۹ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۹ شوال ۱۴۴۵ | Apr 28, 2024
مولانا نبی بخش مبارک پوری

حوزہ/ پیشکش: دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمائکروفلم سینٹر دہلی کاوش: مولانا سید غافر رضوی چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی

حوزہ نیوز ایجنسی | مولانا نبی بخش سنہ 1290 ہجری میں سرزمین مبارکپور ضلع اعظم گڑھ صوبہ اترپردیش پر پیدا ہوئے،آپ کے والد مولاناضیاء الدین متقی اور پرہیزگار عالم تھے۔ آپ کی والدہ نہایت نیک اور پرہیزگار خاتون تھیں ۔ مولانا کے والدین نے آپ کا نام خدا کے آخری نبی کی محبت کے سبب نبی بخش رکھا۔آپ بچپن ہی میں والدین کی شفقت سے محروم ہوگئے۔

مولانا کوبچپن سے قلم دوات اور لکھنا پڑھنا بہت پسند تھا۔ والدین کے انتقال کے بعد حاندان کے بزرگوں کی زیر سرپرستی

مشغول تعلیم رہے ۔ مولانا کے کچھ رشتہ دار ممبئی میں رہتے تھے لہذا آپ بھی ان کے پاس ممبئی چلے گئے اور جید اساتذہ کرام کی سرپرستی میں ابتدائی تعلیم مکمل کی اور ساتھ ہی خطاطی و نقاشی جیسے فنون میں بہت جلدمہارت حاصل کرلی۔ جب ایک پریس کے مالک نے آپ کی خطاطی اور نقاشی کی مہارت کو دیکھا تو اپنے ادارہ میں معقول تنخواہ پر کام کرنے کی دعوت دی۔ آپ نے قبول کرلیااور بہترین طریقہ سے مشغول ہوگئے۔

جب مولانا نبی بخش کی عمر18 سال کی ہوئی تو آپ کی بہن نے آپ کی شادی کا اہتمام شروع کردیا، مولانا نبی بخش اپنی خود نوشت سوانح حیات میں تحریر فرماتے ہیں کہ اتفاقاً میں اپنے دوستوں کے ساتھ مغل مسجد گیا تو وہاں مولانا علی بخش نے ضرورت تعلیم کے موضوع پر تقریرفرمائی جس میں انہوں نے کہا : "اے انسان تجھے صرف دنیا میں تحصیل علم کا موقع ہے اگر دنیا سے جاہل اٹھ گیا تو ابد تک علم حاصل کرنے کی مہلت نہ ملے گی" مجھ پر اس جملہ کا بہت اثر ہوا اور میں سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ اس دنیا کے بعد علم حاصل کرنے کا موقع نہیں ملے گا، اگر ابھی میری موت واقع ہوجاتی ہے تو ہمیشہ کے لئے جاہل ہی رہ جاؤں گا۔ لہذا مجھےقرآن مجید کو پڑھنا اور سمجھنا ہوگا۔ قرآن سے پہلے مجھے عربی زبان اور اس کے قوانین کوبھی سمجھنا ہوگا۔ آپ نے تحصیل علم کے لئے عراق کے شہر نجف اور ہندوستان کے شہر لاہور اور لکھنؤ کا انتخاب کیا اور اس میں بھی ایک شہر کے انتخاب میں استخارہ کرایا تو لاہور شہر کا استخارہ بہترآیا۔

مولانا نبی بخش نے اس بڑے مقصد کی غرض سے ممبئی سے کراچی اور وہاں سے لاہور کا سفر کیا اور مدرسہ رحیمیہ میں داخلہ لے لیا۔مدرسہ کے طلاب اور اساتذہ کو آپ کے خطاطی ونقاشی جیسے ہنر کا علم ہوا تو آپ کی بہت عزت افزائی کی۔

جب آپ میں عربی سمجھنے اور ترجمہ کرنے کی صلاحیت پیدا ہوگئی تو اورینٹل کالج میں بھی تحصیل علم کی غرض سے جانا شروع کیا اور امتیازی نمبروں کے ساتھ مولوی، مولوی عالم، مولوی فاضل اور منشی فاضل کی اسناد حاصل کیں۔

آپ قرآن مجید سمجھنے کی طرف متوجہ ہوئے تو عاجزی کا احساس ہوا۔آپ نے علامہ شیخ عبدالعلی ہروی کی خدمت میں ایک مدت تک پٹیالہ، لاہور اور لدھیانہ میں رہ کر کما حقہ کسب فیض کیا اور موصوف علامہ کے رنگ میں رنگ گئے۔حیرت انگیز مطالعہ، حافظہ اور ذہانت کے ساتھ علم دوستی میں کوئی آپ کا ثانی نہ تھا۔

مولانا نبی بخش نے وہاں سے سے فراغت کے بعد مشہد مقدس کا رخ کیا اور وہاں کرمانی عالم دین کی عالمہ، فاضلہ، عابدہ، اور زاہدہ بیٹی سے عقد کیا اور تمام عمر تصنیف و تالیف میں بسر کردی، آپ نے فضائل اہلبیت ؑ میں فارسی اور عربی کے طویل قصیدے بھی لکھے۔

آپ نے بے شمار مقالات اور کتابیں تصنیف کیں۔ کتابوں میں: التوحید والتجرید، نبوت ، امامت، شناخت واقعی انسان و جہان از دیدگاه قرآن و مذہب حق،المعرفتہ بالروحانیّہ و النّورانیّہ، جنات الخلود، بشاراۃ المصطفى من صحائف الانبیاء، المعراج،مہدی شیعہ ، القسطاسُ المستقیم اور دُرّ النّظیم وغیرہ کے اسماء سر فہرست ہیں۔

مولانا نبی بخش مختلف علوم میں مہارت کے ساتھ ساتھ متعدد زبانوں پر بھی تسلط رکھتے تھے جن میں: انگریزی، عربی، فارسی، ہندی اور عبرانی زبان سرفہرست ہے۔

آخرکار یہ علم و عمل کا آفتاب 72 سال کی عمر میں مشہد مقدس ایران میں اپنے مالک حقیقی سے جا ملا اور چاہنے والوں کے مجمع میں حسینیہ کرمانیان مشہد میں سپرد خاک کردیا گیا۔

ماخوذ از : نجوم الہدایہ، تحقیق و تالیف: مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج9، ص 121دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی 2023

ویڈیو دیکھیں:

https://youtu.be/ju0XRymqZdA?si=llLPlc4q0h

UNbljF

تبصرہ ارسال

You are replying to: .