۳۱ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۲ ذیقعدهٔ ۱۴۴۵ | May 20, 2024
کشمیر

حوزہ/ کشمیر میں شب عاشورا کی تاریکی میں بے گناہ علماء کرام کو غُل و زنجیر اور پابند سلاسل کرکے زندان کی تاریک کوٹھریوں میں مقید۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،کشمیر کے شیعہ عالم میر مقبول حسین جعفری نے کہا کہ آٹھ محرم کے قدیمی مرکزی جلوس پر سے تیس سالہ پابندی ہٹانے کے بعد نہتے عزاداروں پر بے تہاشہ وسائل جنگی سے وار کرکے سینکڑوں بے گناہ عزاداروں کو خون میں غلطاں کرکے پلٹ گن کا بلاجواز استعمال، بلا روک ٹوک عزاداروں کو گاڑیوں سے کچلنا اور جعلی پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت سینکڑوں افراد کو گرفتار کرکے سلاخوں کے پیچھے ڈال کر  جوانوں کے مستقبل سے کھیلنا موجودہ انتظامیہ کا وطیرہ بن گیا ہے یہ لوگ ان حربوں سے ملت میں روب و دبدبہ قائم کرنا چاہتے ہیں۔ تاکہ دنیا کی سب سے بڑی نام نہاد جمہوریت پر کسی قسم کی آنچ نہ آسکے۔

انہوں نے کہا کہ اس ملک میں موجودہ حکومت کے خلاف زبان کھولنا سب سے بڑا جرم ہے ڈیموکریسی اور جمہوریت کے بلند بانگ نعرے دینے والے سیاستداں، آزادی بیاں کا زبانی نعرا لگاتے تھکان بھی محسوس نہیں کرتے اور عملی میدان میں اس نعرے کی حقیقت اس چیز سے ظاہر ہوتی ہے کہ آئے دن جوانوں کی پکڑ دھکڑ اور تنگ و تاریک کوٹھریوں کی صعوبتیں۔ آخر ان جوانوں کی کیا خطا اور کن گناہوں کی سزا ہے اب تو اس تاناشاہی نظام نے اپنی حدود کو بالائے طاق رکھتے ہوئے دینی اور مذہبی پیشواؤں کو گرفتار کرنا شروع کردیا، نہیں معلوم علماء اور مذہبی پیشواؤں سے کیوں اتنا خائف ہیں اگر انتظامیہ صحیح ہوتی تو بے شب عاشورا کی تاریکی میں بے گناہ علماء کرام کو غُل و زنجیر اور پابند سلاسل کرکے زندان کی تاریک کوٹھریوں میں مقید نہیں کرتے۔

موصولہ اطلاع کے مطابق حجت الاسلام و المسلمین مولانا منظور احمد ملک صاحب قبلہ (نولری) کو شب عاشورا میں نماز مغربین کے آس پاس مقامی پولیس انتظامیہ نے گھر سے اٹھا لیا ہے جب پولیس سے اس گھناؤنی حرکت کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ مولانا کی وجہ سے امن میں رخنہ پڑنے کا امکان ہے اس لئے مولانا کو مقامی پولیس اسٹیشن میں قید کردیا گیا ہے۔

ان بد اندیشوں، نافہموں اور عقل سے پیدل محافظوں کو کون سمجھائے کہ دین اور مذہب کے محافظ، انسان دوست اور امن عامہ ہی قائم کرنے والے ہوتے ہیں نہ کہ تمہاری طرح امن کی فضا کو مکدر کرتے ہیں۔ ہم موجودہ انتظامیہ کے اس مکروہ کردار، شیعہ دشمنی، حسینیت سے عناد اور اسلام دشمنی کی پر زور مزمت کرتے ہیں اور ایسے معاندانہ رفتار سے باز رہنے کی تلقین کرتے ہوئے حسینی جلوسوں پر قدغن یا محدودیت کو فورا ہٹانے کی پرزور اپیل کرتے ہیں۔ برسہا برس سے ہانجیویرہ پایین کے یوم عاشورا کا جلوس عزا صبح آٹھ بجے سے دن کے ایک بجے تک سرینگر مظفرآباد نیشنل ہائی وے سے گزرتے ہوئے اپنے اصلی مقام پر اختتام پذیر ہوا کرتا ہے لیکن پچھلے چند ایک سالوں سے انتظامیہ نے اس کے ساتھ بھی چھیڑخانی شروع کردی ہے اگر انتظامیہ کی جانب سے جلوس میں رخنہ اندازی کی سعی کی گئی چونکہ جلوس کا انتظام و انصرام جوانوں کے ہاتھوں میں رہتا ہے ان کو کنٹرول کرنا آسان نہیں ہوگا نتیجتاً اس کے بہت ہی سنگین نتائج برآمد ہوسکتے ہیں لہذا پولیس انتظامیہ سے مودبانہ، عاجزانہ اور التماسانہ اپیل، درخواست اور گزارش ہے کہ عزاداروں کے محافظ کا کردار نبھائے نہ اسلام دشمن کا کردار۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .