۶ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۶ شوال ۱۴۴۵ | Apr 25, 2024
کتاب "عیون اخبار الرضا" پر ایک نظر

حوزہ/ عیون اخبار الرضا عربی زبان میں شیعہ محدث  شیخ صدوق (متوفی 381 ھ) کی تصنیف ہے۔ اس کتاب کے سیکڑوں نسخے ہندوستانی کتابخانوں کی زینت بنے ہیں نور مائکرو فیلم سینٹر میں اسکے تین نسخے موجود ہیں۔

از قلم: مولانا رضوان علی

حوزہ نیوز ایجنسیعیون اخبار الرضا عربی زبان میں شیعہ محدث  شیخ صدوق (متوفی 381 ھ) کی تصنیف ہے۔ شیخ صدوق کا پورا نام "محمد بن علی بن حسین بن موسیٰ بن بابویہ قمی" ہےجو شیخ صدوق کے لقب سے معروف هیں۔ آپ کا شمار شہر مقدس قم کے مایہ ناز محدثوں میں ہوتا ہے۔ شیخ صدوق کے والد گرامی علی بن حسین اپنے زمانے کے مشایخ، ثقہ (مورد اعتماد)، فقیہ اور شہر مقدس قم کے مراجع میں سے تھے۔ باوجود اس کے کہ آپ کے زمانے میں مایہ ناز علماء اور محدثین کی کثیر تعداد شہر قم میں موجود تھی لیکن آپ کو ان سب میں ایک ممتاز مقام حاصل تھا۔ اتنے علمی مقام اور جہان تشیع کے مرجع تقلید ہونے کے باوجود آپ قم میں ایک چھوٹی سی دکان پر نہایت سادگی، پاکدامنی اور قناعت کی زندگی گزارتے تھے۔ آپ نے علم کے مختلف شعبوں میں کتابیں اور مقالہ جات تحریر فرمائے ہیں جنہیں شیخ طوسی اور نجاشی نے ذکر کیا ہے۔
شیخ صدوق کی دقیق تاریخ ولادت معلوم نہیں ہے لیکن جو چیز آپ کی کتاب "کمال الدین و تمام النعمۃ" شیخ طوسی کی کتاب "غیبت" اور نجاشی کی کتاب "الفہرست" سے معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ آپ امام زمانہ(عج) کے دوسرے نائب خاص محمد بن عثمان عَمْری کی رحلت اور امام کے تیسرے نائب خاص حسین بن روح کی نیابت کے ابتدائی سالوں میں متولد ہوئے ہیں۔
خود شیخ صدوق ابوجعفر محمد بن علی بن اسود سے نقل کرتے ہیں کہ ان کے والد گرامی علی بن حسین بن موسی بن بابویہ (جنہیں صدوق اوّل بھی کہا جاتا ہے) محمد بن عثمان عَمْری (دوسرے نائب خاص امام زمانہ عج) کی رحلت کے بعد ابوجعفر سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ حسین بن روح نوبختی( تیسرے نائب خاص امام زمانہ عج) سے کہہ دیں کہ امام زمانہ(عج) سے دعا کی درخواست کریں کہ خدا مجھے کوئی بیٹا عطا کرے۔ ابوجعفر کہتا ہے کہ میں نے ان کی درخواست حسین بن روح تک پہنچائی۔ تین دن کے بعد حسین بن روح نے مجھ سے کہا کہ امام زمانہ(عج) نے علی بن حسن (شیخ صدوق کے والد گرامی) کیلئے دعا کی ہے اور انشاء اللہ خدا ان کو ایک بیٹا عنایت کرے گا۔ خدا کے کرم سےاس بیٹے کے ذریعے ان کو دنیا اور آخرت میں نفع حاصل ہو گا۔
شیخ صدوق  ملت اسلامیہ کے بالعموم اورمذہب شیعہ کے بالخصوص عظیم محسن شمار کئےجاتے ہیں آپ نے اپنی تحقیق کے ذریعه مذہب کی گرانقدر خدمات انجام دی ہیں تقریباً 300 سے زائد علمی آثار کو آپ کی طرف نسبت دی جاتی ہے جن میں سے اکثر آج ہمارے اختیار میں نہیں ہیں۔
 ابن ندیم اپنی کتاب الفہرست میں لکھتے ہیں:شیخ صدوق تین سو کتابوں کے  مصنف تھے اور اس وقت مجھے ان کی جن کتابوں کے نام یاد ہیں ان کا تذکره کررہا ہوں پھر وہ ساری کتابوں کے نام ذکر کرتے ہیں کتاب من لایحضرہ الفقیہ شیعوں کی معتبر ترین کتب اربعہ میں سے ایک ہے جو آپ ہی کے دست مبارک سے لکھی گئی ہے۔ ان کے دیگر علمی آثار میں معانی الاخبار، الخصال، علل الشرائع ،صفات الشیعہ و عیون الاخبار کا نام نمایاں طور پر لیا جا سکتا ہے۔

عیون اخبار الرضا: اس میں حضرت امام علی بن موسی رضا (ع) کے حالات زندگی اور ان سے مروی روایات مذکور ہیں۔ یہ کتاب 69 ابواب پر مشتمل ہے۔ ان میں سے ایک حصہ خود امام علی بن موسی رضا کی احادیث اور کچھ حصوں میں ان کی وہ احادیث ہیں جو انہوں نے اپنے سے پہلے آئمہ سے روایت کی ہیں۔یہ کتاب کسی ایک خاص موضوع کے بارے میں نہیں ہے بلکہ اس میں فقہی، اخلاقی، سیرت اور کلام سے متعلق احادیث ہیں۔ مقدمہ کتاب سے پتہ چلتا ہے صاحب بن عباد دیلمی (وزیر وقت اور شیعہ حاکم (علی بن موسی الرضا) کی مدح میں اشعار کہتا ہے اور شیخ صدوق کو ہدیہ دیتا ہے تو اس کے جواب میں شیخ صدوق صاحب بن عباد کی زحمت کی پاسداری میں اس کتاب کی تالیف کرتے ہیں۔ شیخ خود اس کے متعلق لکھتے ہیں: معارف بیکران امام رضا (ع) سے تالیف شدہ کتاب سے بہتر کوئی ہدیہ نہیں پاتا ہوں کہ جسے صاحب بن عباد کے دو قصیدوں کے جواب میں دیا جائے۔
اہل اثناعشر کے نزدیک یہ مستند ترین کتب میں شامل ہے اسمیں انہی احادیث پراعتماد کیا گیا ہے جن کا سلسلہ امام ہشتم تک منتہی ہو  دوسرا یہ کہ اسکے سارے مشیخہ من لا یحضره الفقیہ والے ہیں۔ علامہ مجلسی نےاس کتاب سے بہت زیادہ استفادہ کیا ہے شيخ صدوق اس کتاب میں بھی دوسری کتابوں کی مانند بعض روایات کی مکمل سند ذکر کرتے ہیں اور بعض مقامات پر روایت مرسلہ یا بعض راویوں کے اسما پر اکتفا کرتے ہیں۔
میرداماد اس کتاب کی مدح میں کہتے ہیں: عیون أخبار الرضا صیقل تجلو عن القلب صداء الکرب عیون اخبار الرضا ایک صیقل کی طرح  ہے جو دل کو زنگ کرب سےصاف کرتی ہے۔ لم یبد للدهر نظیرا لھا لناظر فی الشرق و الغرب اس جیسی کتاب زمانے میں ظاہر نہیں ہوئی شرق اور غرب میں دیکھنے والوں کیلئے۔ و کل فن فی أسالیبھایکفیک و تخلیة‎السرب اسکے اسلوب  میں تمام فنون موجود ہیں  وہ تمہارے لئے کافی ہے اور بے نیاز کرتی ہے۔ کالشمس من نور الھدی مشرق السلم یقضی وطر القلب اس میں نور ہدایت سورج کی طرح  چمکتا ہے دل کی آرزوؤں کو پورا کرتا ہے۔ 

اس کتاب کے 69 ابواب ہیں جن کی فہرست ذیل میں ہے:
1۔ لفظ رضا کی وجہ تسمیہ، 2،آپ کی والده  کا تذکره ،3۔آپ کی ولادت با سعادت،4۔ امام موسی کاظمؑ سےآپ کی امامت پر نص،5۔ امام موسی کاظم کا وصیت نامہ،6۔ باره اماموں کے ضمن میں آپ کی امامت پر نص، 7۔ امام موسی کاظم کی رہائی ، 8 ۔وه روایات جو امام موسیٰ کاظم کی وفات  میں نقل ہوئی ہیں، 9۔امام موسیٰ کاظم کے بعد ہارون کا سادات پر ظلم، 10۔ فرقہ واقفیہ کا وجود، 11۔ توحید کے سلسلہ سےامام رضا کے فرامین،12۔ دربار مامون میں مختلف ادیان کے ساتھ مناظرہ، 13۔ خراسانی متکلم سے امام رضا کا مباحثہ، 14۔ علی جہم سے عصمت انبیاء  پر امام رضا کا مباحثہ ،15۔ عصمت انبیاء پرمامون الرشیدسے مناظرہ ،16۔اصحاب رسول،17 ۔وفدیناه بذبح عظیم کی تفسیر،18 ۔انا ابن الذبیحین کی تشریح،  19۔ امام کی علامات امام رضا کی نظر میں، 20۔امام کا مرتبہ اما م رضا کے خطبے میں ، 21۔ حضرت سیده کی شادی مبارک،22۔ ایمان کی تعریف ،23 ۔عترت اور امت کا فرق،24۔شامی کے سوالات اور امیر المؤمنین کے جواب بیان کرنا،25۔ زید شہید کی فضیلت، 26۔متفرقہ امور کے جوابات، 27۔ہاروت و ماروت کی حقیقت، 28۔حضرت سے مروی متفرقہ روایات، 29۔ آنحضرت کی صفات کا ذکر، 30۔امام رضا سے مروی اخبار منشوره، 31۔امام سےمروی اخبار کا مجموعہ،32۔ کتاب العلل،33۔محمد بن سنان کے جواب میں علل و اسباب کا بیان ،34۔احکام شرعی کے علل واسباب، 35۔شریعت اسلام کی حقیقت، 36۔نیشاپور کا سفر، 37۔ حدیث سلسلۃ الذہب،38۔نادر حدیث، 39 ۔،نیشاپور سےطوس اور مروکا سفر، 40۔آپ کی ولی عہدی،41۔ امام رضا اور طلب باراں،42۔ اس کے حواریوں کی رسوائی،43۔امامؑ کا ذوق شاعری ،44۔، آپ کا حسن اخلاق اور عبادت کا طریقہ،45۔امامت کےمتعلق مامون کامناظره  ،46۔غلاة اور مفوضہ کی تردید، 47۔امام کے چند دلائل امامت اور معجزات، 48۔خاندان بکار کیلئے بدعا اور اس کا اثر ،49۔آپکے بغداد نہ جانے کی پیش گوئی ،50۔آل برمک کیلئے بدعا،51۔ہارون کے ساتھ ایک مکان میں دفن ہونے کی پیش گوئی، 52۔زہر خورانی اور ہارون کے ساتھ ایک مکان میں دفن ہونے کی پیش گوئی، 53۔مومن اور منافق کی صحیح پہچان،54۔آپ کا تمام زبانوں سے واقف ہونا،55۔حسن بن علی وشاء کے سوالوں کے جوابات،56۔ابو قرہ کے جوابات،57۔ امامت کے سلسلہ سےیحییٰ بن ضحاک  کو  جوابات،58۔زید النار سے خطاب ، 59۔اسباب شہادت،60۔امام تقی کی امامت پر نص،61۔حضرت کی شہادت مامون کے زہر سے،62۔طریق خاصہ شہادت کی روایت، 63۔ ابو صلت کی روایت شہادت کے سلسلہ سے،64۔امام کی شہادت ہرثمہ کی زبانی، 65۔کی شہادت پر چند مراثی ، 66۔امام رضا کی زیارت کا ثواب،  67۔ معصومہ قم کی زیارت کی فضیلت،  68۔ امام علی رضا کی زیارت کا طریقہ، 69۔ اما م کے روضه کی کرامات۔
اس کتاب کے سیکڑوں نسخے ہندوستانی کتابخانوں کی زینت بنے ہیں نور مائکرو فیلم سینٹر میں اسکے تین نسخے موجود ہیں جنکی تفصیل یہ ہے: (1)۔كتابخانہ ناصريہ صاحب عبقات لكھنؤ۔ اس نسخے کی كتابت ابراہيم بن على بن ابراہيم الطبرى العاملى مشہدی نےسال: 776ھ میں کی ہے  جو خط نسخ میں ہے   اس کتاب میں 228 صفحہ ہیں اور ہر صفحہ پر24 سطر ہیں۔
یہ کتاب اس عبارت سے شروع ہوتی ہے: بسمله. الحمدللّه‏ الواحد القھار... قال ابو جعفر بن محمد بن على بن حسين بن موسى بن۔ 
(2)۔  كتابخانہ انٹرنیشنل مائکروفلم نور دہلی: اس نسخے کی كتابت ابو على ولد سيد على اوسط نقوى صفى پورى نےسن 1296ھ میں کی جو خط نسخ میں ہے اس کتاب میں 459 صفحہ ہیں اور ہر صفحہ میں15سطریں ہیں۔  آغاز: بسمله. الحمدللّه‏ الواحد القھار العزيز الجبار الرحيم الغفار فاطر الارض و السماء... (3)۔  كتابخانہ مولانا آزاد دانشگاه اسلامي، عليگڑھ _ جلد اوّل۔ اس نسخے کی کتابت سيّد اولاد احمد بن سيّد احمد حسينى واسطى بلگرامى امروہوى نے کی ہے۔  خط:نسخ،124صفحات جو اس عبارت سے شروع ہوتاہے: حدّثنى الشيخ المؤتمن الوالد ابوالحسن على بن ابى طالب التميمى المجاور ...

کتاب "عیون اخبار الرضا" پر ایک نظر
از قلم: مولانا رضوان علی

تبصرہ ارسال

You are replying to: .

تبصرے

  • احمد IN 15:54 - 2021/06/21
    0 0
    ماشاءاللہ سبحان اللہ حوزہ نیوز کی کاوشیں ہیں جس کے نتیجہ میں علمی خزائن دیکھنے اور پڑھنے کو مل رہے ہیں حوزہ نیوز کے اراکین اور مقالہ نگار مولانا رضون علی صاحب سلامت رہیں