۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
ڈھائی سو سالہ انسان

حوزہ/ آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای کی کتاب ”ڈھائی سو سالہ انسان“ کی تیسری جلد، سید کوثر عباس موسوی کی کوششوں سے اردو ترجمہ کے ساتھ چھپ کر منظر عام پر آ گئی ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای کی کتاب ”ڈھائی سو سالہ انسان“ کی تیسری جلد، سید کوثر عباس موسوی کی کوششوں سے اردو ترجمہ کے ساتھ چھپ کر منظر عام پر آ گئی ہے۔

کتاب کا تعارف:

تالیف و تصنیف: آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای مدظلہ العالی

مترجم: سید کوثر عباس موسوی

ناشر: العرفان پبلیکیشنز کراچی پاکستان

کتاب ”ڈھائی سو سالہ انسان“ تیسری جلد کا تعارف (تاریخ امامت کے چار ادوار)

رہبر انقلابِ اسلامی کی شہرہ آفاق کتاب ”ڈھائی سو سالہ انسان“ کے بارے میں سب کا یہ تصور ہے کہ یہ صرف ایک جلد پر مشتمل کتاب ہے، جبکہ یہ کتاب تین جلدوں پر مشتمل ہے۔

1.جلد اول: نوجوانوں اور جوانوں کے لیے۔

2.جلد دوم: عام افراد کے لئے۔

3.جلد سوم :اہل علم، محققین اور اسکالرز کے لیے۔

اس کتاب کی دوسری جلد کئی بار چھپ چکی ہے۔ زیر نظر تیسری جلد کا اردو ترجمہ بھی حال ہی میں مکمل ہو کر منظر عام پر آچکا ہے۔

تفصیلات کے مطابق، ڈھائی سو سالہ انسان کی جلد سوم اردو ترجمہ کے ساتھ چھپ کر منظر عام پر آ گئی ہے۔

مترجم سید کوثر عباس نے دوسری جلد کے ترجمہ کے بعد تقریباً چار سال کی مدت میں انتھک کوشش سے جلد سوم کا ترجمہ مکمل کیا ہے۔

دوسری جلد میں ہر معصوم کی زندگی اور سیرت کو عمومی انداز میں بیان کیاگیا ہے۔لیکن تیسری جلد میں انتہائی گہرائی کے ساتھ تجزیہ وتحلیل کیاگیا ہے جو کہ محققین اور اہل علم کے لیے سودمند ہے۔

کتاب ”ڈھائی سو سالہ انسان“ تیسری جلد کا تعارف (تاریخ امامت کے چار ادوار)

یہ کتاب ایک مقدمہ اور چار ابواب پر مشتمل ہے:

مقدمہ میں رہبر انقلاب نے غدیر رسالت کا تسلسل، رسالت کی میراث، امامت کا فلسفہ، آئمہ کی صحیح معرفت، جہاد وجدوجہد کے تصور اور امامت کے چار ادوار کی تقسیم بندی پر گفتگو کی ہے۔

اس کے بعد آئمہ کی زندگی کو چار ادوار اور ابواب میں تقسیم کیا ہے۔

1.تاریخ امامت کا پہلا دور: خاموشی اور تعاون

2.دوسرا دور: مظلومیت کے ساتھ اقتدار

3۔تیسرا دور: قلیل المدتی تعمیری کوشش

4.چوتھا دور:طویل المدتی تعمیری کوشش۔

آئمہ علیہم کے کردار اور جدوجہد کو حالات کے تناظر میں زمانے کے تقاضوں سے آہنگ اور بہترین حکمت عملی قرار دیا ہے، جس اصل مقصد اسلام کاتحفظ اور اسلامی معاشرہ میں اسلامی اقدار کو بچانا تھا۔

جلد دوم کے بعد یہ تیسری جلد آئمہ معصومین کی سیرت و زندگی کو مزید گہرائی کے ساتھ سمجھنے میں مفید ثابت ہوگی۔ سیرت ائمہ کو ایک ہی انسان کے مختلف حالات میں ایک ہی مقصد کے لیے گوناگوں حکمت عملی ہمارے معاشرے کے دینی وسیاسی شخصیات کے لیے بہترین راہنما ہے۔کہ وہ اپنے بنیادی نظریات و مقاصد پر کاربند رہتے ہوئے کس طرح لچکدار اور مناسب اسلوب عمل اختیار کریں۔

اس سے فکر وعمل میں موجود تضاد کاحل بھی ممکن ہوگا۔کہ بعض افراد نظریہ اور مقاصد کی جانب توجہ دیتے ہیں۔مگر اسلوب عمل کونظر انداز کرتے ہیں۔جبکہ بعض تحریکیں وشخصیات کی نظر صرف طریقہ کار پر ہوتی ہے اور لیکن اصل روح ومقصد کو بھول جاتے ہیں۔

مذکورہ دونوں قسم کے افراد کے لیے اس کتاب میں ایسے نکات موجود ہے کہ نظریہ اور اسلوب عمل دونوں ضروری ہے۔

ساتھ ہمارے معاشرے میں آئمہ معصومین کے حوالے سے یہ غلط ہے کہ ائمہ معصومین کا دنیاوی امور اور سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔رہبر انقلاب نے واضح انداز میں ائمہ کی زندگی کے سیاسی پہلو کو بیان کیا ہے۔کہ ائمہ کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد الٰہی ودینی سیاست کا احیاء تھا۔جو کہ مکتب اہل بیت میں مغفول واقع ہوا ہے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .