۳ آذر ۱۴۰۳ |۲۱ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 23, 2024
مولانا سید نجیب الحسن زیدی

حوزہ/مسلمانوں پر جہاں ہر طرف سے یلغار ہے وہیں انکی خود اپنی حالت بھی با بگفتہ ہے اور داخلی انتشار کے سبب وہ مزید کمزور ہوتے جا رہے ہیں ۔

حوزہ نیوز ایجنسی| 

تحریر: مولانا سید جیب الحسن زیدی 

 ہر وہ صاحب احساس جو ہندوستانی معاشرے کے  روز بروز بدلتے حالات پر نظر رکھے ہوئے ہے ہندوستان میں مسلمانوں کی موجودہ صورت حال کو لیکر فکر مند نظر آتا ہے۔ یقینا ہم ہندوستان میں جس مقام پر کھڑے ہیں وہاں ہر درد قوم رکھنے والا فرد اس سوال کا جواب ڈھونڈتا نظر آ رہا ہے کہ موجودہ دور انحطاط کو کیسے سر کیا جائے ؟ جب روز بروز مذہبی منافرت بڑھ رہی ہے اور انتظامیہ اپنی ناکامی کو چھپانے کے لئے مسلسل تعصب کی آگ بھڑکاتی نظر آ رہی ہے تقریبا ہر ایک خطے میں خاص طور پر مسلمانوں کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے کرونا کی اس وبا میں بھی میڈیا کو چین نہیں اور وہ مسلسل ایک خاص طبقہ پر یلغار کرتا نظر آ رہا ہے اور حد تو یہ ۴۵ برسوں میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ چین نے حملہ کر کے کسی کی جان لی ہو ۔اور ایک جان کی بات نہیں ٢٠ کے نزدیک فوجیوں کو اپنی جان گنوانا پڑی ہے ایسے میں بھی بجائے اسکے کہ پورا ملک متحد ہوکر ایک محاذ پر کھڑا ہوتا کچھ نیوز چینلز اب بھی فرقہ واریت کا راگ ہی الاپ رہے ہیں۔
مسلمانوں پر جہاں ہر طرف سے یلغار ہے وہیں انکی خود اپنی حالت بھی با بگفتہ ہے اور داخلی انتشار کے سبب وہ مزید کمزور ہوتے جا رہے ہیں ۔
روز بہ روز انکی ابتری دشمنوں کو موقع فراہم کر رہی ہے کہ وہ وہ اپنی گھناونی چالوں کو عملی کر سکیں۔
 ایسے میں سوال یہ ہے کہ ہماری قیادت کو  وہ کونسا طریقہ کار اختیار کرنا چاہیے کہ  کہ جس سے مسلمانوں کی ابتری دور ہو سکے؟ آج یہ سوالات کم و بیش ہر قوم و ملت کا درد رکھنے والا کرتا نظر آ رہا ہے کہ  آخر  جو لوگ قوم کی رہبری کر رہے ہیں ان کی حقیقی  ذمہ داری کیا ہے  ہندوستان میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت اور یہاں کی مکروہ سیاست کے درمیان وہ کونسا طریقہ ہے  جو ہمیں  اس دلدل سے نکالنے میں کامیاب ہوگا جس میں ہم دھنستے جا رہے ہیں

ان سوالوں کے جواب کے لئے ضروری ہے ایک ایسے امام ع کی زندگی کا تجزیاتی مطالعہ کیا جائے جس نے سخت ترین حالات میں اپنی قوم کی بہترین رہنمائی کر کے نہ صرف قوم کا سر اونچا کیا بلکہ انسانیت کو بھی ترقی کی بلندیوں تک پہنچایا اور اس امام کا نام ہے امام جعفر صادق علیہ السلام جنکے نام سے ہم جانے اور پہچانے جانے ہیں اور ہمیں جعفری کہا جاتا ہے۔

