۲۱ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲ ذیقعدهٔ ۱۴۴۵ | May 10, 2024
شیخ الاسلام ڈاکٹرمحمد طاہرالقادری

حوزه/شیخ الاسلام ڈاکٹرمحمد طاہرالقادری نے علماء کے ساتھ علمی نشست’’بدلتے احوال و واقعات کے تناظر میں شرعی احکام میں تبدیلی اور رعایت‘‘سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسلام کی بنیادی تعلیمات ملت واحدہ کی تشکیل سے متعلق ہیں۔ فرقہ واریت اتحاد و یکجہتی کی سب سے بڑی دشمن ہے، فقہی اختلاف رائے کو کفر والحاد سے جوڑنا جہالت ہے.

حوزه نیوز ایجنسی کی رپورٹ‌ کے مطابق شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے علماء کے ساتھ علمی نشست’’بدلتے احوال و واقعات کے تناظر میں شرعی احکام میں تبدیلی اور رعایت‘‘سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسلام کی بنیادی تعلیمات ملت واحدہ کی تشکیل سے متعلق ہیں۔فرقہ واریت اتحاد و یکجہتی کی سب سے بڑی دشمن ہے،فقہی اختلاف رائے کو کفر والحاد سے جوڑنا جہالت ہے.

انهوں نے کہا کہ زندگی جمود اور تعطل نہیں بلکہ تحرّک اور تغیّر و تبدّل کا نام ہے۔ تغیراتِ زمانہ اور اِنقلاباتِ اَحوال زندہ اور بیدار قوموں کے لیے مہمیز کا کام کرتے ہیں۔ اسلامی قوانین ہر زمانے کے بدلتے ہوئے حالات و عادات اور اَحوال و ظروف کے مطابق اِنسانوں کی رہنمائی کرتے ہیں۔ ان قوانین میں اﷲ تعالیٰ نے اتنی خوش گوار لچک رکھی ہے کہ ان میں ہر دور کے تقاضوں کو پورا کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ اسلامی قوانین کی بنیاد حکمت و مصالح، بندوں کی دنیاوی بہتری اور اُخروی فلاح پر ہے۔ وہ اَحکام جو معاملات سے تعلق رکھتے ہیں ان میں بالخصوص مصلحتِ عامہ کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ مصلحت اور عِلّت زمانہ اور حالات کے بدل جانے سے تبدیل ہو جاتی ہے۔ لہٰذا جب بنیاد بدل جائے تو اَحکام کا بدلنا بھی ناگزیر ہو جاتا ہے۔ اس لیے احکام المعاملات کو زمانے کی بدلتی ہوئی حکمتوں اور علتوں پر پرکھا جائے گا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہر وہ قانون جو فرد یا افرادِ معاشرہ کو ظلم و جور سے محفوظ رکھنے کے لیے بنا ہے، اس میں فیصلے کے وقت معاشرے کی موجودہ صورتِ حال اور بدلتے حالات کو مدِ نظر رکھا جاتا ہے۔ جس جس انداز میں فرد اور معاشرے کے حالات و واقعات میں تبدیلی واقع ہوتی ہے، اِسی انداز اور تناسب سے ان قوانین میں بھی تبدیلی کی گنجائش موجود ہوتی ہے۔ بالفاظِ دیگر بدلتے ہوئے حالات کے مطابق تبدیلی ہی ان قوانین کو بقاء و دوام، عوامی اِفادیت اور بین الاقوامی مقبولیت کا حامل بناتی ہے ورنہ جمود، اسلامی قوانین کو متحرک انسانی زندگی سے کاٹ کر لا تعلق کر دے گا۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ اب قانون وضع کرنے یا نافذ کرنے میں بات صرف حاجت و ضرورت کی نہیں رہی بلکہ جلبِ منفعت اور دفعِ مضرت کا سوال ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو ایسے بے لچک قوانین ایک مخصوص زمانے، علاقے اور طبقے تک ہی محدود ہو کر رہ جاتے ہیں۔

شیخ الاسلام نے مختلف آیاتِ قرآنی سے استدلال کرتے ہوئے کہا کہ دینِ اسلام نعمت اور آسانی تبھی بنے گا جب تغیرِ زمانہ اور تغیرِ حالات کے ساتھ انسانی معاشرے کے لیے آسانی پیدا کرے گا۔ گویا دینِ اسلام ہر زمانے میں انسان کے لیے نعمت اور آسانی ہے۔ ہر زمانے کے لوگ اس دین سے یکساں فیض یاب ہو رہے ہیں۔ دین ہر دور کے لوگوں کے لیے نظامِ زندگی کے طور پر برقرار ہے۔ جو انسانی زندگی کی بدلتی ہوئی ضروریات کی کفالت نہ کر سکے وہ وہ دین، دین نہیں۔

شیخ الاسلام نے کہا کہ وقت، حالات و واقعات اور معاشرے کی ضروریات کے بدلنے سے حکمِ شرعی میں بھی تبدیلی کی اجازت ہوتی ہے۔اسلامی قوانین ہر زمانے میں بدلتے ہوئے حالات و عادات اور احوال و ظروف کے مطابق انسانوں کی رہنمائی کرتے ہیں۔ اگراسلامی قوانین میں لچک کے پہلو کو نظر انداز کر دیا جائے، تو احکامات مخصوص زمانے اور طبقے تک محدود ہو کر رہ جائیں گے۔ حالات کے مطابق تبدیلی ہی اسلامی قوانین کو بقاء و دوام بخشتی ہے۔

تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی کو مفتی، جج یا سپہ سالار بنا کر بھیجتے تو فرماتے: لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنا ،پریشانیاں پیدا نہ کرنا، کشادگی پیدا کرنا اور تنگ نظری نہ رکھنا۔ لوگوں کو دین اس طرح دو کہ انہیں خوشخبری لگے، اس طرح پیش نہ کرو کہ وہ باغی ہوجائیں۔ ان کو متنفر کرنے کے بجائے دین کی آسانی کے پہلو کے ذریعے ان کو دین کی طرف راغب کرو۔

ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ آج ہم اتنے تنگ نظر ہو گئے ہیں کہ دین نے معاملات میں جو وسعت رکھی وہ ہماری تنگ نظری کی بھینٹ چڑھ گئی ہے اور نوجوان نسل دین سے دور ہو رہی ہے۔ زمانے کے بدلنے سے احکام کے بدلنے کو کھبی روکا نہیں جا سکتا بلکہ یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے ۔ علماء کرام بدلتے حالات کے تناظر میں شرعی احکامات کے متعلق امت کی رہنمائی کریں۔انہوں نے کہا کہ علماء کرام کی یہ ذمہ داری ہے کہ پہلے زمانے کے تقاضوں اور احوال کے مطابق لکھے گئے فتووں سے باہر نکل کر ، موجودہ حالات کے تقاضوں کے مطابق مسائل کا حل تلاش کریں۔ نوجوانوں کو دین کی رہنمائی مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے اخلاق و کردار سازی پر بھی خصوصی توجہ مرکوز کر کے قومی، ملی اور اسلامی ذمہ داری ادا کریں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .