۵ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۵ شوال ۱۴۴۵ | Apr 24, 2024
دہلی تشدد

حوزہ/یہ بات عجیب وغریب معلوم ہوتی ہے کہ مسلمانوں نے ایک ایسی سازش رچی جس کا شکار بھی وہ خود ہی ہوئے اور انھوں نے اپنی قتل وغارت گری کے سارے سامان بھی خود ہی مہیا کرکے اپنے مکانوں، دکانوں اور کاروباری اداروں کی اینٹ سے اینٹ بجائی۔

حوزہ نیوز ایجنسی| کیا دہلی فساد کی سازش مسلمانوں نے رچی تھی؟
یہ سوال آپ کو کچھ دیر کے لئے پریشان ضرور کرسکتا ہے، لیکن اگر آپ گزشتہ فروری میں شمال مشرقی دہلی میں ہونے والی قتل وغارت گری کے سلسلے میں داخل کی گئی فردجرم کا مطالعہ کریں تو آپ کو اس کا جواب مل جائے گا۔اس فرد جرم کو دیکھ کر آپ کو اس نتیجے پر پہنچنے میں ذرا بھی دیر نہیں لگے گی کہ اس فساد کی پوری سازش مسلمانوں نے تیار کی تھی اور اس میں وہ تمام لوگ شامل تھے، جنھوں نے دہلی میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاجی دھرنے منظم کئے تھے۔ فساد کی مختلف سنگین وارداتوں کے سلسلے میں اب تک سینکڑوں صفحات کی جو فردجرم دہلی پولیس کی طرف سے داخل کی گئی ہے، اس میں ہرش مندر جیسے انسانی حقوق کے کارکن کو بھی ملزم بنایا گیا ہے۔ غرض یہ کہ وہ تمام لوگ اس فساد میں ماخوذ کرلئے گئے ہیں، جنھوں نے سی اے اے جیسے قطعی ظالمانہ اور صریحاً مسلم مخالف قانون کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی تھی۔حالانکہ یہ بات ہر اعتبار سے ناقابل فہم ہے کہ مسلمان ایک ایسے فساد کی سازش کیوں رچیں گے جس کا سراسر نقصان خود انہی کو اٹھانا پڑا ہو۔ لیکن ہم اس وقت جس نظام  میں سانس لے رہے ہیں، وہاں سب کچھ ممکن ہے، کیونکہ جو اصل مجرم ہیں انھیں حاکمان وقت کا تحفظ حاصل ہے اور جو قطعی بے قصور ہیں انھیں بیڑیاں پہنادی گئی ہیں۔
ہیں سنگ وخشت مقید اور سگ آزاد

یہ بات عجیب وغریب معلوم ہوتی ہے کہ مسلمانوں نے ایک ایسی سازش رچی جس کا شکار بھی وہ خود ہی ہوئے اور انھوں نے اپنی قتل وغارت گری کے سارے سامان بھی خود ہی مہیا کرکے اپنے مکانوں، دکانوں اور کاروباری اداروں کی اینٹ سے اینٹ بجائی۔اس فساد میں جن53لوگوں کی موت ہوئی تھی، ان میں مسلمانوں کی تعداد38بتائی جاتی ہے جو فسادیوں کے ہاتھوں انتہائی بے دردی کے ساتھ قتل ہوئے، لیکن پولیس نے ان میں سے چند ہی لوگوں کے معاملے میں تحقیقات کی ہے اور باقی لوگوں کے قتل کی ذمہ داری نامعلوم فسادیوں کے سر ڈال دی گئی ہے۔ اس کے برعکس آئی بی افسر انکت شرما اور کانسٹبل رتن لال کی موت کے معاملے میں درجنوں مسلمانوں کو ماخوذ کرلیا گیا ہے۔اس فساد کا ماسٹر مائنڈعام آدمی پارٹی کے معزول کونسلر طاہر حسین کو بنایا گیا ہے اور اس کے ساتھ جے این یو طلباء لیڈر عمر خالد اور سرکردہ سماجی کارکن خالد سیفی کو بھی اس فرد جرم میں کلیدی ملزم کے طور پر شامل کیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ اس فساد کی سازش کے تار بستی حضرت نظام الدین میں واقع تبلیغی مرکز سے بھی جوڑے گئے اور ان کمسن مسلم بچوں پر بھی شکوک شبہات ظاہر کئے گئے ہیں جو فساد سے قبل جلدی چھٹی لے کر اسکولوں سے گھر چلے جاتے تھے۔ غرض یہ ایک ایسی فرد جرم ہے جس پر آپ ایک بار نہیں بار بار اپنا سر پیٹ سکتے ہیں۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ گجرات فساد کی طرز پر بی جے پی سرکار نے ملزمان کو سخت سزائیں دلانے کے لئے تشار مہتا اور امن لیکھی جیسے بی جے پی کارکنوں کو سرکاری وکیل کے طور پر میدان میں اتا را ہے تاکہ کوئی ملزم بچنے نہ پائے۔لیکن سب سے زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس فردجرم میں پولیس نے یہ بتانے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ اس نے تین دنوں تک جاری رہنے والے ان فسادات کو روکنے کے لئے کیا کچھ کیا اور موقعہ واردات سے کتنے فسادیوں کوحراست میں لیا گیا۔خود وزیر داخلہ امت شاہ نے پارلیمنٹ میں بیان دیا تھا کہ300 لوگ قتل وغارت گری کرنے پڑوسی ریاست اتر پردیش سے یہاں آئے تھے۔پولیس نے اپنی فرد جرم میں نہ تو ان لوگوں کا کوئی ذکر کیا ہے اور نہ ہی یہ بتایا ہے کہ یہ کون لوگ تھے اور ان کا تعلق کس سیاسی پارٹی سے تھا۔ ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ اگر واقعی یہ فساد منصوبہ بند تھا اور اس کے لئے باقاعدہ ساز ش رچی گئی تھی تو پولیس کا خفیہ محکمہ اس سا ز ش کا قبل از وقت سراغ لگانے میں ناکام کیوں رہا؟

سلسلہ واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ کچھ جگہ پولیس بھی فسادیوں کے ساتھ تھی اور وہ نہ صرف انھیں پتھر اور دیگر اشیاء فراہم کررہی تھی بلکہ بعض ایسی ویڈیو بھی منظر عام پر آئی تھیں جن میں پولیس خود بھی مسلمانوں کے گھروں پر پتھر برساتی ہوئی نظر آرہی تھی۔ ایک انتہائی شرمناک واقعہ کی ویڈیو نے خاصی شہرت حاصل کی تھی جس میں زخموں سے کراہتے ہوئے پانچ مسلم نوجوانوں کو اسپتال پہنچانے کی بجائے پولیس ان کی حب الوطنی کا امتحان لے رہی تھی۔ ان نوجوانوں میں سے ایک نے بعد کوزخموں کی تاب نہ لاکر دم توڑدیا تھا۔لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب قصے کہانیاں اور فرضی واقعات ہیں، جن کا پولیس نے اپنی فردجرم میں کوئی تذکرہ نہیں کیا ہے اور نہ ان مجرموں کی نشاندہی کی گئی ہے جن کی انتہائی اشتعال انگیز بیان بازی اور تقریروں سے اس فساد کا پس منظر تیار ہوا تھا۔ ظاہر ہے کہ اگر یہ حقائق ہوتے تو پولیس انھیں اپنی اس فرد جرم کا حصہ ضرور بناتی جو اس نے بڑی ”غیر جانب داری“ کے ساتھ تیارکی ہے۔

 پولیس نے اس فساد کا سارا الزام ان مسلمانوں پر ڈال دیا ہے، جو دہلی کے مختلف مقامات پر سی اے اے مخالف احتجاجی دھرنوں میں شریک تھے۔اس فساد کی سازش کا تانا بانادراصل ملک گیر سطح پر جاری اس تحریک سے جوڑا گیا ہے، جو سی اے اے، این آر سی اور این پی آرکے خلاف شروع کی گئی تھی۔ سبھی کو معلوم ہے کہ اس تحریک کاآغاز جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ہواتھا اور اس کا محور شاہین باغ تھا۔جس وقت شاہین باغ میں ہماری مائیں، بہنیں اور بیٹیاں نہایت پرامن طریقے سے ایک ظالمانہ اور مسلم مخالف قانون کے خلاف دھرنا دے رہی تھیں اور اس نے عالمی میڈیا اور انسانی حقوق کے اداروں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرلی تھی تو اسی وقت حکمراں جماعت کے لوگوں نے طرح طرح سے اسے بدنام کرنا شروع کردیا تھا۔ ہمارے وزیر اعظم نے اسے ایک پریوگ (تجربہ) سے تعبیر کیا تھا۔ خود وزیر داخلہ نے دہلی کے الیکشن میں ای وی ایم کا بٹن اتنے زور سے دبانے کی اپیل کی تھی کہ اس کا کرنٹ شاہین باغ تک پہنچے۔ دہلی میں بی جے پی کے ممبر پارلیمنٹ پرویش ورما نے تو یہاں تک کہا تھا کہ شاہین باغ میں دھرنے پر بیٹھے ہوئے لوگ آ پ کی بہن بیٹیوں کے ساتھ ’ریپ‘ کریں گے۔ اسی ذیل میں مرکزی وزیر مملکت انوراگ ٹھاکر نے دہلی چناؤ کی ایک انتخابی ریلی میں یہ نعرے بھی لگوائے تھے کہ ”دیش کے غداروں کو۔ گولی مارو۔۔۔ کو۔“

ان ہی اشتعال انگیز نعروں سے متاثر ہوکر فرقہ وارانہ ذہنیت کے دو جنگجو  نوجوانوں نے شاہین باغ اور جامعہ کے دھرنوں کی جگہ پر باقاعدہ فائرنگ کی تھی اور ایک نوجوان نے تو یہاں تک کہاتھا کہ ”اب اس ملک میں صرف ہندوؤں کی چلے گی۔“ پولیس نے ان نوجوانوں کو گرفتار ضرور کیاتھا، لیکن انھیں جلد ہی عدالت سے ضمانت پر رہا کردیا گیا، کیونکہ پولیس نے ان کے خلاف جن دفعات کے تحت مقدمات قایم کئے تھے، ان میں انھیں ضمانت ملنا مشکل نہیں تھا۔اس کے برعکس دہلی پولیس نے جامعہ اور شاہین باغ وغیرہ کے دھرنوں میں سرگرم کردار ادا کرنے والوں کوایسی دفعات کے تحت گرفتار کیا ہے کہ ان کی ضمانت عرضیاں بار بارخارج ہورہی ہیں۔ان لوگوں پر دہشت گردی مخالف قانون یواے پی اے کے تحت کارروائی کی گئی ہے اور ہر ایک پر کئی کئی دفعات لگائی گئی ہیں۔ ان گرفتار شدگان میں جامعہ کوآرڈی نیشن کمیٹی کی رکن صفورا زرگر بھی شامل ہے، جو پانچ ماہ کی حاملہ ہے اور اس کوانسانی بنیادوں پر رہا کرانے کی تمام کوششیں رائیگاں جارہی ہیں۔ ان گرفتار شدگان میں جامعہ کے طالب علم میران حیدر، آصف اقبال تنہا، سابق طلبا لیڈر شفاء الرحمن وغیرہ کے علاوہ جے این یو کی دوطالبات دیوانگنا کالیتا اور نتاشا نروال بھی ہیں۔ یہ دونوں ہی طالبات جے این یو کے پنجرا توڑ گروپ کی سرگرم ممبران ہیں اور ان پر صفورا زرگر کے ساتھ مل کر جعفر آباد میٹرواسٹیشن پر سی اے اے مخالف دھرنا منظم کرنے کا الزام ہے۔
یہ بات ہم نے ان سطور میں پہلے بھی لکھی ہے کہ یہ ملک کا غالباً پہلا ایسا فساد تھا جس کی باقاعدہ تیاری کی گئی تھی۔ کئی مہینے پہلے سے حکمراں جماعت کے لوگ دہلی اسمبلی کا الیکشن جیتنے کے لئے ماحول میں زہر گھول رہے تھے۔ ان کی پوری کوشش یہی تھی کہ فرقہ وارانہ ایجنڈے پر چل کر صوبائی حکومت کے عوام دوست کاموں کو ملیا میٹ کردیں۔ اسی لئے ملک کے وزیر داخلہ سے لے کر کپل مشرا تک سبھی ایک ہی زبان بول رہے تھے۔ کپل مشرا نے تو باقاعدہ فساد شروع ہونے سے پہلے پولیس کو وارننگ بھی دی تھی۔ جس وقت وہ پولیس کو ہڑکارہے تھے تو علاقے کے ڈی سی پی ان کی ڈھال کے طور پر وہاں کھڑے ہوئے تھے۔ یہ پہلا فساد ہے جس کے بھڑکانے والوں کے بارے میں سبھی کو معلوم ہے، یہاں تک کہ فیس بک کے بانی زکر برگ نے بھی کپل مشرا کی اشتعال انگیز تقریر کی طرف اشارہ کیا ہے۔ لیکن وزیر داخلہ امت شاہ کے براہ راست کنٹرول میں کام کرنے والی دہلی پولیس کو اتنی بھی اجازت نہیں ہے کہ وہ کپل مشر ا، انوراگ ٹھاکر، پرویش ورما سے رسمی پوچھ تاچھ بھی کرسکے۔اس کے برعکس ان تمام لوگوں کو اس فساد کا مجرم بنادیا گیا ہے جن کا سی اے اے مخالف تحریک سے ذرا بھی واسطہ تھا۔ یہ واضح طور پر انتقامی سیاست کا ہی مظہر ہے جس میں دہلی پولیس ایک فریق کے طور پر کام کررہی ہے۔جن لوگوں نے سی اے اے کے خلاف آواز بلند کی تھی،وہ اپنے جمہوری حق کا استعمال کررہے تھے، جس کی اجازت انھیں اس ملک کے آئین نے دی ہے۔ ملک کے ہر شہری کو  اظہاررائے کی آزادی حاصل ہے، لیکن جس طرح حق کی آواز بلند کرنے والوں کو سزا دی جارہی ہے، اسے دیکھ کر تو یہی لگتا ہے کہ اب اس ملک میں جمہوریت آخری سانسیں گن رہی ہے۔

تحریر: معصوم مرادآبادی

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .