نتیجہ فکر: سید ابراہیم حسین، دانش حسینی
حوزہ نیوز ایجنسی |
لائق دستار عرفاں صاحب منبر کہیں
اس درناباب کو ہم علم کا زیور کہیں
کیوں نہ ہم اسکو کلیم بستئی اکبر کہیں
کچھ غلط ہوگا نہ گر تاریخ کا محور کہیں
عالم خاک نجف کی ذات عنواں ہوگئ
سرزمین ہند کی آغوش ذیشاں ہوگئی
جسکی جاگیروں سے ثابت درد ملت کون ہے
پوچھئے طلاب سے کہ انکی غیرت کون ہے
مرکےبھی زندہ اےشہر علم و حکمت کون ہے
اے الہ آباد تیری شان و شوکت کون ہے
جذبئہ میثم سے جسکی ذات کا معیار تھا
بستئی تاریک میں وہ ناشر انوار تھا
اف وہ زحمت اور وہ طنز و شوخیاں
پیکر علم و عمل سے جہل کی گستاخیاں
امّت بیضاٗء تری تاریخ کی تاریکیاں
حضرت حیدر سے لے کر آج تک کی ہستیاں
صفحئہ گمنام پہ پنہاں روایت ہوگئیں
مثل علامہ شہید ظلم امّت ہوگئیں
ہمنوائے میثم وقنبر تجھے لاکھوں سلام
اے سکون مادر سرور تجھے لاکھوں سلام
ذات واحد میں سجے لشکر تجھے لاکھوں سلام
اے حسین ؑ وقت کے یاور تجھے لاکھوں سلام
گر مگر کے لفظ سے میرا کوئی رشتہ نہیں
مادر گیتی ترے دامن میں اس جیسا نہیں
جو دعائے فاطمہ تھے قول قرآن ہو گئے
نصرت شبیر ؑ میں شان شہیداں ہوگئے
قوم کے خادم تھے جو فخر سلیماں ہوگئے
ہاں وہی جو یادگار نوع انساں ہوگئے
کاروان حضرت مہدیؑ میں صف پائے کبھی
کاش ان خدّام میں اپنا بھی نام آئے کبھی
دانش حسینی