۷ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۷ شوال ۱۴۴۵ | Apr 26, 2024
انتظامیہ

حوزہ/ایک بار پھر سے ایران مرد میدان نظر آرہا ہے جسمیں طاغوت وقت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کی ہمت و طاقت ہے اور عزت کے ساتھ شہادت قبول کرنا گوارہ ہے وگرنہ یہ عرب ممالک تو پہلے سے ہی اسلام و مسلمان دشمن طاقتوں کے چنگل میں جکڑے اور انکے غلاظت سے مرطوب بستر کو خشک کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔

حوزه نیوز ایجنسیl، خلیج فارس کے عرب ممالک کو ایران کے خلاف متحد کرنے کی آخری کوشش کے طور پر، امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشیر داماد جیریڈ کشنر ٹرمپ انتظامیہ کے آخری دنوں میں اس خطے کا دورہ کر چکے ہیں، لیکن جب کویت کی ثالثی میں سعودی عرب اور قطر کے مابین مفاہمت کو واضح کرنے کے لئے بات چیت شروع ہوئی تو ، تین سالہ پرانے بحران کے حل میں بہت کم پیشرفت ہوسکی۔

دہشت گردی کی حمایت اور ایران اور ترکی کے ساتھ تعاون کے الزامات پر سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مصر کے چوکڑی حلقے نے قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات توڑ کر اس کا محاصرہ کرنے کی کوشش کی تھی۔

سعودی اور قطری عہدیداروں نے بھی اس بحران کے حل کے لئے بات چیت کا آغاز کیا، اور سعودی وزیر خارجہ نے ایک دوٹوک پیغام میں اعلان کیا کہ جلد ہی ہم اتفاق رائے سے قریب پہنچنے والے ہیں، لیکن تجزیہ کار اب بھی اس کی کامیابی پر شکوک و شبہات کا شکار ہیں۔

قطر کی گھیرابندی ختم کرنے کے لیے بات چیت کے نتائج توقعات سے بہت کم سامنے آئے۔ یہ امریکہ کے لئے بھی مایوس کن ہے، جو اکثر اپنے پالتو جانوروں کے اتحادیوں کے مابین لڑائی کے سبب خطے میں اپنے اسٹریٹجک اہداف کے حصول کے لئے جدوجہد کرتا رہتا ہے۔ مثال کے طور پر، جب ٹرمپ زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنے کی اپنی پالیسی کے تحت ایران کا مالی طور پر گلا گھونٹنا چاہتے تھے تو محاصرے میں پھنسے ہوئے قطر کو ایرانی فضائی سرحد استعمال کرنے پر مجبور کیا گیا اور ایران کو اس کی قیمت ادا کرنا پڑی، جس کی وجہ سے ایرانی معیشت کو نقصان پہنچا۔

لندن میں واقع کنگس کالج کے عرب امور کے ماہر اور لیکچرر ، اینڈریاس کریگ کا خیال ہے: اگرچہ دونوں فریقوں نے ایک دوسرے کے خلاف میڈیا مہموں کو کم کرنے پر اتفاق کیا ہے، لیکن سعودی عرب ایک دوسرے قدم کے طور پر اپنی زمینی اور فضائی سرحد کھول سکتا ہے، لیکن اصل تنازعہ کے حل کی کوئی امید نہیں ہے۔

اس تنازعہ کے مرکز میں قطر کے ایران کے ساتھ تعلقات اور دوحہ کی اخوان المسلمین جیسی تنظیموں کی حمایت حاصل ہے، جسے سعودی اور اس کی اتحادی حکومتیں اپنے وجود کے لئے خطرہ سمجھتی ہیں۔

محاصرے کو ختم کرنے کے لئے دوحہ کے سامنے ایران اور اخوان المسلمون سے تعلقات توڑنے اور الجزیرہ نیٹ ورک کو بند کرنے جیسے 13 مطالبات کو دوحہ کے سامنے رکھا گیا۔ لیکن قطر نے سعودی اور اماراتی شہزادوں کے سامنے سر جھکانے سے انکار کردیا۔

اسی کے ساتھ ہی، کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ دوحہ کے تہران اور واشنگٹن کے ساتھ مضبوط تعلقات بائیڈن انتظامیہ کے لئے بہت مددگار ہوسکتے ہیں ، جو پہلے ہی ایٹمی معاہدے میں واپسی کے لئے بات چیت کی تجویز پیش کرچکے ہیں۔

چوطرفہ گھیرابندی سے قطر کا ایران پر انحصار بڑھ گیا ہے۔ بائیکاٹ کی وجہ سے، جب بنیادی ضروریات کی فراہمی میں کمی تھی، ایران وہ پہلا ملک تھا جس نے ان چیزوں کو قطریوں کو فراہم کیا اور قطر ایئر ویز کے لئے اپنی فضائی سرحد کھول دی۔ یہاں تک کہ اگر محاصرہ ختم ہوجائے تو ، اس کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ اس پر دوبارہ عمل درآمد نہیں کیا جائے گا، لہذا قطر ہمیشہ اس دروازے کو کھلا رکھنا چاہتا ہے۔

فارس کے عرب خلیجی ممالک کے شاہی خاندانوں کے مابین اختلاف کی تاریخ لمبی اور پیچیدہ ہے، جس کا حل اتنا آسان نہیں ہے ، لیکن ٹرمپ انتظامیہ اپنی حتمی سفارتی فتح کے طور پر اسے حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ 

مجموعی طور پر اگر دیکھا جائے تو ٹرمپ اور ٹرمپ انتظامیہ ایران کے خلاف عرب اتحاد کی تشکیل کے لیے کوشاں ہے جسمیں وہ کسی حد تک کامیاب ہوتی نظر آرہی ہے، اور حالیہ دنوں میں جو مسلم ممالک کے اتحاد کی شاخ و پر نمود کررہی رہی تھی اسے کاٹنے کی یہ استعماری قینچی اپنا کام کررہی ہےمسلم ممالک ایک بار پھر سے بیوقوف بنتے نظر آرہے ہیں۔

اور ایک بار پھر سے ایران مرد میدان نظر آرہا ہے جسمیں طاغوت وقت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کی ہمت و طاقت ہے اور عزت کے ساتھ شہادت قبول کرنا گوارہ ہے وگرنہ یہ عرب ممالک تو پہلے سے ہی اسلام و مسلمان دشمن طاقتوں کے چنگل میں جکڑے اور انکے غلاظت سے مرطوب بستر کو خشک کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔

یاداشت: سیدلیاقت علی کاظمی الموسوی

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .