حوزہ نیوز ایجنسی |
ہر صبح کی کلیاں روتی ہیں ہر رات سہانی روتی ہے
قاسم ترے سہرے پر اب تک پھولوں کی جوانی روتی ہے
گھوڑے پہ بٹھاکر قاسم کو شبیر نے روکر فرمایا
بیٹا ترے جسم نازک پر پوشاک گرانی روتی ہے
بازو پہ جو مدت سے تھا بندھا تعویذ نہیں وہ خط نکلا
جب غور سے دیکھا قاسم نے بابا کی نشانی روتی ہے
شبیر کے بچوں کی شاید ہے یاد ابھی تک تشنہ لبی
سر اپنا پٹکتی ہیں موجیں دریا کی روانی روتی ہے
زنجیر کوئی جب ہلتی ہے جب طوق و سلاسل بجتے ہیں
اک قیدی ذہن میں آتا ہے اک یاد پرانی روتی ہے
منظر ہے قیامت سے بڑھ کر اب اور قیامت کیا ہوگی
میدان میں اصغر ہنستا ہے کوثر کی روانی روتی ہے
سلمان کا نوحہ رو رو کر پڑھتا ہے جو شوذب مجلس میں
در پردہ کوئی بی بی سن کر پیاسوں کی کہانی روتی ہے
نتیجۂ فکر: مولانا سلمان عابدی زید عزہ