امام جعفر صادق علیہ السلام کی زندگی کا آغاز اور اس دور کے سنگین مسائل
یوں تو بچپن سے ہی آپ کی زندگی ایک ایسی زندگی ہے جس کا لمحہ لمحہ اپنے اندر ہزارہا عبرتیں لئے ہے ۔ اس لئے کہ ۱۴ سال کے سن سے ہی آپ اس بات کے شاہد ہیں کہ آپ کے جد بزرگوار امام زین العابدین علیہ السلام کس طرح دعاؤں کے ذریعہ محمد حنفیہ اور ان کے بارے میں امامت کا عقیدہ رکھنے والوں کے خلاف مصروف عمل ہیں ۔ [۱]
لیکن رسمی طور پر آپ کی سیاسی زندگی کاآغاز آپ کے جد بزگوار امام سجاد علیہ السلام اور والد ماجد امام باقرعلیہ السلام کی شہادت کے بعد ہی ہوتا ہے جب آپ کے والد کی شہادت ہوتی ہے تو آپ کی عمر مبارک ۳۴ سال سے ۳۷ سال کے درمیان ہے اس طرح اپنے والد کے بعد تقریباً ۲۸ سال کی طولانی مدت آپ نے شیعوں کی سرپرستی اور امامت فرمائی جو کہ دیگر ائمہ کی بہ نسبت طولانی ترین مدت ہے [۲]
جعفری طرز عمل:
آپ کی فعالیت کا نقطہ اوج آپ کی زندگی کا وہ حصہ ہے جب بنی امیہ کی حکومت کا زوال اور بنوعباس کا اقتدار پر قبضہ ہوا چاہتا تھا اور دونوں ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار تھے ۔ چنانچہ آپ نے بنی امیہ اور بن عباس کے مابین اقتدار کی رسہ کشی کے درمیان نصیب ہونے والے وقت سے مکمل فائدہ اٹھایا اورایک ایسی دانشگاہ کی تاسیس کی کہ جس میں ہزارہا تشنگان علوم ومعارف آکر اپنے علم کی پیاس بجھاتے تھے ۔ آپ نے اس دوران مختلف عقلی اور نقلی موضوعات میں ممتاز  شاگردوں کی تربیت اس انداز میں کی کہ ہر ایک اپنے میدان میں لاثانی نظر آتا ہے آپ کے شاگردوں کی تعداد چار ہزار سے زائد بیان کی گئی ہے [۳]جن میں ہشام بن حکم، محمد بن مسلم، ابان بن تغلب، ہشام بن سالم، مومن طاق، مفضل بن عمر اور جابر بن حیان جیسے اسامی سرفہرست ہیں [۴]۔  آپ کی عظیم یونیورسٹی کی افادیت اور اس کی  عظمت کسی پر پوشیدہ نہیں، شیعہ اور سنی دونوں ہی مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد اس کی بے لوث خدمات کا کلمہ پڑھتے ہیں اور دونوں ہی مذاہب کے ماننے والے اسلامی علوم کی تمام تر ترقی کو آپ ہی کی طرف منسوب کرتے ہیں [۵]۔
فیض عام
آپ کی عظیم یونیور سٹی کی وسعت کو دیکھتے ہوئے یہ بات غلط نہیں ہے کہ تمام علوم کو آپ ہی کی طرف منسوب کیا جائے یا احیاء تراث اسلامی کا سہرا آپ ہی کے سرباندھا جائے کیونکہ آپ کے علاوہ اور کوئی دوسری شخصیت تاریخ اسلام وادیان میں نظر نہیں آتی جس کے فیوضات سے ہر مکتب ومسلک اور ہر قوم و قبیلہ کے لوگوں نے بہ یک وقت استعفادہ کیا ہو ۔ چنانچہ آپ کے شاگرد صرف آپ کے ماننے والے شیعوں تک محدود نہیں تھے بلکہ آپ کے شاگردوں میں ان افاضل کا نام بھی نظر آتا ہے جو اپنے اپنے علاقے میں اپنی ایک حیثیت اور پہچان بنانے کے باوجود آپ کے در پر علم خیرات لینے آتے تھے ۔
مذاہب اربعہ کے تمام ائمہ باواسطہ یا بدون واسطہ آپ کے شاگرد رہے ہیں ۔[۶] کہ جن میں سب سے ممتاز نام ابوحنیفہ کا  نظر آتا ہے جنھوں نے آپ کی علمی لیاقت کے آگے سر تسلیم خم کرتے ہوئے کہیں آپ کو صحیفہ احادیث سے تعبیر کیا[۷]تو کہیں آپ کی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے اعلان کیا کہ آپ سے زیادہ، اختلافی آراء کا جاننے والا اور کوئی نہیں ہے [۸]۔ اور دو سال آپ کی شاگردی میں رہنے کے بعد ان دوسالوں میں آپ کے گہر بار اثرات نے انھیں اس قدر متاثر کیا کہ یہ کہے بغیر نہ رہ سکے کہ اگر یہ دو سال نہ ہوتے تو میں ہلاک ہوجاتا [۹]۔
العلم سلطان
 آج جس دور میں ہم زندگی گزار رہے ہیں اس میں علم کی بادشاہت ہے علم و حکمت کا سکہ ہر جگہ چلتا ہے  جس نے اپنے علم کا لوہا منوا لیا لوگ اسکے گرویدہ ہو جاتے ہیں ۔لوگ اسی کے سامنے جھکتے ہیں جو علم و دانش کے میدان میں اپنی شناخت بنا چکا ہو ۔امام صادق علیہ السلام کی زندگی کا ایک بہترین درس یہ ہے کہ اپنی بدقسمتی کا رونا نہ روکر اپنے آپ کو زیور علم سے آراستہ کرو  چنانچہ آپ نے اپنے علم و فضل کا لوہا اس طرح منوایا کہ ہر ایک آپ کا قصیدہ پڑھتا ہوا نظر آتا ہے چاہے وہ اہل سنت کے معروف عالم دین جاحظ [۱۰] اور شہرستانی [۱۱] ہوں یا ان کے مشہور مورخ ابن خلکان، [۱۲] ہر ایک نے آپ کو کسی نہ کسی طرح خراج عقیدت پیش کیا ہے اور یہ ہمارا سب سے بڑا افتخار ہے کہ ہمارے راہنماؤں کی مدح غیر بھی کرتے نہیں تھکتے ہیں ۔
جعفری طرز حیات  کا اہم رخ، خدمت سب کے لئے:
اگر ہم معاشرہ میں اپنا کھویا مقام  چاہتے ہیں تو ہمیں پوری ملک اور انسانیت کے بارے میں سوچنا ہوگا جیسا کہ امام صادق علیہ السلام نے کیا جب سب کو ہم سے فائدہ پہنچے گا تب ہی ہمارے بارے میں لوگوں کی سوچ مثبت بنے گی اور یہ چیز علم و آگہی کے میدان میں خدمت کے ذریعہ ممکن ہے جب ہم امام صادق علیہ السلام کی زندگی کو دیکھتے ہیں تو نظر آتا ہے کہ آپکی علمی خدمات کسی مذہب و خاص فکر سے متعلق نہ تھیں چنانچہ آپکی یونیورسٹی میں جو ہرِ علم سے مالا مال ہونے والے صرف شیعہ ہی نہ تھے بلکہ دوسرے مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد بھی اس میں شامل تھے جو اپنے علم کی پیاس بجھانے باب مدینہ العلم کے فرزند کے سامنے زانوئے ادب تہہ کرکے خود کو علم کی بیش بہادولت سے مالامال کررہے تھے ۔ اگر وسیع القلبی سے امام صادق علیہ السلام کی اس عظیم یونیور سٹی کے فیوضات و برکات پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ امام علیہ السلام نے نہ صرف اپنے ماننے والوں کے لئے بلکہ پورے عالم اسلام بلکہ پوری بنی نوع بشر کے لئے دریچہ ہائے فکر و نظراور علم و ہنر کو واکردیا تھا جس سے کوئی ایک قوم، ایک مذہب نہیں بلکہ پورا عالم انسانیت فیض حاصل کررہاتھا ۔ علم نجوم ہو [۱۳]کہ علم اقتصاد، علم جغرافیا [۱۴] ہو کہ علم طب [۱۵] فلسفہ ہو کہ ریاضی وہندسہ تاریخ ہو کہ علم کلام و  اجسام، علم ابدان ہو کہ شہود و عرفان، غرض کہ ہر علم میں خاص تبحر رکھنے والے آپ کے شاگرد موجود تھے جن کی تالیفات اور تجارب بعد میں آنے والی نسلوں کے لئے مشعل راہ ثابت ہوئے اور سائنس و ٹکنالوجی کے ذریعہ جن کی روشنی میں سرعت عمل کے ساتھ ان چیزوں کا انکشاف وجود میں آیا جو آج انسانیت کی اولین ضرورتیں بن کر اپنی اہمیت کا احساس دلارہی ہیں۔ [۱۶]

