۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
سلمان عابدی

حوزہ/ سن اکسٹھ کا مشہور دربار شام، حسیں بام و در اور کالا نظام؛نتیجۂ فکر: مولانا سلمان عابدی زید عزہ

حوزہ نیوز ایجنسی | 

دیباچہ

سن اکسٹھ کا مشہور دربار شام
حسیں بام و در اور کالا نظام

جہاں سات سو تھے وہ کرسی نشیں
حکومت نے جن کا خریدا تھا دیں

بھکاری جو دربار شاہی کے تھے
جو مارے ہوئے مرغ و ماہی کے تھے

دماغوں میں تھا سلطنت کا جنوں
رگوں میں تھا جن کی امیہ کا خوں

جو انساں نما گرگ ' گھڑیال تھے
جو خوں خوار و سفاک و دجال تھے

ٹپکتا تھا جبڑوں سے جن کے لہو
سمیہ کے قاتل ' حجر کے عدو

حجاز اور روم و حبش کے سفیر
شرابی کو جو مانتے تھے امیر

جو کہتا تھا پی کر پرانی شراب
نہ جبریل آئے نہ آئی کتاب

اڑاتا تھا مذہب کا ہر دم مذاق 
عقائد کا منکر ' امیر نفاق

لگاتا تھا ماوں کے بہنوں کے دام
جو رشتوں کا کرتا نہ تھا احترام

جسے روکنے والا کوئی نہ تھا
جسے ٹوکنے والا کوئی نہ تھا

اٹھا ایک بیمار تقریر کو
سنبھالے ہوئے طوق و زنجیر کو 

بدن پر تھا طوق و سلاسل کا بار
اسیری کا جس نے بڑھایا وقار

کہا بولنے دے مجھے اے امیر
سیاہی میں ڈوبا ہے تیرا ضمیر

کہا لب ہلانے کی ساعت نہیں
یہاں بولنے کی اجازت نہیں

تو درباریوں نے کیا یہ کلام
اسے بولنے دے بہ شوق تمام

یہ قیدی ہے بے کس ہے مجبور ہے
یہ اپنے وطن سے بہت دور ہے

ملا بولنے کا اشارہ ملا
بھرم کھولنے کا اشارہ ملا

اٹھا جیسے اٹھتی ہے دریا کی موج
بڑھا جیسے بڑھتی ہے آندھی کی فوج

بہتر شہیدوں کا مقصد لئے 
بڑھا وہ وقار اب و جد لئے
 
ہلے لب تو ہلنے لگا سر سے تاج
بدلنے لگا بھیڑیوں کا مزاج

حبش کے غلاموں نے انگڑائی لی
کہ کانٹوں سے خوشبو مہکنے لگی

سن اے حاکم شام سن میری بات
ہماری محبت ہے وجہ نجات

خطبہ

ہمیں چھ خصائل سے زینت ملی 
ہمیں سات باتوں سے عزت ملی

ہمارے خصائل میں اک علم ہے
ہمارے فضائل میں اک حلم ہے

سخاوت فصاحت شجاعت ملی
دلوں میں ہماری ولا بھی رکھی

ہماری بڑی عمدہ سرکار ہے
رسول خدا جیسا مختار ہے

علی جیسا سچا بھی ہم میں سے ہے
کہ جعفر بھی حمزہ بھی ہم میں سے ہے

خواتین عالم کی سرخیل ہیں 
کہ جن کی غلامی میں جبریل ہیں

جوانان جنت کے سردار ہیں
جو سبطین امت ہیں مختار ہیں 

جو پہچانتا ہے مری شان کو
تو وہ جانتا ہے مری شان کو

جو غافل ہے وہ مجھ کو پہچان لے
مرے مرتبہ کو وہ اب جان لے

حدود حرم کا میں دل بند ہوں
مقام منا کا میں فرزند ہوں

صفا اور زم زم کا بیٹا ہوں میں 
زمین معظم کا بیٹا ہوں میں

میں اس بندہ پرور کا فرزند ہوں
میں اس نیک انساں کا دل بند ہوں

جو چادر میں خیرات لیکر گیا
غریبوں کو سوغات لیکر گیا

تھی کندھوں پہ جس کے ردائے کرم
تھی عمدہ زمیں جس کے زیر قدم

میں اس کا پسر ہوں سنو صاف صاف
کئے جس نے حج اور عمدہ طواف

میں اس محترم کا ہوں نور نظر
بٹھایا گیا جس کو براق پر

بلایا خدا نے جسے راتوں رات
ملک لے گئے جسکو عزت کے ساتھ

زمین حرم سے بہت دور تک
مقدس جگہ بیت معمور تک

میں اس کا پسر ہوں بحکم خدا
کہ جو سدرت المنتہی تک گیا

تقرب کی راہیں بھی طئے جس نے کیں
گیا دو کمانوں کے بالکل قریں

میں اسکا پسر ہوں بصد عزو ناز
فرشتوں کو جسنے پڑھائی نماز

جو ہے راز دار خدائے جلیل
جہاں جلتے ہیں شہ پر جبرئیل

رسول خدا کا میں فرزند ہوں
علی مرتضے کا میں دل بند ہوں

میں اس کا پسر ہوں نہ تھا جسکو باک
رگڑ دی تھی کفار کی جس نے ناک

میں اس کا پسر ہوں نبی کے جلو
دو تیغوں سے مارے ہیں جس نے عدو

وہ دو بیعتوں میں جو شامل رہا
وہ دو ہجرتیں جس نے کیں جا بجا

میں ہوں صالح المومنین کا پسر
میں ہوں وارث المرسلیں کا پسر

میں ہوں قاتل الملحدیں کا پسر
میں ہوں اصبر الصابریں کا پسر

میں بیٹا ہوں ختم النبیین کا
میں فرزند ہوں آل یاسین کا

میں اس کا پسر ہوں بہ حکم خدا
فرشتوں نے جس کی مدد کی سدا

حرم کے محافظ کا بیٹا ہوں میں 
علم کے محافظ کا بیٹا ہوں میں

جو ہر ایک بیعت شکن سے لڑا
نہ مرتد کو چھوڑا نہ ملحد بچا

نواصب کی جس نے کمر توڑ دی
ہر اک بانئ ظلم سے جنگ کی

میں اس کا پسر اس کا ہوں میں خلف
قریش عرب میں جو تھا با شرف

مسلمان اول کا ہوں میں پسر
تہ تیغ جس سے ہوئے اہل شر

منافق کے حق میں جو شمشیر تھا
کمان الٰہی کا جو تیر تھا 

جو دین خدا کا مددگار تھا
جو امر خدا کا علمدار تھا

جو عقل اور حکمت کا اک باغ تھا
جو مخزن تھا علم اور دانائی کا

جواد و کریم و فہیم و ذکی
صبور و شکور و مجاہد رضی

بہادر جری نیک کردار تھا
جو اصلاب کے حق میں تلوار تھا

حریفوں کے صف جس نے الٹادئیے
رقیبوں پہ بڑھ بڑھ کے حملے کئے

جو آسودہ خاطر تھا مختار تھا
فصیح البیان نرم گفتار تھا

ارادہ قوی ' عزم محکم ' دلیر
شجاعت کے میدان کا ایک شیر

لڑائی ہوا کرتی نیزوں کی جب
دوادوش ہوتی تھی گھوڑوں کی جب

کچل دیتا دشمن کی اوقات کو
اڑادیتا پھر اس کے ذرات کو

وہ شاہ عراق اور شیر حجاز
وہ معجز نما اور دوعالم کا راز

وہ مکہ کا سلطاں وہ نص کا امام
وہ شاہ مدینہ احد کی حسام

وہ ہجرت کی تیغ اور شہ مشعرین
وہ سبطین کا باپ اور دل کا چین

عجائب کا مظہر ' چمکدار نور
کمالات کی گویا جائے ظہور

وہ مطلوب طالب وہ غالب اسد
وہ عمراں کا بیٹا علی میرا جد

سنو میں خدیجہ کا فرزند ہوں
عرب کی ملیکہ کا فرزند ہوں

میں قلب رسالت کا دلبند ہوں 
میں خاتون جنت کا دلبند ہوں

میں اس کا پسر ہوں سنو غور سے
جو مارا گیا ظلم اور جور سے

میں اس کا پسر ہوں سنو یہ ذرا
کہ سر جس کا گردن سے کاٹا گیا

میں اس تشنہ لب کا ہوں نور نظر
چھری چل گئی جس کے حلقوم پر

میں اس کا پسر وہ ہے بابا مرا
کہ جس کا عمامہ اتارا گیا

عبا جس کے کندھوں سے چھینی گئی
فرشتوں نے غربت پہ فریاد کی

زمیں پر جن انس نے کی بکا
ہوا میں پرندوں نے ماتم کیا

میں اس کا پسر ہوں سنو جسکا سر
اٹھایا گیا نیزہ کی نوک پر

حرم جس کے قیدی بنائے گئے
رسن بستہ دربار لائے گئے

مصائب کی مار اس پہ ایسی پڑی
اذاں بے نمازی کو یاد آگئی

مؤذن نے اللہ اکبر کہا
تو سجاد نے بھی مکرر کہا

گواہی رسالت کی جب اس نے دی
تو آل محمد کی جیت ہوگئی

نتیجۂ فکر: مولانا سلمان عابدی زید عزہ

تبصرہ ارسال

You are replying to: .