مترجم: غلام پنجتن مبارکپوری
حوزہ نیوز ایجنسی | میں ایک کھجور کا درخت ہوں اور آپ لوگوں سے اس باغ کے بارے میں گفتگو کرنا چاہتا ہوں جسمیں میں زندگی بسر کررہا ہوں، پہلے میں کھجور کا ایک بیج تھا۔ کچھ دنوں تک مٹی کے نیچے سویا ہوا تھا یہاں تک کہ دھیرے دھیرے مٹی سے اپنا سر باہر نکالا اور کئی سالوں کے بعد کھجور کا بڑا اور تناوردرخت بن گیا۔
میں نے ایک طولانی عمر گذاری ہے، جس سال میں نے پہلی بار کھجور کو جنم دیا وہ میری زندگی کا سب سے اہم سال تھا ،وہ پیغمبراکرم (ص) کی ہجرت کا ساتواں سال تھا ۔اس سال ایک اور اہم واقعہ پیش آیا ۔
ساتویں ہجری میں خیبر کے یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان بہت شدید جنگ ہوئی ،میدان جنگ میں حضرت علی علیہ السلام کی طاقت اور بہادری کی وجہ سے یہودیوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا اور مسلمانوں نے خیبر کا قلعہ فتح کرلیا،جس وقت مسلمانوں کی کامیابی کی خبر سارے یہودیوں تک پہنچی تووہ یہ سمجھ گئے کی اسلام کے لشکر میں جب تک حضرت علی علیہ السلام جیسے بہادرموجود رہیں گے مسلمان ہمیشہ کامیاب ہوتے رہیں گے ، اس لئےوہ لوگ بغیر کسی جنگ کے سرینڈر ہوگئے اور باغ فدک ، یعنی وہی باغ جسمیں میں زندگی بسر کررہا ہوں کو پیغمبر اکرم (ص) کو دیدیا ،اور یہ طے کیا کہ آئندہ کبھی بھی مسلمانوں کے ساتھ کوئی جنگ نہیں کریں گے ۔
جب یہ باغ پیغمبر اکرم (ص) کے اختیار میں آیا تو میں یہ دیکھنے کیلئے بے چین تھا کہ آخر میں کس کی ملکیت میں جاتا ہوں ،اسی اثنا میں جبرئیل امین آسمان سے زمین پر نازل ہوئے اور پیغمبر اکرم (ص) کی خدمت میں اس طرح خدا کا پیغام سنایا:(اے اللہ کےرسول ،خدا یہ چاہتا ہے کی یہ باغ اپنی زندگی کے سب سے قریبی شخص کو عطا کریں )پیغمبر اکرم(ص) نے بھی فدک کی دستاویز کو اپنی چہیتی بیٹی حضرت زہرا(س) کو دیتے ہوئے فرمایا:(اے زہرا، تم میری زندگی کی سب سے عزیز فرد ہو اس لئے میں خدا کے حکم سے یہ باغ تمہیں عطا کرتا ہوں )۔
اس خبر کوسن کر خوشی کی وجہ سے میں نے پہلی بار اسی سال کھجور دیا ،دوسرے تمام درخت بھی اس خبر سے بہت خوش ہوئے اور اس سال باغ فدک میں بہت کاشت ہوئی ۔
حضرت فاطمہ زہرا (س) نے اس باغ میں بہت زیادہ مزدوروں کو کام پہ لگا دیا جوخوشی خوشی انکے لئے اس باغ میں کام کرنے لگے ،کچھ مزدوروں نے باغ کے درختوں میں پانی دینے کی ذمہ داری قبول کی، اور کچھ نے باغ کی حفاظت کی ذمہ داری اٹھائی، تو کچھ کھجورچننے کے ذمہ دار بن گئے، بچے بھی باغ میں کھیلتے تھے اور جب کھیلتے کھیلتے بھوک لگتی تو میٹھی اورتازہ کھجور تناول کرلیتے تھے۔
کھجور بکنے سے جو پیسے ملتے تھےحضرت زہرا (س) انکو مزدوروں اور فقیر وں نیزضرورت مندوں میں بانٹ دیتی تھیں تاکہ اس پیسے سے اپنے لئے نیا لباس ، اور اچھااچھا کھانا مہیا کر سکیں ، اور اس طرح سے سب لوگ بہت خوش و خرم تھے ۔
ہم بہت ہی اچھے ایام سے گزررہے تھے ،میری ہمیشہ یہ خواہش تھی کم سے کم ایک ہی بار سہی حضرت زہرا (س) میری کھجورتناول فرمالیں ،اسی لئے ہمیشہ یہ کوشش کرتا تھا کی میٹھی اور لذیذ کھجور انکے حوالے کروں لیکن افسوس کہ یہ اچھے ایام چار سال سے زیادہ نہیں رہے۔
جس وقت پیغمبر اکرم (ص) کا انتقال ہوا تو رسول اکرم (ص) اور حضرت زہرا (س)کے دشمنوں نے باغ فدک پہ حملہ کیا ، تمام مزدوروں کو نکال دیا نیزفقیروں اور ضرورت مندوں کو باغ کے پھلوں سے استفادہ کرنے سے روک دیا۔
جس وقت یہ خبر حضرت زہرا (س ) تک پہنچی آپ اپنے حق کا دفاع کرنے کیلئے مسجد میں گئیں اور لوگوں کو مخاطب کرکے کہا: کیاتم لوگ بھول گئے کہ پیغمبر اکرم(ص) نے باغ فدک مجھے دیا تھا کیونکہ میں انکے نزدیک سب سے زیادہ عزیز تھی ؟ پھرکیوں تم نے زبردستی مجھ سے باغ کوچھینا اور مزدوروں کو باغ سے نکالا ؟۔
لیکن جناب رسول اکرم (ص) اور حضرت زہرا (س)کے دشمنوں نے انکی باتوں پہ توجہ نہیں کیا، انکی بے احترامی کیا اور انکو شہید کر ڈالا۔
اسکے بعد سے غم و غصہ کی شدت کی وجہ سے میرے پتے پیلے ہوگئے اور حضرت زہرا کے فراق میں میٹھی اور لذیذ کھجور تیار نہیں کرسکا۔
لیکن اس دن کیلئے دعا کررہا ہوں کہ جب میرے پتے دوبارہ سبز ہوجائیں اور میٹھی کھجور لوگوں کی خدمت میں پیش کر سکوں ، جب امام مہدی آخرالزماں علیہ السلام آئیں گے تو اپنے دوستوں کی مدد سے برے لوگوں سے جنگ کریں گے اور دشمنوں سے باغ فدک کو دوبارہ لے لیں گے ۔ اس وقت میں بھی خوش و خرم ہوکر میٹھے خرمے لوگوں کے کام و دہن کے حوالے کروں گا ۔
میں اس دن کے لئے دعا کر رہا ہوں بچوں تم بھی اس دن کی آمد کیلئے دعا کرو ۔
مترجم: غلام پنجتن مبارکپوری،والقلم ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ مبارک پور اعظم گڑھ یوپی، انڈیا۔
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