۱۳ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۳ شوال ۱۴۴۵ | May 2, 2024
بی بی سی

حوزہ/ایران میں کورونا کے پھیلنےکے بعد سے بی بی سی فارسی کی کارکردگی کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ میڈیا پہلے ہی دن سے ایران میں کورونا کے اعداد و شمار پر شک کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور اسی کے ساتھ ہی ایرانی فوبیا اور مذہب کو بدنام کرنے کے منصوبوں کو اپنے ایجنڈے میں شامل کرچکا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،بی بی سی فارسی نے 2 دن پہلے ایک منصوبے کا آغاز کیا ہے جس کے تحت ایران میں  کرونا کی وجہ سے مریضوں اور اموات کی تعداد  کے بارے میں لوگوں کو شک میں ڈالا جاسکے لیکن اس نےصرف شوروغل مچایا  اورکوئی قابل اعتماد معلومات یا دستاویزات سامنے نہیں لاسکا اس کے بجائے اس نے ایرانی عوام کی رائے عامہ کی صرف ان شکوک و شبہات پر توجہ مرکوز کرنے کی کوشش کی جو ساری دنیا اور تمام ممالک کے لئے اٹھائے جاتے ہیں، بی بی سی کی نئی رپورٹ کا مرکزی  نقطہ کورونا کے ذریعہ ہونے والی اموات کے بارے میں دی جانے والی  اطلاعات میں شکوک و شبہات ایجاد کرنا تھا ،اگرچہ یہ میڈیا پہلے بھی اس طرح کا دعویٰ کئی بار کرچکا ہےلیکن اس بار  حوالہ دیتے ہوئے  اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لئے نامعلوم ذرائع کا  حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ  ایران میں کورونا کے ذریعہ ہونے والی اموات کی تعدادجتنی بتائی جاتی ہے اس سے تین گنا زیادہ ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ بی بی سی کا یہ دعویٰ کسی قابل اعتماد  زرائع یا دستاویز پر مبنی نہیں ہے بلکہ محض ایک مبہم چارٹ کی بنا پر کیا گیا ہے کہ جس میں موجود معلومات اس قابل بھی نہیں ہیں کہ ان کی توثیق کی جا سکے یہاں تک کہ خود بی بی سی نے بھی چارٹ پر موجود معلومات کی مقدار پر انحصار کرتے ہوئے اپنے پرانے دعوؤں کو دہرایا ہے اور اس میں موجود تفصیلات کی تصدیق کرنے سے انکار کردیا ہے،اس نے جوشبہ اٹھایا ہے  وہ دنیا کے تمام ممالک میں ہلاکتوں اور اموات کے اعدادوشمار کے بارے میں کئی بار اٹھایا جاچکا ہےاور اس کا جواب ایران اور دنیا کے صحت کے حکام نے کئی بار دے چکے ہیں۔
بی بی سی نے دعوی کیا ہے کہ وہ اس نے ان افراد کی فہرست تک رسائی حاصل کر لی ہے جو کورونا کی وجہ سے مرچکے ہیں، یہ دنیا بھر کا ایک مسئلہ ہے اور خاص طور پر اس وجہ سے کہ کورونا اور فلو (خاص طور پر سردی کے موسم میں) کے کلینیکل علامات کی مماثلت کی وجہ سے  ان دو بیماریوں میں فرق کرنا مشکل ہے تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ بی بی سی نے اس عالمی مبہمیت اور اس فہرست میں کورونا کے واقعات کے بارے میں غیر یقینی کیفیت کو تسلیم کیے بغیر  ایران کے بارے میں بغیر کسی دلیل کے یہ نتیجہ اخذ کیا ہےکہ  اس ملک میں کورونا کے ذریعہ ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد کے سرکاری اعدادوشمار میںجان بوجھ کر کمی کی جاتی ہےجبکہ وائرس کی نشاندہی کرنے کے پہلے دن سے ہی  وزارت صحت کے عہدیداروں نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا ہے کہ اعلان کردہ اعدادوشمار صرف تشخیص کے یقینی معیار پر مبنی ہوتے ہیں یا یوں کہا جائے کہ چونکہ تمام لوگوں کا کورونا کا  ٹیسٹ کرنا ممکن نہیں ہے  لہذا اگر کوئی  کورونا جیسی علامتوں کی وجہ سے فوت  جائے لیکن اس کا ٹیسٹ نہ کیا گیا ہوتو اس کو کورونا کے ذریعہ ہونے والی اموات میں  شمار نہیں کیا جائے گا، یہ ایک ایسا معیار ہے جس کو وہ تمام ممالک جو اعداد و شمار فراہم کرنے پر راضی ہیں اور عالمی ادارہ منظور کرتا ہے۔
شروع میں  پابندیوں کی وجہ سے ایران کے پاس اس وبا کو تشخیص دینے کے لیے کٹ نہیں تھی  جس کی وجہ سے ممکن ہے اعداد وشمار  میں فرق ہو لیکن بی بی سی نے اس کو بھی ایک مسئلہ بنا کر پیش کیا لیکن بعد میں جب ایران نے اپنی کٹ بنا لی تو یہ مسئلہ خود بخود ہی ختم ہو گیا۔
ایرانو فوبیا؛ ایران میں کورونا پھیلنے کے فورا بعد ہی ایرانو فوبیا ، بی بی سی فارسی کی ایک اہم حکمت عملی  ہوگئی، برطانیہ ، سعودی عرب اور امریکہ کی مالی امداد  پر چلنے والے میڈیا نے کورونا پھیلنے کے پہلے ہفتوں میں ایران  کے خلاف  اس طرح کے منفی حملے اور پروپیگنڈے شروع کیے جیسے کہ یہی ملک اس وائرس کا مرکز ہے اور یہ خطے اور دنیا کے لئے خطرہ ہے۔
مذہب اور سائنس کے موازنے کو ہوا دینا؛
کورونا کے دوران رمضان المبارک اور محرم کے مہینوں کے آنے سے سیٹلائٹ چینلز کی مشترکہ پالیسی   اور ایجنڈا مذہب اور سائنس کے تصادم کا مسئلہ کھڑا کرنا ہے ، ان ذرائع ابلاغ نے بار بار مختلف مضامین اور پروگراموں کے ذریعہ اس مسئلے کو اجاگر کرنے کی کوشش کی لیکن ہر بار  رہبر معظم اور دیگر مراجع تقلید کی کورونا کا مقابلہ کرنے کے لیے بنائی گئی قومی کمیٹی کے احکامات کی پاسداری پر تاکید کے ذریعہ ان کے منصوبے ناکام رہے۔
دین کو بدنام کرنا؛ اس برطانوی  میڈیا نے مذہب کی شبیہہ کو بگاڑنے کے لئے جو دوسرا حربہ استعمال کیا ہے وہ یہ ہے کہ ایران میں کورونا کی منفی خبروں کے ساتھ مذہبی مقامات کی تصاویر کا انتخاب کیا تاکہ لوگوں میں مذہبی علامتوں اور اقدار کے بارے میں بالواسطہ منفی احساس پیدا ہوجبکہ زیادہ تر سرخیوں کا فوٹو کے مقام سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .