۵ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۵ شوال ۱۴۴۵ | Apr 24, 2024
مسجد میں ہنومان چالیسا کا پاٹھ

حوزہ/ مسجد میں گھسنے کے بعد منو پال نے موبائل پر فیس بک لائیو شروع کیا اور پھر ہنومان چالیسا کا پاٹھ شروع کر دیا۔ اس دوران نوجوان فیس بک لائیو پر اپنے دوستوں کو مسجد میں ہنومان چالیسا کی ویڈیو دکھاتا رہا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، متھرا واقع گووردھن عیدگاہ میں چار ہندو نوجوانوں کے ذریعہ ہنومان چالیسا کا پاٹھ کیے جانے کا واقعہ گزشتہ دنوں پیش آیا تھا، اور اب کچھ ایسی ہی خبریں اتر پردیش کے باغپت سے موصول ہو رہی ہیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ کھیکڑا تھانہ حلقہ کے ونے پور گاؤں واقع مسجد میں منگل یعنی 3 نومبر کو منو پال بنسل نامی نوجوان نے ہنومان چالیسا کا پاٹھ کیا تھا، جو علاقے میں موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔ جب اس بات کی خبر پولس کو لگی تو اس نے جانچ کی، لیکن مسجد کے امام نے منوپال کے خلاف کسی بھی کارروائی سے انکار کر دیا۔ امام نے کہا کہ “نوجوان گاؤں کا ہی رہنے والا ہے اور میں اسے جانتا ہوں، اس لیے کوئی کارروائی نہیں چاہتا۔”

ذرائع کے مطابق مسجد میں گھسنے کے بعد منو پال بنسل نے پہلے موبائل پر فیس بک لائیو شروع کیا اور پھر ہنومان چالیسا کا پاٹھ شروع کر دیا۔ اس دوران نوجوان فیس بک پر بھی لائیو رہا اور اپنے دوستوں کو مسجد میں لائیو ہنومان چالیسا کی ویڈیو دکھائی۔ اپنے اس عمل کے تعلق سے نوجوان نے کہا کہ اس نے فرقہ وارانہ خیر سگالی قائم کرنے کے لیے مسجد میں ہنومان چالیسا کا پاٹھ کیا۔ کچھ خبروں میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ منو پال نے مسجد کے امام سے اس کی اجازت لی تھی اور اس کے بعد ہی اس نے ہنومان چالیسا کا پاٹھ کیا۔

کچھ میڈیا رپورٹس کے مطابق منو پال بنسل بی جے پی کا کارکن اور جن سنکھیا فاؤنڈیشن کا عہدیدار ہے۔ اس لیے ایسی باتیں کہی جا رہی ہیں کہ علاقے کا ماحول خراب کرنے کے مقصد سے اس نے ایسا کیا۔ کسی ناخوشگوار واقعہ سے بچنے کے لیے فی الحال پولس پورے معاملے کی جانچ کر رہی ہے۔

واضح رہے کہ متھرا کے نندگاؤں واقع نندبابا مندر میں دو مسلم نوجوانوں گزشتہ 29 اکتوبر کو نماز پڑھی تھی، جس کے بعد سے تنازعہ شروع ہو گیا اور مسجدوں میں ہنومان چالیسا پڑھنے کا یہ دوسرا واقعہ اتر پردیش میں پیش آیا ہے۔ مندر میں نماز پڑھنے والے فیصل خان اور چاند محمد کو پولس نے گرفتار کر لیا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ دونوں خدائی خدمت گار تنظیم سے جڑے ہوئے ہیں۔ اس تعلق سے گرفتار فیصل خان کا کہنا ہے کہ وہ کئی دنوں سے سفر پر تھے اور ہندو-مسلم اتحاد کے لیے کام کر رہے تھے۔ اسی سفر کے دوران نندبابا مندر بھی گئے اور جب نماز کا وقت ہوا تو مندر کے لوگوں نے ہی نماز پڑھنے کے لیے جگہ دی، اور پھر انھوں نے کھانا بھی کھلایا۔ اس کے بعد دہلی واپسی ہو گئی، لیکن تین دن بعد مندر میں نماز پڑھنے پر مخالفت شروع ہو گئی۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .