۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
News ID: 371054
1 جولائی 2024 - 12:51
مولانا رضی زیدی پھندیڑوی

حوزہ/ ۲۴ذی الحجہ میں حق کی باطل پر جیت اور باطل کو حق سے شکست   ہوئی ۔جس کے حق اور باطل کا فیصلہ مباہلہ کے ذریعہ سے طے پایا اور حق پہچانا  گیا۔

تحریر: مولانا رضی زیدی پھندیڑوی

حوزہ نیوز ایجنسی ۲۴ذی الحجہ میں حق کی باطل پر جیت اور باطل کو حق سے شکست ہوئی ۔جس کے حق اور باطل کا فیصلہ مباہلہ کے ذریعہ سے طے پایا اور حق پہچانا گیا۔
مباہلہ کے لغوی معنی:اصل مباہلہ کا لفظ اھل کے وزن پر مادہ "بہل" سے آزاد کرنے اور کسی چیز سے قید و بند اٹھانے کے معنی میں ہے۔ اور اسی وجہ سے جب کسی حیوان کو آزاد چھوڑتے ہیں تا کہ اس کا نوزاد بچہ آزادی کے ساتھ اس کا دودھ پی سکے تو اسے "باھل" کہتے ہیں اور دعا میں "ابتھال" تضرع اور خداوند متعال پر کام چھوڑنے کو کہتے ہیں۔
مباہلہ کے اصطلاحی معنی:ایک دوسرے پر نفرین کرنا تا کہ جو باطل پر ہے اس پر اللہ کا غضب نازل ہواور جو حق پر ہے اسے پہچانا جائے، اس طرح حق و باطل کی تشخیص کی جائے۔ مباہلہ کا عمومی مفہوم یہ بیان کیا جاتا ہے: دو مد مقابل افراد آپس میں یوں دعا کریں کہ اگر تم حق پر اور میں باطل ہوں تو اللہ مجھے ہلاک کرے اور اگر میں حق پر اور تم باطل پر ہو تو اللہ تعالی تمہیں ہلاک کرے۔ پھر یہی بات دوسرا فریق بھی کہےاس کو مباہلہ کہتے ہیں۔ (القاموس المحيط والقابوس الوسيط ۔تفسیر صراط صراط الجنان فی تفسیرالقرآن جلد 1، / 491 مفتی محمد قاسم قادری)
صدر اسلام میں نجران ہی وہ تنہا علاقہ تھا جس میں عیسائی رہا کرتے تھے جنہوں نے بت پرستی چھوڑ کر عیسائیت اختیار کرلی تھی۔ جس وقت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمام حکومتی مراکز اور مذہبی رؤسا کو خط بھیج کر اسلام کی دعوت دی تو ایک خط نجران کے عیسائی رہنما پاپ کو بھی تحریر کیا جس میں انھیں اسلام کی دعوت دی۔ پیغمبر اکرم ؐ کے نمائندوں نے یہ خط پاپ کے حوالہ کیا جس کی تحریر کچھ یوں تھی:شروع کرتا ہوں خدائے ابراہیم و یعقوب و اسحاق علیہم السلام کے نام سے،خدا کے رسول محمدؑ کی جانب سے نجران کے پاپ کے نام۔میں ابراہیم و اسحاق و یعقوب علیھم السلام کے خدا کی تعریف بجا لاتا ہوں اور تمہیں بندوں کی پرستش ترک کرکے خدا کی عبادت کرنے کی دعوت دیتا ہوں۔ تمہیں اس بات کی دعوت دیتا ہوں کہ بندوں کی ولایت سے نکل کر خدا کی ولایت میں داخل ہو جاؤ ۔پاپ نے خط پڑھنے کے بعد تمام مذہبی اور غیر مذہبی شخصیات کو مشورہ کے لئے بلایا۔ شرجیل جو مشاورین میں سے تھا اور عقل و درایت میں بہت ہی معروف تھا اس نے مشورہ دیا کہ ہم نے بارہا اپنے رہنماؤں سے یہ سنا ہے کہ ایک دن منصب نبوت جناب اسحاق کی نسل سے نکل کر حضرت اسماعیل کی اولاد میں منتقل ہو جائے گا، بعید نہیں کہ محمؐد،اسماعیل ہی کے فرزندوں میں سے ہوں اور یہ وہی پیغمبر ہوں جن کی بشارت ہمیں دی گئی ہے۔شرجیل کے مشورے کے بعد اس گروہ نے فیصلہ کیا کہ کچھ لوگوں کو نجران کا نمائندہ بنا کر مدینہ بھیجا جائے تاکہ وہ لوگ اس پیغمبر ؐکی حقانیت کی تحقیق کریں۔ چنانچہ نجران کے حاکم ابو حارثہ بن علقمہ کی کارکردگی میں ساٹھ افراد پر مشتمل ایک گروہ مدینہ روانہ کیا گیا۔ اس گروہ کے ساتھ عبدالمسیح و ایھم نامی دو مذہبی رہنما بھی تھے۔
