۳۰ فروردین ۱۴۰۳ |۹ شوال ۱۴۴۵ | Apr 18, 2024
آیت الله العظمیٰ حافظ بشیرحسین نجفی

حوزه/ آیت اللہ بشیر نجفی نے کہا کہ آپسی مصالحت کو تمام آسمانی ادیان فروغ دیتے ہیں اور ان ادیان کےسربراہوں نے خون خرابے کےبدلے آپسی تفاہم کا پرچم بلند کئےرکھا اور یہی اسلام کا اساسی اور بنیادی اصول ہے لیکن کچھ ایسے لوگ اسلام میں داخل ہوئے کہ جنہوں نے اسلام کو صحیح طریقے سے نہیں سمجھا اسی کے نتیجے میں فرقوں اور دہشت گردانہ تنظیموں کا وجود عمل میں آیا جس سے اسلام مکمل طورپر بَری ہے اور اسلام کا ان سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق حضرت آیة الله العظمیٰ حافظ بشیرحسین نجفی نے مرکزی دفتر نجف اشرف میں ملاقات کو آئے جینیوا سے انسانی امور کی تنظیم کے وفد سے اپنے خطاب میں طرفین میں آپسی مصالحت کی اہمیت پر گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ  آپسی مصالحت کو تمام آسمانی ادیان فروغ دیتے ہیں اور ان ادیان کےسربراہوں نے خون خرابے کےبدلے آپسی تفاہم کا پرچم بلند کئےرکھا اور یہی اسلام کا اساسی اور بنیادی اصول ہے لیکن کچھ ایسے لوگ اسلام میں داخل ہوئے کہ جنہوں نے اسلام کو صحیح طریقے سے نہیں سمجھا اسی کے نتیجے میں فرقوں اور دہشت گردانہ تنظیموں کا وجود عمل میں آیا جس سے اسلام مکمل طورپر بَری ہے اور اسلام کا ان سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

انھوں نے کہا کہ اسلام امن وسلامتی،محبت اورمشترکہ پُر امن زندگی کا مکمل نظام ہےاوراس پر بہترین دلیل حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی جانب سے مصرمیں اپنی جانب سے مقررکئے گئے گورنرحضرت مالک اشتر ره  کو نصیحت  ہے جس میں ارشاد فرمایا کہ’’ لوگ دو طرح کے ہیں ایک تو تمہارا دینی و مذہبی بھائی ہے اور دوسرا تمہاری طرح انسان ہے ‘‘ حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام  کے اس اصلاحی منصوبے کے مقابل دنیا میں کوئی اور اصلاحی منصوبہ اس حیثیت کا مالک نہیں ہے۔

آیت الله العظمیٰ حافظ بشیرحسین نجفی نے مزید کہا کہ  سامرہ میں حرم حضرت امام عسکریین علیہما السلام پر دہشت گردانہ حملےاور اس حملے کے نتیجے میں گنبدِ مبارک کے انہدام کے بعد نجف اشرف میں موجود مرجعیت نےعراق کو خانہ جنگی سے محفوظ کیا اور واضح رہے کہ اگر مرجعیت نے اپنا موقف اختیار نہ کیا ہوتا تو نہ جانے کتنےعراقیوں کا خون بہا ہوتا اسلئے  کہ شیعہ عراق میں تقریبا ۷۵ فیصد ہیں اور حرم مبارک پر دہشت گردانہ حملہ شیعوں کے عقیدے پرحملہ تھا  انہوں نے فرمایا کہ میں ان ایام میں ماحول استوار رہیں اسلئے خود سامرہ  زیارت  کے لئے گیا تھا۔

انکا کہنا تها کہ عدالت، مظلوموں کو انصاف کی فراہمی اور ظالموں کو انکے کیفر کردارتک پہنچانے کو یقینی بنایا جائےاسلئے کہ یہ وہ حق ہے کہ جسکی ضمانت آسمانی ادیان اور ہمدرد دنیاوی قوانین نے بھی لی ہے اور اسی کے ذریعہ معاشرے کی حفاظت اورظالموں کو معاشرے میں فتنہ و فساد ظلم و دہشت گردی سے روکا جا سکتا ہے۔

 

تبصرہ ارسال

You are replying to: .