حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں حالیہ دہشت گردی کے واقعات اور مذہبی انتہا پسندی کی نئی لہر نے تکفیری گروہوں اور ان کے سرکردہ رہنماؤں کے حوالے سے سنجیدہ بحث کو دوبارہ زندہ کر دیا ہے۔
تجزیاتی حلقوں کے مطابق، یہ سوال اہم ہے کہ ایسے عناصر، جن کے بیانیے نے ماضی میں فرقہ وارانہ کشیدگی، شیعہ شہریوں کی ٹارگٹ کلنگ اور سماجی عدم استحکام کو ہوا دی، آج بھی ریاستی سطح پر عملی نگرانی سے کیوں محفوظ دکھائی دیتے ہیں۔
سپاہِ صحابہ اور اورنگزیب فاروقی: شدت پسندانہ خطابات، مگر ریاستی اداروں کی خاموشی
سیاسی، سماجی اور ماہرین کا کہنا ہے کہ سپاہِ صحابہ پاکستان سے وابستہ متعدد خطیب مسلسل ایسے خطابات کرتے رہے ہیں جو معاشرے میں شدت پسندی کو تقویت دیتے ہیں۔ ان کے اجتماعات میں تکفیری لفاظی، نفرت انگیز مذہبی تقسیم اور ایسے خیالات کی بازگشت سنائی دیتی رہی ہے جنہوں نے ملک میں فرقہ وارانہ تشدد کی کئی دہائیوں پر گہرا اثر ڈالا۔
ماہرین نے اس امر پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ شدت پسندی کے خلاف بڑے آپریشنز اور حکومتی دعوؤں کے باوجود ایسے خطیب کبھی واضح اور دو ٹوک انداز میں انتہا پسندی اور قتل و غارت کے نظریات سے لاتعلقی کا اعلان کرتے دکھائی نہیں دیے۔
شیعہ شہریوں کے خلاف امتیازی رویوں پر سوال
ذرائع ابلاغ اور تجزیہ کاروں کے مطابق، پاکستان میں شیعہ برادری کو کئی برسوں سے ٹارگٹ کلنگ، تعصب اور نفرت انگیز تقاریر کا سامنا رہا ہے۔ متعدد خاندانوں نے اپنے عزیزوں کو فرقہ وارانہ تشدد کی نذر ہوتے دیکھا، مگر ان واقعات کے پس پردہ گروہوں کے خلاف مؤثر اور فیصلہ کن کارروائی اکثر غیر واضح رہی۔
ریاستی مصلحت یا عدم دلچسپی؟
تجزیہ کاروں کے مطابق، “کوئی بھی گروہ جو تکفیری سوچ یا نفرت پر مبنی مذہبی تقسیم کو فروغ دے، اسے محض ’سیاسی اختلاف‘ کے نام پر نظرانداز کرنا قومی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ ہے۔” ماہرین اسے ریاستی سطح پر ایک تشویشناک مصلحت پسندی قرار دیتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ ایسے عناصر کے معاملے میں اب مزید نرم رویہ برداشت نہیں کیا جا سکتا۔
تحقیقات کی ضرورت: نظریاتی قربت ایک بڑا خطرہ
ماہرین کا کہنا ہے کہ براہِ راست دہشت گردی میں شمولیت کے ثبوت ہوں یا نہ ہوں، تکفیری سوچ اور فرقہ وارانہ بیانیے سے نظریاتی قربت خود ایک خطرناک بنیاد ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان مؤقف کے مطابق، تمام ایسے گروہوں اور شخصیات کی جامع نگرانی، دستاویزی جانچ اور کھلے عام نفرت انگیزی پر کارروائی بنیادی قومی ضرورت ہے۔
پاکستانی عوام کا سوال: آخر کب تک؟
ملک کے شہری حلقے، شیعہ برادری اور انسانی حقوق کی تنظیمیں ایک ہی سوال اٹھا رہی ہیں: “کب تک ایسے تکفیری گروہوں کو تقویت دینے والی خاموشی برداشت کی جائے گی؟ کب تک نفرت انگیز بیانیہ پھیلانے والوں کو نظر انداز کیا جاتا رہے گا؟” ملک پاکستان میں بڑھتی ہوئی فرقہ وارانہ بے چینی کے پیش نظر، مبصرین کے مطابق، یہ سوال اب صرف سیاسی نہیں بلکہ علاقائی امن، انسانی جانوں کے تحفظ اور اقلیتوں کے بنیادی حقوق کا مسئلہ بن چکا ہے۔









آپ کا تبصرہ