۱۲ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۲ شوال ۱۴۴۵ | May 1, 2024
قم المقدسہ میں شہید سردار سلیمانی کے عنوان سے کتابوں کی رونمائی

حوزہ/ ہمارا فریضہ ہیکہ ہم شہید قاسم سلیمانی کے راستے کو جاری رکھیں اور ان کے مشن کو بہترین انداز میں پایہ تکمیل تک پہونچاییں جو انہوں نے ہمارے کندھوں پر رکھا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،شہید سردار سلیمانی،ایثار،استقامت،عفو،گذشت، صبر،توکل،اوربہترین شیدائے حضرت عباس علمدار کے نمونے کوکہتے ہیں ،آپ نے دنیا والوں کے اس سوال کاجواب دیاکہ ہم کس طرح سے اپنے امام کے بتائے ہوئے راستے پرمثل مالک اشتر زندگی گزارسکتے ہیں ،یہ ایک ایسے سوال کاجواب تھاجسے سنکر،پڑھکرسبھی حیرت میں ہیں اوراس عصر میں نیک اورسچے لوگوں کی انے اس عمل سے تشویق کی جسکی وجہ سے سبھی کایہ کہناہے کہ شہیدسردارسلیمانی،ابومہدی مہندس اورانکے ہمراہ دین اسلام پرجان دینے والوں کو دنیاکبھی بھلانہیں سکتی ؟ آج اسی سبے دنیاکے ہرگوشہ وکنارمیں آپکے چاہنے والے موجودہیں اورآپکی یادمنایاکرتے ہیں۔

'اس بات کا اظہار حجت الاسلام والمسلمین مولانا سیدسیدشمع محمدرضوی نے کیا۔انہوں نے کہا کہ اس یادکوباقی رکھناسبھی کی ذمہ داری ہے،قم المقدسہ،ایران میں مجمع علماء ہندوستان کی کاوشوں سے ایک دبیرخانہ سردارسلیمانی کابھی افتتاح ہوا تاکہ دنیاکہ تمام بکھرے ہوئے آثاراوران کی فعالیتیں ایک جگہ جمع ہوسکیں ،مدرسہ حجتیہ،قم ایران میں چند روزفعالیتوں کے بعد ایک کانفرنس میں کتابوں کی رونمائی بھی ہوئی،جوایک عظیم قیمتی سرمایہ بنکر سامنے پیش ہوئی ،اس سلسلے میں کس کا کس کا شکریہ ادا کیا جائے۔

حجة الاسلام والمسلمین آقای رضاخراسانی نژاد،،حجة الاسلام والمسلمین آقای محمدصرفی،حضرت آیة اللہ تلخوابی،حضرت آقای مصنف کتاب حسن ملک محمدی تہرانی،مترجم کتاب ،حجة الاسلام والمسلمین مولاناسیدضرغام حیدرنقوی،یگراحباب کاجنکی زحتموں سے یہ آثارلوگوں کے سامنے پیش ہے،خداوند عالم سبھی کو توفیقات میں اضافہ فرمائے آمین ثم امین،

حجۃ الاسلام والمسلمین مولاناسید شمشیر حیدر رضوی جنہوں نے اس پروگرام کوچارچاند لگانے میں بے پناہ محنت کی اپنے جذبے کااظہاراس طرح سے فرماتے ہیں! ایثار ، فداکاری، جانثاری اور اخلاق طیبہ کا جذبہ رکھتے ہیں اورسبھی کی خواہش ہوتی ہے کہ خدمت خلق میں پیش پیش رہیں۔ اپنے ملک و مذہب کو دنیا والوں کے لئے نمونہ بناکر پیش کریں لیکن انسان جب میدان عمل میں قدم رکھتا ہے توکبھی خود اسکا نفس ،کبھی بیوی۔بچے اور کبھی اسی طرح کی دوسری چیزیں اسکی اس راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہیں جس کی وجہ سے انسان کی کامیابی کا یہ سفر ادھورا رہ جاتا ہے اور وہ اپنے تکامل و سربلندی کے اس سفر میں حوصلہ و ہمت ہار جاتا ہے۔ اب ذرا سوچئے کہ ابھی کچھ برسوں پہلے اس وقت اور ان معاشروں کا کیا حال ہوا ہوگا کہ جہان انسان نما حیوان اور مسلمان نما یہودی انسانیت کو پامال کرتے ہوئے بنی آدم کو اسلام کے نام پر تہہ تیغ کررہے تھے۔ ایسےمیں اس تیز رفتار اور پیشرفتہ دنیا میں اپنے آپ کو دنیا کا چودھری سمجھنے والے بزدل اور ناکارہ لیڈران بجائے اس کے کہ آدمیت و انسانی وقار کو بچانے کے لئے آگے آتے، انہوں نے مہلک ترین و پیشرفتہ اسلحے کچھ سفاک قاتلوں اور درندوں کے سپرد کردئیے تھے۔ جس کے بعد اکثر اسلامی ممالک تماشائی بنے ہوئے تھے اور ان کے بے بصیرت رہنما بہرے گونگوں کی طرح اپنے ہی لوگوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح ہوتے دیکھ رہےتھے۔

اس رہنما نے اپنے سب سے قریبی اور معتمدترین فرد کو طلب کیا اور نہ جانے کیا کیا ہدایات دیں اور نصیحتیں کیں کہ دیکھتے ہی دیکھتے جہاں چاروں طرف قتل و غارت گری کا ننگا ناچ ہو رہا تھا اور ہر طرف سے چیخ و پکار کی صدائیں بلند ہو رہی تھیں وہیں امیدوں کی ایسی شمعیں روشن ہو گئیں کہ حالات یکسر بدل گئے۔حیات نو کا احساس دلانے والے اس بے مثال اور نڈر سپاہی نے کمرہمت باندھ کر اپنے لیڈر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے قدم آگے بڑھا دئے تھے اور آناً فاناً میں ظلم و بربریت اور قتل و غارتگری کے اس ننگے ناچ کا خاتمہ کرتے ہوئے شروں کو امن و امان کا گوہارہ بنادیا تھا ۔ حالات کچھ ایسے اور کچھ اتنی تیزی سے بدلے کہ ان دنیا پرستوں اور ان ظالموں کی پلیدی و پستی ہر با بصیرت انسان کو صاف صاف نظر آ نے لگی تھی۔ اب کیا تھا، یہ سپاہی خودہی ہر میدان میں آگے بڑھتا چلا گیا اور اتنا آگے نکل گیا کہ جہاں صرف اور صرف حیات ابدی ہی تھی اور کچھ نہیں۔ یہ عظیم الشان ہستی دوستوں کے لئے ڈھارس اور دشمنوں کے لئے شمشیرحیدر کرار بن گئی تھی یعنی مظلوموں کی مسیحا اور دشمنوں کی آنکھ کا کانٹا بن گئی تھی۔ مولاناموصوف نے اس سلسلے میں مزید فرمایا،دشمن سمجھ گیا تھا کہ اب جب تک یہ مرد مجاہد زندہ رہے گا تب تک ہم اپنے منصوبوں کو بروئے کار نہیں لا سکتے۔ دشمن سمجھ گیا تھا کہ اگر انسانیت کایہ مسیحا، یہ مرد میدان اوریہ زندہ شہد کچھ دن اور زندہ رہ گیا اور اپنے وقت کے ‘‘علی’’ کا سپہ سالار مالک اشتربن گیا تو کچھ ہی دنوں میں ہمارے تیار کردہ ان خونخوار بھیڑیوں سے امت مسلمہ کو بچا کر متحد کردے گا ۔لہذا فوراً ہی اس کے قتل کے منصوبے بنائے جانے لگے لیکن شاید دشمن کو یہ اندازہ نہیں تھاکہ یہ زندہ شہید اپنی شاردت کے بعد مزید خطرناک ہوجائے گا ۔پھر ایک دن وہ بھی آیا جب سورج طلوع ہونے سے پہلے ہی بغداد ایرپورٹ کے باہرہم نےاپنے ہی خون میں غلطاں ایک ایسا فرشتہ بھی دیکھا جسے ساری دنیا جنرل قاسم سلیمانی کے نام سے جانتی تھی۔یہ وہی قاسم سلیمانی تھےجن کانام سنکر ہی دشمن کی پیشانی پر پسینا آجاتا تھا اور جن کے نام سےہی دشمن لرزہ بر اندام ہو جاتاتھا۔اب شہید قاسم سلیمانی ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن شہید قاسم سلیمانی کی شہادت نے دشمن کے سارے منصوبوں کو خاک میں ملا کر اسکا جینا حرام کر دیا ہے۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ جو کچھ دشمن نے سوچا تھا ویسا کچھ نہیں ہوا ور اسکے برعکس شہید قاسم سلیمانی کی شہادت ایک ایسا کارنامہ کر گئی جس سےدشمن کے راتوں کی نیند حرام ہو گئی ہے۔سلام ہو قاسم سلیمانی پرجنہوں نے بغیر کسی تعصب کے انسانیت اور مقامات مقدسہ کی حفاظت کرتے ہوئے اپنے جسم و جاں کو اپنے معبود حقیقی کے حوالہ کردیا۔

رپورٹ کے مطابق اس موقع پر حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا محمد وزیر حسن قبله و کعبه ،نے فرمایا!عصر حاضر کی عظیم طاقت، قاسم سلیمانی تھے،،دنیاوالوں نے آپکی شہادت پریہ دیکھاکہ! سردار قاسم سلیمانی، ابو مہدی مہندس اور انکے ساتھیوں کی شہادت کے بعد تشیع، جنازہ عراق کے لاکھوں لوگوں نے بغداد، کاظمین، اور کربلا ونجف میں کیں، اور پھر شہید سردار کا جنازہ، ایران منتقل ہوا، پھر خود ایران کے مختلف شہروں (اهواز،مشهد،تهران،قم وکرمان) میں کروڑوں لوگوں نے آپ کی تشیع جنازہ میں شرکت کی، اس کے علاوہ تہران میں ملیونوں لوگ تشیع، جنازہ میں شریک ہوئے، خبر کے مطابق ایران میں سید روح‌الله امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی تشیع جنازہ کے بعد سب سے بڑا مجمع آپ کے جنازہ میں اٹھاہوا۔

حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا سیدمحمدصابرجعفری قبله و کعبه نے فرمایا!دین اسلام کے مکتب کے علمبرادار"شهید حاج قاسم سلیمانی،شہیدحاج قاسم سلیمانیؒ، ایک ماہر دشمن شناس تھے انھوں نے زمانے کے پیجیدہ حالات میں اہم اور مہم کی ترجیحات کو بخوبی پہچانا اور انھوں نے یہ بھی سمجھ لیا کہ تمام فسادات کا منبع و سرچشمہ امریکہ اور اسرائیل ہیں۔ لہذا انہوں نے فساد کے خلاف لرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ شہید حاج قاسم سلیمانی نے یہ جانتے تھے کہ عالم اسلام کی نجات کا واحد راستہ مقاومت ہے،لہذا نہضت مقاومت پر پوری توجہ مرکوز کی اور دشمنوں کو شکست دیتے ہوئے آگے بڑھتے رہے یہاں تک کے آج یمن،عراق، شام سب متحد اور منسجم ہوچکے ہیں اور استکباری طاقتوں سے دست و پنجہ نرم کر رہے ہیں یہ جرات اور یہ ہمت انہیں کہاں سے ملی؟بلا شک شهید قاسم سلیمانی کی وجہ سے اور یہ شھید کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ شهید قاسم سلیمانی ولایت فقیہ کے مطیع تھے اسی وجہ سے وہ دلوں کے امیر بن گیے اور تمام اقوام عالم ان سے بے پناہ محبت کرتی تھی،ہمارا فریضہ ہیکہ ہم شہید قاسم سلیمانی کے راستے کو جاری رکھیں اور ان کے مشن کو بہترین انداز میں پایہ تکمیل تک پہونچاییں جو انھوں نے ھمارے کندھوں پر رکھا ہے۔ ہمیں پہلے سے کہیں زیادہ سخت محنت اور تلاش کرنے کی ضرورت ہے ۔ آج ھمین شھید قاسم سلیمانی کے راستے کو زیادہ سنجیدگی سے جاری رکھنا چاہیے اور ان کے بیانات گہر بار کو مشعل راہ قرار دیتے ہوئے آگے بڑھنا چاہیے۔

قم المقدسہ میں شہید سردار سلیمانی کے عنوان سے کتابوں کی رونمائی

قم المقدسہ میں شہید سردار سلیمانی کے عنوان سے کتابوں کی رونمائی

قم المقدسہ میں شہید سردار سلیمانی کے عنوان سے کتابوں کی رونمائی

قم المقدسہ میں شہید سردار سلیمانی کے عنوان سے کتابوں کی رونمائی

قم المقدسہ میں شہید سردار سلیمانی کے عنوان سے کتابوں کی رونمائی

تبصرہ ارسال

You are replying to: .

تبصرے

  • محسن علی PK 20:50 - 2022/02/21
    0 0
    سلام یہ کتاب کیسے مل سکتی ہے؟