علم کے دروازے سب پر کھلے

امام علیہ السلام نے بغیر کسی ملک و مذہب کی قید لگائے اپنے سامنے دامن نیاز پھیلانے والے کے دامن کو علم و حکمت کے گوہروں سے بھر کر بتلایا کہ میری ذمہ داری کسی خاص طبقے تک محدود نہیں اور ہر حاجت طلب کرنے والے کی حاجت روائی میرا فرض ہے اور خلق خداکی ہدایت ورشادت ہی میری سیاست ہے ۔
ہماری ذمہ داری
اگر ہم بھی من و تو کے جھگڑوں کو چھوڑ کر علم کے میدان میں اپنا لوہا منوائیں اور نہ صرف لوہا منوائیں بلکہ دوسروں کی بھی مدد کریں تو یہ وہ طریقہ ہے جس کے ذریعہ اپنے ملک و قوم کے حالات کو بدلا جا سکتا ہے ۔
حواشی :
[۱] . تشیع درمسیر تاریخ، ص۳۰۳ ۔
[۲] ص۳۰۳ ایضا
[۳] . ن اصحاب الحدیث قد جمعوا الرواة عن الصادق علیہ السلام من الثفات علی اختلافھم فی الادلة و المقامات فکانوا اربعة الآف، شیخ مفید، الارشاد، ص ۲۷۱ ۔

[۴] سیرہ پیشوایان، ص۳۵۶ ۔

[۵] الامام الصادق کما عرفہ علماء الغرب ۔

[۶]. سیرہ پیشوایان ص ۳۵۹ ۔

[۷] روضات الجنات، ج۸ ص، ۱۶۹ ۔

[۸] ۔ ان علم الناس اھلھم باختلاف الناس الاما ابوحنیفہ، ص۷۰ الامام الصادق، ص۲۸۔

[۹] ۔ لولا السنتان لھلک نعمان، سیرہ پیشوایان نقل از الامام الصادق علیہ السلام، والمذاہب الاربعة، ج۲ ص۱۱۳

[۱۰] جعفر بن محمد الذی ملاء الدنیا علمہ و فقہ ویقال ان اباحنیفہ من تلازمة و کذالک ۔ ۔۔ رسائل الجاحظ ص۱۰۶ ۔

[۱۱] وھو ذوالعلم غزیرفی الدین وادب کامل فی الحمکة وزھد بالغ فی الدنیا، الملل و النحل، شہرستانی ج۱، ص ۱۴۷ ۔

[۱۲] وکان من سادات و لقب بالصادق لصدق مقالتہ وفضلہ اشھر من ان یذکر و فیات الاعیان، ج۸ ص ۱۰۵ ۔

[۱۳] ۔ الامام الصادق کما عرفہ: العلماء الغرب، ڈاکٹر نورالدین آملی، ص۷ ۔

[۱۴] کان اول ناقد التاریخ واول من وضع ھذالاسم، وہی مدرک، ص۴۹ تا ۲۴۶ ۔
[۱۵]  ایضا

[۱۶]  ایضا

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .