۴ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۴ شوال ۱۴۴۵ | Apr 23, 2024
مولانا علی حیدر فرشتہ

حوزہ/کتنی عجیب بات ہے کہ دنیا کو جمہوریت، حقوق بشر، آزادی اور مساوات وغیرہ کا سبق دینے والا یہ نام نہاد متمدن اور جمہوری ملک آج بھی نسل پرستی کے بہانہ نسل کشی کر رہا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،مجمع علماء و خطباء حیدرآباد دکن کے صدر حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا علی حیدر فرشتہ امریکہ میں نسل پرستی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ نسل پرستی،فرعونی مزاج کا خاصہ ہے۔

مولانا علی حیدر فرشتہ نے کہا کہ نسل پرستی کی تاریخ بہت پرانی ہے اور اس مزاج کی جڑیں فرعونیت سے وابستہ ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ قرآن میں جتنا زیادہ حضرت موسیٰ اور فرعون کے قصّہ کی تکرار ہوئی ہے اتنی کسی نبی یا رسول کے قصّہ کی نہیں ہوئی ہے کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ آنے والی نسلوں کے سامنے دو شخص نہیں بلکہ دو شخصیتیں اور دو افراد نہیں بلکہ دو متضاد کردار پیش کرنا چاہتا ہے اور شاید  آئندہ نسلوں کو ضمنا یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ ہر دور میں دو کردار زندہ رہیں گے اور اُن کے درمیان تصادم بھی قائم رہےگا، ایک حضرت موسیٰ کا کردار اور دوسرا فرعون کا کردار یا بالفاظ دیگر فرعونیت۔ 

انہوں نے کہا کہ قرآن مجید کے مطابق فرعون کا طریقہ یہ تھا کہ وہ خود کو اور اپنی قوم کو یعنی قبطیوں کو سبطیوں (بنی اسرائیل) سے افضل سمجھتا تھا اور علیٰ الاعلان یہ کہتا تھا: "وَقَوْمُهُمَا لَنَا عَابِدُونَ " (سورہ مومنون، آیت 47 ) یعنی ان دونوں (حضرت موسیٰ اور ہارون) کی قوم ہماری غلام ہے۔ اور اس سے قبل والی آیت میں اسکی وجہ یہ بیان  کی گئی ہے کہ "فَاسْتَكْبَرُوا وَكَانُوا قَوْمًا عَالِينَ" یعنی انہوں نے استکبار کیا اور وہ ایسی قوم تھی جو دوسروں پر تفوّق اور برتری چاہتی تھی کیونکہ وہ اپنے برتر ہونے کی قائل تھی۔ یہاں سے معلوم ہوتا ہے کی استکباری مزاج میں ہی اپنی برتری کا گمان اور دوسروں کی کمتری کا خیال پایا جاتا ہے۔

صدر مجمع علماء و خطباء حیدرآباد نے کہا کہ اسی نسل پرستی کا نتیجہ نسل کشی ہوتا ہے لہٰذا فرعونیوں کے تعلق سے قرآن میں ارشاد ہوتا ہے:  "يَسُومُونَكُمْ سُوٓءَ الْعَذَابِ يُذَبِّحُونَ أَبْنَآءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَآءَكُمْ" (سورہ بقرہ آیت 49 اور سورہ ابراھیم آیت 6)
آل فرعون تمہیں (یعنی بنی اسرائیل کو) سخت ترین تکلیفیں دیتے ہیں، تمہاری اولاد کو تہہ تیغ کر دیتے ہیں اور تمہاری عورتوں کو زندہ چھوڑ دیتے ہیں۔ 

مزید اپنی گفتگو میں کہا کہ آج بھی دنیا کے نام نہاد متمدن ممالک میں اور سامراجی طاقتوں کے یہاں کہ جن کا مزاج وہی فرعون والا ہے، یہی صورت حال نظر آتی ہے چنانچہ حالیہ دنوں میں امریکہ میں جارج فلائیڈ جو کہ ایک سیاہ فام امریکی باشندہ تھا اُسے ایک سرخ پوست افسر نے بے رحمی سے سر عام قتل کر دیا جبکہ وہ چیختا رہا کہ میری سانس رک رہی ہے، میں سانس نہیں لے سکتا لیکن اس افسر نے تب تک اپنے پیر کا گھٹنا اسکے گلے سے نہیں اٹھایا جب تک اسکی سانسیں پوری طرح تھم نہ گئیں۔ 

کتنی عجیب بات ہے کہ دنیا کو جمہوریت، حقوق بشر، آزادی اور مساوات وغیرہ کا سبق دینے والا یہ نام نہاد متمدن اور جمہوری ملک آج بھی نسل پرستی کے بہانہ نسل کشی کر رہا ہے اور سچ تو یہ ہے کہ اس سامراجی ملک کی غیر منصفانہ پالیسیوں کی وجہ سے ایک جارج فلائیڈ ہی نہیں بلکہ نہ معلوم دنیا کے کتنے ممالک اور کتنی اقوام عالم گھٹن محسوس کر رہے ہیں اور اُن کے اقتصاد سے لے کر سیاست تک کے گلو پر اس سامراجی طاقت نے اپنے منحوس پنجے اس طرح گڑائے ہوئے ہیں کہ وہ سانس نہیں لے پا رہے ہیں۔ اور آج اس کی سیاسی غنڈہ گردی اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ کوئی بھی ملک یا قوم اگر اس کی جی حضوری کرنے سے منع کر دے اور  اس کے سامنے سر تسلیم خم نہ کرے تو اپنے سیاسی اقتدار کا غلط فائدہ اٹھا کر اس پر ایسی پابندیاں عائد کرتا ہے کہ وہ زندگی کی ضروری اشیاء جیسے ضروری دوائیں وغیرہ کی فراہمی سے بھی محروم ہوکر یا تو اُس کے سامنے گٹھنے ٹیک دے اور یا آخر میں دم توڑ دے۔ 

لیکن ہاں! ایک طرف یہ سامراجی طاقتیں ہیں اور دوسری طرف اسلام ہے، وہی اسلام جس کے خلاف انہیں سامراجی طاقتوں نے پروپیگنڈے کرکے اسلام ہراسی کی فضا دنیا میں پیدا کی ہے، اس نے روز اوّل سے یہ اعلان کر دیا کہ ہمارے یہاں نسلی تفوّق کا کوئی خانہ موجود نہیں ہے بلکہ ہمارے نزدیک معیار برتری اور فضیلت صرف اور صرف تقوائے الہٰی ہے جبکہ قومیں اور قبیلہ تو صرف ایک دوسرے کی شناخت اور تعارف کا ذریعہ ہیں " يَآ أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَىٰ وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوٓا ۚ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ " (سوره حجرات، آیت 13) 
اور اسی پر عمل کرتے ہوئے رسول اکرم (ص) نے حبشی غلام حضرت بلال (رہ) کو اپنے مؤذن کا درجہ دیا اور امام حسین (ع) نے کربلا کے میدان میں سیاہ فام غلامِ جناب ابوذر غفاری (رہ) حضرت جون کو شہدائے کربلا میں شامل کیا۔ 
اب یہ محسوس ہوتا ہے کہ دنیا کو ایک بار پھر سے اسلامی تعلیمات اور سیرت نبی اکرم (ص) کی ضرورت ہے اور دنیا پھر سے کسی حسین ابن علی (ع) کی طالب ہے کہ یہی ہستیاں ہیں جو  صحیح معنی میں عدل و انصاف دنیا میں قائم کر سکتی ہیں اور ہر طرح کی تفریق اور تبعیض کو مٹا سکتی ہیں۔

آخر میں کہا کہ مجمع علماء و خطباء حیدرآباد، امریکہ میں پیش آنے والے اس حادثہ کی شدید مذمت کرتا ہے اور اللہ سے دعا گو ہے کہ اپنی اس آخری حجت وارث و فرزند امام حسین (ع) کو جلد سے جلد اذن ظہور عطا فرمائے جو اس دنیا سے ہر طرح کے ظلم اور تفریق کا خاتمہ کرکے اُسے ویسے ہی عدل و انصاف سے بھر دے جیسے وہ ظلم و جور سے بھری ہوئی ہو۔ آمین

تبصرہ ارسال

You are replying to: .