۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
ماہ ذی الحجہ

حوزہ/ ماہ ذی الحجہ کے ہر ‏عشرے کی ایک اہم خصوصیت ہے۔جسکے متعلق ہم رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای 31 جولائی 2020‏ کے بیان کا اقتباس آپ کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی ذی الحجہ مہینے کا پہلا عشرہ یادگار واقعات کا عشرہ ہے۔ ماہ ذی الحجہ کے ہر ‏عشرے کی ایک اہم خصوصیت ہے۔ پہلا عشرہ اہم، پرشکوہ اور سبق آموز واقعات کی یاد دلاتا ہے اور ساتھ ہی اللہ کی بارگاہ ‏میں گریہ و زاری اور توبہ و استغفار کا موقع فراہم کرتا ہے۔ واقعات کا سلسلہ حضرت موسی علیہ السلام کے واقعے سے ‏شروع ہوتا ہے «وَ واعَدْنا مُوسی‌ ثَلاثینَ لَیْلَةً وَ أَتْمَمْناها بِعَشْرٍ فَتَمَّ میقاتُ رَبِّهِ أَرْبَعینَ لَیْلَة» پروردگار عالم کے ساتھ حضرت ‏موسی کا چالیس شبوں کا وعدہ تھا جو کوہ طور پر یا اس معینہ وعدہ گاہ میں انجام پایا۔ تفسیر میں ہے کہ یہ چالیس راتیں ماہ ‏ذیقعدہ کی پہلی شب سے شروع ہوتی ہیں اور عید الاضحی کی شب پر ختم ہوتی ہیں۔ پہلے تیس رات کا وعدہ تھا پھر اس میں ‏دس راتوں کا اضافہ کیا گیا اور یہی دس راتیں ماہ ذی الحجہ کی راتیں ہیں۔ اس سے ان راتوں کی اہمیت بھی اجاگر ہوتی ہے۔
ان واقعات میں حضرت موسی کے رنج و آلام نمایاں ہیں۔ مصر میں حضرت موسی علیہ السلام کی حد درجہ محنت و مشقت، ‏فرعون سے ٹکراؤ اور عجیب و غریب مشکلات جو مدین سے واپسی کے بعد در پیش رہیں اور مصر سے حضرت کے باہر ‏نکل جانے تک رونما ہوتی رہیں۔ فرعون کے تعلق سے، بنی اسرائیل کے تعلق سے، جادوگروں اور دوسرے افراد کے تعلق ‏سے۔ اس کے بعد وہ عظیم معجزہ جو رونما ہوا کہ دریا بیچ سے شگافتہ ہوا اور بنی اسرائیل کا دشمن اپنے تمام لاؤ لشکر کے ‏ساتھ ان کی آنکھوں کے سامنے غرق ہو گیا۔ اس سے بنی اسرائیل کے اندر پختہ ابدی ایمان پیدا ہو جانا چاہئے تھا۔ لیکن ایسا ‏نہیں ہوا۔ پہلے انھوں نے کہہ دیا: «اِجْعَلْ لَنا إِلهاً کَما لَهُمْ آلِهَة» شرک اور بت پرستی کی فکر میں تھے اور بت پرستی کے ‏لئے ان کے دل مچل رہے تھے۔ شروع میں یہ ہوا اور اس کے بعد بچھڑے کا قضیہ پیش آ گیا جو غالبا انھیں چالیس دنوں کے ‏دوران کا واقعہ ہے۔ حضرت جب وعدہ گاہ میں وہ وقت گزار کر لوٹے تو دیکھا کہ حالات دگرگوں ہو چکے ہیں اور قوم پرانی ‏حالت پر پلٹ گئی ہے۔
یہ ایک پیغمبر کے لئے، وحدانیت کے داعی کے لئے کتنی تکلیف دہ بات ہے؟ اتنی زحمتیں کرکے کچھ لوگوں کو راہ خدا کی ‏سمت لاتے ہیں، انھیں ایمان کی تلقین کرتے ہیں مگر پھر ایک معمولی سا واقعہ ہوتا ہے اور وہ سب ایمان سے برگشتہ ہو ‏جاتے ہیں۔ قرآن میں؛ «وَاَلقَی الاَلواحَ وَاَخَذَ بِرَأسِ اَخیهِ یَجُرُّهُ اِلَیه» حضرت نے جب یہ حالت دیکھی تو شدید خشمگیں ہوئے، ‏انھیں بڑا دکھ ہوا، بہت افسوس ہوا۔ قرآن میں کم از کم دو جگہ اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ «لا تَکونوا کَالَّذینَ آذَوا ‏موسىٰ» یہاں بنی اسرائیل سے حضرت موسی کو پہنچنے والی تکلیف کا ذکر کیا گیا ہے۔ سورہ صف میں بھی ایک جگہ ‏ہے؛ «قالَ موسىٰ لِقَومِهِ یا قَومِ لِمَ تُؤذونَنی وَقَد تَعلَمونَ أَنّی رَسولُ اللَّهِ إِلَیکُم» اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ بنی اسرائیل سے ‏حضرت موسی کو جو تکلیفیں پہنچیں وہ بہت زیادہ تھیں۔ یہ دس راتیں ان اہم تاریخی واقعات کی راتیں ہیں جو ہمیں بتاتی ‏ہیں کہ ان معجزات کے باوجود جو حضرت موسی کے ہاتھوں رونما ہوئے، راہ حق پر سفر کرنا کتنا مشکلوں بھرا کام ہے اور ‏ان مشکلات کا کیسے سامانہ کرنا چاہئے اور کس طرح صبر کرنا چاہئے۔ تو ایک اہم واقعہ یہ ہے۔
اس کے علاوہ یوم عرفہ ہے ‏جو اللہ کی بارگاہ میں دعا، توسل اور توجہ کا دن ہے۔ امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا کہ میرے والد ‏یعنی حضرت امام باقر علیہ السلام عرفات میں عرفے کے دن آگ برساتی دھوپ میں روزہ رکھتے تھے، یقینا یہ نذر کا روزہ ‏رہا ہوگا، اس شدید گرمی میں دعا پڑھتے تھے اور اللہ کی بارگاہ میں گریہ و زاری فرماتے تھے۔ امام حسین علیہ السلام سے ‏منسوب دعا تو بالکل واضح ہے، اسی طرح صحیفہ سجادیہ کی دعا بھی غیر معمولی دعا ہے۔ یہ یوم عرفہ سے مربوط ہیں۔ ‏میں امید کرتا ہوں کہ ہمارے عزیز عوام نے کل کے دن جو عرفہ کا دن تھا کما حقہ کسب فیض  کیا ہوگا اور ان شاء اللہ آپ کی ‏ساری دعائیں مستجاب ہوئی ہوں گی۔
اس کے بعد عید الاضحی کی باری آتی ہے۔ یہ حیرت انگیز اور مبہوت کن قربانی پوری تاریخ میں بے مثال ہے۔ حضرت ‏ابراہیم کو حکم دیا جاتا ہے کہ اپنے نوجوان فرزند کو اپنے ہاتھوں سے قتل کریں۔ یہ حکم خداوندی ہے، یہ الہی امتحان ہے۔ ‏اس فرزند کو جس سے آپ برسوں محروم رہے اور بڑھاپے میں اَلحَمدُ لِلَّهِ الَّذی وَهَبَ لی عَلَى الکِبَرِ إِسماعیلَ وَإِسحاق۔ اللہ ‏تعالی نے یہ بچہ حضرت ابراہم کو عطا کیا تھا۔ ظاہر ہے کہ انسان عمر کے آخری حصے میں، بڑھاپے میں عطا ہونے والی ‏اولاد سے گہری قلبی وابستگی رکھتا ہے۔ اپنے اس فرزند سے «فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْیَ» جو جواں سال ہے یا لڑکپن کی عمر ‏میں ہے، آپ نے کہا کہ میں تمہیں قتل کرنا چاہتا ہوں۔ یہ اللہ کا حکم ہے۔ وہ نوجوان جواب دیتا ہے؛یا أَبَتِ افْعَلْ ما تُؤْمَرُ ‏سَتَجِدُنی‌ إِنْ شاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرین آپ دیکھئے کہ تاریخ دین، تاریخ دینداری، تاریخ ایمان اور تاریخ اسلام کے کیسے حیرت ‏انگیز واقعات ہیں۔ ہماری اپنی تاریخ میں، ہماری دینداری کی تاریخ میں بھی یہ چیزیں ملتی ہیں کہ بوڑھا باپ اللہ کے حکم  کی ‏خاطر اپنے جوان بیٹے کو اپنے ہاتھوں سے قربانی کر دینے پر آمادہ ہے اور وہ نوجوان بھی مکمل رضا و رغبت سے کہتا ‏ہے؛ اِفْعَلْ ما تُؤْمَرُ سَتَجِدُنی‌ إِنْ شاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرین۔ آپ دیکھیں گے کہ میں برداشت کروں گا۔ تو یہ عید قربان کا واقعہ ہے جو ‏پہلے عشرے سے مربوط ہے۔ یہ اس طرح کے پرشکوہ، پرمغز اور سبق آموز واقعات کا عشرہ ہے۔

امام خامنہ ای
31 جولائی 2020‏

تبصرہ ارسال

You are replying to: .