نجران کا یہ قافلہ بڑی شان و شوکت اور فاخرانہ لباس پہنے مدینہ منورہ میں داخل ہوا ۔ میر کارواں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ کے گھر کا پتہ پوچھتا ہے، معلوم ہواکہ پیغمبر اپنی مسجد میں تشریف فرما ہیں ۔کارواں مسجد میں داخل ہوا،پیغمبر نے نجران سے آئے ہوئے افراد کی نسبت بے رخی ظاہر کی ، جو کہ ہر ایک کیلئے سوال بر انگیز ثابت ہوا ۔ ظاہر سی بات ہے کارواں کے لئے بھی ناگوارتھاکہ پہلے دعوت دی اب بے رخی دکھا رہیں ہیں ! آخر کیوں ۔
حضرت علیؑ نے نصاریٰ نجران سے کہا کہ آپ لوگ لباس فاخرہ کے بغیر، سادہ لباس میں آنحضرتؐ کی خدمت میں حاضر ہوں ، آپکا استقبال ہوگا۔اب یہ لوگ سادہ لباس میں حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ اس وقت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ نے ان کاپرجوش استقبال کیا اور انہیں اپنے پاس بٹھایا ۔میر کارواں ابوحارثہ نے گفتگو شروع کی : آنحضرت کا خط موصول ہوا ، مشتاقانہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تاکہ آپ سے گفتگو کریں۔حضرت نے جواب دیا جی ہاں وہ خط میں نے ہی بھیجا ہے اور دوسرے حکام کے نام بھی خط ارسال کرچکا ہوں اور سب سے ایک بات کے سوا کچھ نہیں کہا ہے وہ یہ کہ شرک اور الحاد کو چھوڑ کر خدائے واحد کے فرمان کو قبول کرکے محبت اور توحید کے دین، اسلام کو قبول کریں ۔پادری نےجواب دیا اگر آپ اسلام قبول کرنے کو ایک خدا پر ایمان لانے کو کہتے ہو تو ہم پہلے سے ہی خدا پر ایمان رکھتے ہیں ۔ آنحضرت نے کہا اگر آپ حقیقت میں خدا پر ایمان رکھتے ہو تو عیسیٰ کو کیوں خدا مانتے ہو اور سور کے گوشت کھانے سے کیوں اجتناب نہیں کرتے ۔ پادری نے کہا اس بارے میں ہمارے پاس بہت سارے دلائل ہیں: عیسیٰ مردوں کو زندہ کرتے تھے ، اندھوں کو بینائی عطا کرتے تھے ، پیسان سے مبتلا بیماروں کو شفا بخشتے تھے ۔ آنحضرت نے کہاآپ نے عیسیٰ علیہ السلام کے جن معجزات کو شمار کیا وہ صحیح ہیں لیکن یہ سب خدائے واحد نے انہیں ان اعزازات سے نوازا تھا اس لئے عیسیٰ کی عبادت کرنے کے بجائے اسکے خدا کی عبادت کرنی چاہئے ۔پادری یہ جواب سن کر خاموش ہوگیا۔ سب خاموش تھے پھر کسی اور نے ظاہراًشرحبیل نے اس خاموشی کو توڑا اور کہا :عیسیٰ، خدا کا بیٹا ہے کیونکہ انکی والدہ مریم نے کسی کے ساتھ نکاح کئے بغیر انہیں پیدا کیا ہے ۔اسی دوران اللہ نے اپنے حبیب کو اسکا جواب وحی فرمائی: عیسیٰ کی مثال آدم کے مانند ہے؛کہ اسے(ماں ، باپ کے بغیر)خاک سے پیدا کیا ہے۔ (آل عمران /59)اس کے بعد خاموشی چھا گئی اور سبھی بڑے پادری کو دیکھنے لگے اور وہ خود شرحبیل کے کچھ کہنے کا انتظار کررہا تھا اور خود شرحبیل خاموش سرجھکائے بیٹھا تھا۔آخر کار اس رسوائی سے اپنے آپ کو بچانے کیلئے بہانہ بازی پر اتر آئے اور کہنے لگے ان باتوں سے ہم مطمئن نہیں ہوئےہیں اس لئے ضروری ہے کہ سچ کو ثابت کرنے کے لئے مباہلہ کیا جائے ۔ خدا کی بارگاہ میں دست بہ دعا ہو کے جھوٹے پر عذاب کی درخواست کریں۔ان کا خیال تھا کہ ان باتوں سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ اتفاق نہیں کریں گے ۔ لیکن ان کے ہوش اُڑ گئے جب انہوں نے سنا:اے عیسائیو! اپنے بیٹوں ، خواتین اور اپنے نفوس کو لے کرآؤ ؛ اسکے بعد مباہلہ کرتے ہیں اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت طلب کرتےہیں۔ (آل عمران/61)
اس کےبعدطے یہ پایا کہ کل سورج کے طلوع ہونے کے بعد شہر سے باہر مدینہ کے مشرق میں واقع صحرا میں ملتے ہیں ۔ یہ خبر سارے شہر میں عام ہو گئی ۔ لوگ مباہلہ شروع ہونے سے پہلے ہی اس جگہ پر پہنچ گئے ۔ نجران کے نمائندے آپس میں بات کررہے تھے کہ : اگر آج محمد صلی اللہ علیہ وآلہ اپنے سرداروں اور لشکر کے ساتھ میدان میں حاضر ہوتے ہیں ، تو وہ حق پر نہیں ہیں اور اگر وہ اپنے عزیزوں کو لے آتےہیں تو وہ اپنے دعوے کے سچےہیں۔سب کی نظریں شہر کے دروازے پر ٹکی تھیں ؛ دور سے مبہم سایہ نظر آیا جس سے دیکھنے والوں کی حیرت میں اضافہ ہوا ، جو کچھ دیکھ رہے تھے اسکا تصور بھی نہیں تھا ۔ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ ایک ہاتھ سے حسین علیہ السلام کو آغوش میں لئے ہوئےہیں اور دوسرے ہاتھ سےحسن علیہ السلام کوپکڑ کر آرہےتھے ۔ آنحضرت کے پیچھے پیچھے انکی بیٹی سیدۃ النساء العالمین حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا چل رہی تھیں اور ان سب کے پیچھے آنحضرت کےچچازاد بھائی ، حضرت فاطمہؑ کے شوہر علی ابن ابیطالب علیہما السلام تھے۔صحرا میں ہمہمہ اور ولولے کی صدائیں بلند ہونے لگیں ۔ کوئی کہہ رہا تھا دیکھو ، پیغمبر اپنے عزیزوں کو لےآئے ہیں۔ دوسرا کہہ رہا تھا اپنے دعوے پر ان کو اتنا یقین ہے کہ ان سب کو ساتھ لائے ہیں ۔ اس بیچ بڑے پادری نے کہا : میں تو ان چہروں کو دیکھ رہا ہوں اگر پہاڑ کی طرف اشارہ کریں وہ بھی اپنی جگہ سے ہٹتاہوا نظر آئے گا اگر انہوں نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے تو ہم اسی صحرا میں اللہ کےقہر میں گرفتار ہو جائیں گے اور ہمارا نام صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا ۔ دوسرے نے کہا تو پھراس کا سد باب کیا ہے؟جواب ملا ان کے ساتھ صلح کریں گے اور کہیں گے کہ ہم جزیہ دیں گے تاکہ آپ ہم سے راضی رہیں اور ایسا ہی کیا گیا۔اس طرح حق کی فتح ہوئی اور باطل کو شکست۔ واقعہ مباہلہ پیغمبر ؐ کی حقانیت اور امامت کی تصدیق کا نام ہے۔ یوں پنجتن پاک علیہم السلام کے ذریعہ اسلام کو عیسائیت پر ابدی فتح ہوئی۔اللہ سے دعا ہے پالنے والے حق کی نصرت فرما اور باطل کو سرنگون فرما آمین والحمدللہ رب العالمین۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .