حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق دہلی واقع دوارکا سیکٹر 11 کی مسجد پر گزشتہ دنوں ہوئے حملے کے بعد ہندوؤں کا ایک طبقہ خود کو شرمندہ محسوس کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب انھوں نے مسلمانوں سے معافی مانگنا بھی شروع کر دیا ہے۔ 13 مارچ کو دوارکا سیکٹر 11 میں کچھ مقامات پر ایسے پوسٹر لگے ہوئے نظر آئے جس میں انگریزی زبان میں 'ہم معافی چاہتے ہیں'، 'ہم مسلمانوں سے محبت کرتے ہیں' اور 'تم ہم میں سے ہو' جیسے جملے لکھے ہوئے تھے۔ اس طرح کے پوسٹر کے ذریعہ وہ ایک بار پھر ہندو-مسلم یکجہتی، آپسی بھائی چارے اور خیر سگالی کے ماحول کو قائم کرنا چاہتے ہیں۔ ایک پوسٹر پر ہندی زبان میں لکھا ہے۔ ''ہم شرمندہ ہیں، آپ ہمارے ہیں، ہندو-مسلمان ایک ہیں، مندر-مسجد ایک ہے، دوارکا کے ہندو-مسلم ایک ہیں۔''
Two weeks after Dwarka Mosque, New Delhi was pelted stones at, Locals put up posters of Love and Harmony❤ pic.twitter.com/0Xvi4j1efl
— Swati Khanna (@mynameswatik) March 13, 2020
دراصل گزشتہ 28 فروری (جمعہ) کی علی الصبح دوارکا سیکٹر میں شاہجہان آباد اپارٹمنٹ کے قریب موجود مسجد میں کچھ شرپسندوں نے پتھر بازی کی تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ پتھر بازی صبح 2.30 بجے ہوئی تھی اور اس وقت مسجد میں صرف دو لوگ موجود تھے... امام راشد اور امام عبدالمنان۔ ان دونوں نے بتایا تھا کہ حملہ آور افراد پتھراؤ کے ساتھ ساتھ'جے شری رام' کا نعرہ لگا رہے تھے۔ اس واقعہ کے بعد علاقے میں حالات انتہائی کشیدہ ہو گئے تھے اور ہندو-مسلم یکجہتی میں پھوٹ پڑتی ہوئی نظر آ رہی تھی۔ لیکن اب علاقے کے ہندوؤں نے آپسی بھائی چارہ کو بڑھانے کے لیے مسلمانوں سے اس بات کے لیے معافی مانگی ہے کہ فرقہ وارانہ فساد جیسے ماحول بنے۔
قابل ذکر ہے کہ مسجد پر حملہ کے بعد اقلیتی طبقہ سے تعلق رکھنے والے کچھ مقامی لوگوں نے میڈیا کو بتایا تھا کہ مبینہ ہندو شدت پسندوں نے مسجد پر کئی پتھر پھینکے تھے جس کی وجہ سے مسجد کی کھڑکیوں کو نقصان پہنچا تھا۔ انگریزی نیوز پورٹل 'دی کوئنٹ' نے مسجد پر پتھراؤ کے بعد قریب ہی واقع اپارٹمنٹ کے سیکورٹی سے جب واقعہ کے بارے میں پوچھا تو اس نے جو کچھ بتایا وہ مقامی مسلمانوں اور دونوں امام کی بات کی تصدیق کر رہا تھا۔ اس پورے معاملے میں دہلی پولس بھی کٹہرے میں نظر آئی کیونکہ ایک طرف تو دوارکا اے سی پی راجندر سنگھ نے واقعہ کے تعلق سے کہا کہ ''یہ شرارتی عمل تھا''، اور پھر کچھ ہی دیر بعد دوارکا ڈی سی پی نے ٹوئٹ کر کے یہ کہا کہ ''ایسا کوئی واقعہ ہوا ہی نہیں۔''