حوزہ نیوز ایجنسیl
دسویں پارے کا مختصر جائزه:
دسویں پارے کےچیدہ نکات
وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّـهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ إِن كُنتُمْ آمَنتُم بِاللَّـهِ وَمَا أَنزَلْنَا عَلَىٰ عَبْدِنَا يَوْمَ الْفُرْقَانِ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ ۗ وَاللَّـهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ﴿٤١﴾ سورة الأنفال
رب العالمین نے خمس کے وجوب کے سلسلہ میں جنگ بدر کی نصرت کا حوالہ دیا ہے تاکہ مسلمان مال کی کمی سے اسی طرح نہ گھبرائے جس طرح اصحاب بدر افراد کی کمی سے پریشان نہ تھے اور قدرت نے ان کی کمی کو پورا کردیا تھاخمس صاحب ایمان کا کام ہے اور جس کا نصرت الہی پر ایمان نہیں ہے وہ خمس ادا نہیں کر سکتا ہےخمس کا تعلق صرف اصطلاحی غنیمت سے نہیں ہے بلکہ ہرفائدہ میں خمس واجب ہے جس کی تفصیل روایاتِ اہل بیت میں موجود ہیں جو وارث قرآن بھی ہیں اورشریک قرآن بھی واضح رہے کہ خمس کا حقِ سادات ہوناکسی نسلی امتیاز کی بنا پر نہیں ہے بلکہ یہ صرف اس لئے ہے کہ انھیںزکوٰۃ سے الگ رکھا گیا ہے اور اسي کا راز بھی یہ ہے کہ زکوٰۃ عوامی فائدےکے لئے تھی تو رسول اکرم1نے اپنے خاندان کو اس سے الگ رکھنا چاہا تاکہ کسی قسم کی بدنامی کا امکان نہ پیدا ہوسکے۔
وَإِذْ زَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ وَقَالَ لَا غَالِبَ لَكُمُ الْيَوْمَ مِنَ النَّاسِ وَإِنِّي جَارٌ لَّكُمْ فَلَمَّا تَرَاءَتِ الْفِئَتَانِ نَكَصَ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ وَقَالَ إِنِّي بَرِيءٌ مِّنكُمْ إِنِّي أَرَىٰ مَا لَا تَرَوْنَ إِنِّي أَخَافُ اللَّـهَ ۚ وَاللَّـهُ شَدِيدُ الْعِقَابِ ﴿٤٨﴾ سورة الأنفال
شیطان ہر دور میں یہی کام انجام دیتارہتا ہے اور اپنے ساتھیوں کو ورغلا کر میدان تک لے آتا ہے اور پھر ساتھ چھوڑ دیتاہے......... شیطان کی حقیقت کیا ہے اور وہ کسی طرح یہ کام انجام دیتا ہے یہ ایک راز ہے لیکن یہ مسلم ہے کہ اگركل بدر میں سراقہ بن حارث کی شکل میں آیا تھا تو آج سارے عالم اسلام میں امریکہ اور روس کی شکل میں یہی کام انجام دے رہا ہے جس کا تجر بہ برسوں سے ہو رہا ہے لیکن اس کے باوجود نا دان مسلمان حکام اسکے وعدوں پر اعتبار کرکے اپنے کو مصائب میں مبتلا کرتے جارہے ہیں اور باہمی اختلافات کے نتائج کی طرف متوجہ نہیں ہوتے ہیں۔
وَأَعِدُّوا لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ وَمِن رِّبَاطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّـهِ وَعَدُوَّكُمْ وَآخَرِينَ مِن دُونِهِمْ لَا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّـهُ يَعْلَمُهُمْ ۚ وَمَا تُنفِقُوا مِن شَيْءٍ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنتُمْ لَا تُظْلَمُونَ ﴿٦٠﴾ سورة الأنفال
یہ ایک اہم اسلامی فریضہ ہے کہ مسلمانوں کو ہر دور میں کفار کے مقابلہ کے لئے طاقت کا انتظام رکھنا چاہئے کہ یہ دنیا ہمیشہ اہل قوت کے ہاتھ میں رہتی ہے اور وہی اس کے سیاه و سفید کے مالک ہوتے ہیں آج امریکہ اور روس کے بلاک کی بنیاد بھی ان کی مادی قوت ہی ہے تو اگر مسلمان مقابلہ کی قوت پیدا کر لیں تو یہ سارا طلسم ٹوٹ جائے گا اور دنیا اسلام کے زیر نگیںں آ جائے گی گھوڑوں کا ذکر بطور مثال کیا گیا ہے کہ اس کی صف بندی سے ہیبت پیدا ہوتی ہے ورنہ ہرطرح کے سامان حرب کا فراہم کرنا مسلمانوں کا فرض ہے جیسا کہ خود سرکار دو عالم(ص) نے تیراندازی کی تاکید کی تھی اور پھر راہ خدا میں خرچ کا مطالبہ کیا ہے کہ قوت کی فراہمی سرمآیت کے بغیر ممکن نہیں ہے مسلمانوں کا فرض ہے کہ مال بھی خرچ کریں اور طاقت بھی فراہم کریں تا کہ کفر کا جادو ختم ہو جائے۔
وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ وَالَّذِينَ آوَوا وَّنَصَرُوا أُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا ۚ لَّهُم مَّغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ ﴿٧٤﴾ سورة الأنفال
صحیفۂ سجادیہ جو کہ مذہب شیعہ کی معتبر ترین کتاب ہےاس میں امام زین العابدینؑ نے ان اصحاب کی بے پناہ تعریف کی ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ مذہب اہل بیتؑ میں صحابۂ کرام کے اخلاص کی بہترین قدر دانی کی جاتی ہے البتہ منافقین کی کسی فرقہ میں کوئی قیمت نہیں ہے۔
إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللَّـهِ مَنْ آمَنَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَلَمْ يَخْشَ إِلَّا اللَّـهَ ۖ فَعَسَىٰ أُولَـٰئِكَ أَن يَكُونُوا مِنَ الْمُهْتَدِينَ ﴿١٨﴾ سورة التوبة
صاحبان ایمان کو غیرت دلا ئی گئی ہے کہ مساجد اللہ کے گھر ہیں اور بندگان خدا کا فرض ہے کہ اپنے گھروں سے زیادہ اللہ کے گھر کی آبادی کی فکر کریں، یہ کام مشرکین کا نہیں ہے بلکہ یہ کام صاحبان ایمان کا ہے۔
مساجد کو آباد کرنے کے لئے پانچ شرائط ضروری ہیں۔ا خدا پر ایمان ہوتا کہ خانۂ خدا سے دلچسپی پیدا ہو ۲ آخرت پر ایمان ہوتا کہ دنیا کا فائدہ نہ تلاش کریں۳ نماز قائم کرے تا کہ آبادی کی فکر رکھے ۴ زکوٰة ادا کرے تا کہ آبادی کی راہ میں خرچ کر سکے ۵ خدا کے علاوہ کسی کا خوف نہ رکھتا ہوتا کہ صرف چند افراد کے طعن و طنز کرنے سے مسجد چھوڑ نہ دے مسجد کی تولیت اور اس کے انتظام کی ذمہ داری اس سے زیادہ شرائط کی متقاضی ہے
أَجَعَلْتُمْ سِقَايَةَ الْحَاجِّ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ كَمَنْ آمَنَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَجَاهَدَ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ ۚ لَا يَسْتَوُونَ عِندَ اللَّـهِ ۗ وَاللَّـهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ ﴿١٩﴾ سورة التوبة
عباس بن عبد المطلب کو حاجیوں کی سقایت پر ناز تھا طلحہ بن شیبہ کلید برداری پر ناز کر رہے تھے کہ حضرت علیBنے فرمایا کہ میں نے تم سب سے پہلے نماز ادا کی ہے اور ایمان کا اعلان کیا ہے تو یہ آیت کریمہ نازل ہوئی اور حضرت علیؑ کی افضلیت کا اعلان ہو گیا۔
لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللَّـهُ فِي مَوَاطِنَ كَثِيرَةٍ ۙ وَيَوْمَ حُنَيْنٍ ۙ إِذْ أَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنكُمْ شَيْئًا وَضَاقَتْ عَلَيْكُمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّيْتُم مُّدْبِرِينَ ﴿٢٥﴾ سورة التوبة
فتح مکہ کے بعد بنی ہوازن وثقيف نے مسلمانوں سے لڑنے کے لئے ایک عظیم لشکر تیار کیا رسول اکرم1 کو اطلاع دی گئی تو آپ بھی دس ہزار انصار و مہاجرین اور دو ہزار نو مسلم ابوسفیان اور معاد یہ جیسے افراد کو لے کر روانہ ہو گئے کفار نے درّہ پر قبضہ کر لیا اور مسلمانوں کے پہنچتے ہی تیروں کا مینہ برسانا شروع کر دیا مسلمان بھاگ کھڑے ہوئے صرف دس افراد باقی رہ گئے علیؑ ، عباس، فضل بن عباس ، مغیرہ بن الحارث، زید بن اسامہ، ایمن بن ام ایمن ،عباس وغیرہ نے مسلمانوں کو آ و از دی؛ اے بیعت شجرہ والو! اے سوره بقرہ والو! واپس آ جاؤ مسلمان واپس آ گئے اور گھمسان کا رن پڑا تو کفار مغلوب ہو گئے کفار کا سربراہ ابو جرول تھا حضرت علیؑ نے اسے قتل کر دیا تو کفار کے قدم اکھڑ گئے اور مسلمانوں کو کثیر مال غنیمت ہاتھ آیا چھ ہزار عورتیں اور بچے قیدی بنے ۲۴ ہزار اونٹ ملے اور تقریبا ۴۰ ہزار گائے اور بکریاں ہاتھ آئیں علامه شرقاوی نے کتاب ’’محمد رسول الحریۃ‘‘ میں لکھا ہے کہ ابوسفيان وغیرہ جنگ کے لئے نہیں بلکہ مسلمانوں کو فرار پر آمادہ کرنے کے لئے ساتھ لگ گئے تھے فخرالدین رازی کا بیان ہے کہ کثرت پر ناز ابوبکرکو پیدا ہوا تھا اور انہوں نے کہا تھا کہ اب ہم نہیں ہار سکتے ہیں۔
تدوین:سیدلیاقت علی
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