانے کے لیے بھی کام کرتے رہیں گے۔
پچھلے سال متحدہ عرب امارات دو دہائیوں کے دوران مصر اور اردن کے بعد اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے والا پہلا عرب ملک بن گیا تھا۔
یہ ایک ایسا اقدام تھا جس نے فلسطینیوں کو رنجیدہ کر دیا تھا جنہوں نے اسے غداری کے طور پر دیکھا۔
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے رواں ہفتے کانگریس کی خارجہ امور کی کمیٹی کو بتایا کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جو معاہدے کیے تھے وہ ’ایک ایسی اہم کامیابی تھی جس کی نہ صرف ہم حمایت کرتے ہیں بلکہ اس آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔‘
بلنکن نے مزید کہا کہ ’ہم ان ممالک کی طرف دیکھ رہے ہیں جو شاید اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات معمول پر لانا چاہتے ہوں۔‘