حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،قم المقدسہ میں مجمع محققین ھند کی جانب سے 'قرآن اور گیتا میں اجتماعی اور عقلانی زاویہ سے تربیتی تعلیمات کا تقابلی جائزہ' کے عنوان سے المصطفی بین الاقوامی تحقیقاتی انسٹیٹیوٹ میں ایک علمی نشست کا انعقاد ہوا جس میں ولی فقیہ کے محترم نمائندہ حضرت آیۃ اللہ مھدوی پور اور ان کے معاون عالیجناب حجۃ الاسلام و المسلمین ڈاکٹر سید علیزادہ موسوی بھی شریک تھے ۔
تقریب کے آغاز میں انڈین ریسرچرس کاؤنسل کے سکریٹری حجت الاسلام و المسلمین جناب محمد باقر رضا نے گروہی اور اجتماعی طریقے سے تحقیقاتی کام کرنے کی اہمیت اور اس کو مجمع محققین ہند کا ایک امتیاز بتایا۔
تقریب کے مقرر اور محقق حجۃ الاسلام و المسلمین عالیجناب ڈاکٹر سید عباس مہدی حسنی تھے۔
محترم محقق نے واضح کیا کہ اس تحقیق کا مقصد قرآن اور گیتا کے ماننے والوں میں باہمی مفاہمت اور پرامن زندگی کی بنیاد فراہم کرنا اور امن و آشتی سے معمور ایک محفوظ معاشرہ کو تشکیل دینا ہے، انہوں نے واضح کیا کہ معاشرتی میدان میں قرآن اور گیتا کے مشترکہ تعلیمات کی بنیاد پر اپنے فرائض کی انجام دہی سے معاشرے کی اصلاح ہوگی، اسی طرح سے عقلی، شعوری اور فکری میدان میں بھی عقل سلیم کی پرورش، آیات الہی میں غور و فکر ، نیز شعور کو رشد و ارتقا دینے والے عوامل مہیا کرنے، شعورمیں رکاوٹ پیدا کرنے والے عصبیت جیسے عوامل سے دوری اختیار کرنے اور عقل کو تربیت دینے سے انسانوں کی عقل کو ترقی دی جاسکتی ہے ، اور اس طرح ادراکی ، فکری اور معاشرتی نشوونما کے نتیجے میں معاشرے کے لوگ پر سکون زندگی گزار سکتے ہیں۔
محقق گرامی نے قرآن کریم اور گیتا کے اشتراکات اور امتیازات کو بیان کیا اور کہا کہ دونوں کتابوں میں اشتراکات اور امتیازات کا ہونا ایک فطری امر لگتا ہے چونکہ اگرچہ دونوں کتابیں اپنے ماننے والوں کے لئے مقدس ہیں اور ان میں اچھے خاصے اشتراکات پائے جاتے ہیں لیکن زمان و مکان کے تقاضے کی بنیاد پر اس کے مندرجات الگ الگ ہیں۔ قرآن کی آیتیں اور احادیث اس بات کو بیان کرتی ہیں کہ قرآن کریم کسی خاص زمانے یا کسی خاص مکان یا کسی خاص قوم سے مخصوص نہیں ہے بلکہ اس کی ہدایتیں ہر زمانے اور ہر مکان اور دنیا کی ہر قوم کے لئے ہیں۔ لیکن گیتا کے مندرجات بالواسطہ طور سے انسانوں کے لئے بیان ہوئے ہیں چونکہ گیتا میں شری کرشن کے مخاطب ارجن ہیں۔
دونوں کتابوں میں انسان کو محترم شمار کیا گیا ہے اور برابری، نیکی، دوسروں سے مشورہ، اپنے انسانی بھائیوں کے ساتھ رحمدلی کی سفارش کی گئی ہے۔ تمام انسانوں حتی مخالفوں سے احترام اور صلح مصالحت کے ساتھ پیش آنے کو ایک اصول کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ لیکن مجبوری اور ناچاری میں اپنے دفاع کا حق بھی دیا گیا ہے۔
جنگ و مقابلہ آرائی کے قانون کو گیتا میں زیادہ شد و مد کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کیونکہ بنیادی طور پر گیتا میدان جنگ ہی میں وارد ہوئی ہے۔ مہابھارت میں ارجن کو شری کرشن یہ تعلیمات دیتے ہیں اور انھیں تعلیمات کے مجموعہ کو گیتا کہا جاتا ہے۔ لہذا گیتا کے وارد ہونے کا مقام در اصل میدان جنگ ہے۔ لیکن مخالفوں اور دشمنوں سے پیش آنے کے سلسلہ میں بھی گیتا برابری کا درس دیتی ہے۔
قرآن کریم میں بھی یہ تعلیمات اپنے تفصیلات اور تعمیقات کے ساتھ بیان ہوئی ہیں کیونکہ قرآن میں برابری کے بجائے عدل کی سفارش کی گئی ہے اور وہ بھی تقوی کی رعایت کے ساتھ۔ اس لئے کہ جہاں صرف برابری کا لحاظ کیا جاتا ہے وہاں ناانصافی اور ظلم کا امکان ہوتا ہے، لیکن اگر عدل کی بات ہو اور وہ بھی تقوی کے ساتھ تو ظلم کا امکان نہیں رہتا۔
گیتا کے مقابل قرآن میں مخالفین اور دشمنوں سے پیش آنے کے سلسلہ میں زیادہ تعلیمات بیان کی گئی ہیں۔ جیسے: عدل کی رعایت، نصیحت آمیز گفتگو، نرمی وغیرہ۔ یہ سب وہ تعلیمات ہیں جن پر عمل کرکے دشمن کو دوست بنایا جاسکتا ہے۔ قرآن کریم کی رو سے اولیائے الہی کا اپنے دشمنوں کے ساتھ یہ رویہ تھا کہ اپنی تمام کوشش اس امر میں صرف کرتے تھے کہ دشمن کو سیدھے راستہ کی رہنمائی کردیں۔ اس لحاظ سے وہ لوگ وعظ و نصیحت کے بعد پہلے تو صبر و خاموشی کا طریقہ اپناتے تھے، اگلے مرحلہ میں ان سے منھ پھیر لیتے تھے اور پھر بعد کے مرحلہ میں اگر ان کی ضد اور ہٹ دھرمی جاری رہتی تھی تو ان سے اپنی بیزاری اور لاتعلقی کا اعلان کردیتے تھے۔ یعنی دشمنوں کی ضد اور ہٹ دھرمی کے باوجود بھی ان سے جنگ نہیں کرتے تھے بلکہ ان سے اپنی بیزاری کا اعلان کرتے تھے۔ اور صرف ان کے حملے کی صورت میں مجبورا ان سے جنگ کرتے تھے۔
عقلانی لحاظ سے بھی قرآن و گیتا دونوں عقل کو ایسی قوت قرار دیتے ہیں جو صحیح اور غلط کی تشخیص دیتی ہے اور اس کا درست استعمال انسان کی سعادت کا سبب بنتا ہے۔ دونوں کتابوں میں عقل کو حق و باطل کی تشخیص کا ذریعہ بتایا گیا ہے۔ لیکن قرآن میں تعقل و تفکر کے بارے میں زیادہ آیتیں [تقریبا۳۰۰ آیتیں] ذکر ہوئی ہیں۔ اور صحیح سوچنے کے اوپر تاکید کی گئی ہے اور صحیح نہ سوچنے کی سرزنش کی گئی ہے۔ قرآن کریم میں ایک ہی عقل کا ذکر ہے لیکن اس کے استعمال کے لحاظ سے اس کی دو قسمیں کی جاسکتی ہیں: بینا عقل اور نابینا عقل۔ عقل پر موثر ہونے والی چیزوں کے لحاظ سے گیتا میں عقل کی تین قسمیں کی گئی ہیں: نیکی کی نوعیت کی عقل، جہل کی نوعیت کی عقل اور شہوت کی نوعیت کی عقل۔
نتیجہ یہ ہوا کہ دونوں کتابوں کے لحاظ سے عقل ایک ہی ہے اور عقل کی قوت کو مضبوطی اور رشد دیا جاسکتا ہے۔ قرآن اور گیتا دونوں کتابوں کے لحاظ سے مختلف عناصر کی فراہمی اور رکاوٹوں کو ہٹاکے نیز عقلانی تربیت کے روشوں کے بروئے کار لاکر ادراکی اور عقلانی قوت کو رشد و مضبوطی دی جاسکتی ہے اور اس کے نتیجہ میں حق و باطل کی تشخیص ہوجائے گی اور صاحبان عقل و ہوش کے صف میں شمولیت مل جائے گی نیز سعادت و خوشبختی حاصل ہوجائے گی۔