۱۴ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۴ شوال ۱۴۴۵ | May 3, 2024
شیخ محمد حسن صلاح الدین

حوزہ/ واقعہ غدیر اور واقعہ عاشورا کے بعد اسلامی معاشرے میں نہ کبھی غدیری معاشرہ تشکیل پایا اور نہ کبھی عاشورائی معاشرہ تشکیل پاسکا کیونکہ نہ غدیر کو پنپنے دیا گیا اور نہ اہدافِ عاشورا کو معاشرے میں نافذ ہونے دیا گیا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،سکردو/ حوزہ علمیہ جامعۃ النجف سکردو کے زیر اہتمام علامہ اقبال آڈیٹوریم (انچن کیمپس) میں سلسلہ وار علمی مذاکرے کی دوسری نشست "غدیر اور عاشورا: اسباب، اہداف اور تقاضے" کے عنوان سے منعقد ہوئی۔

اس علمی نشست کے شرکائے گفتگو مفسر قرآن شیخ محمد حسن صلاح الدین اور گرانقدر مفکر شیخ سجاد حسین مفتی تھے۔ نظامت کے فرائض شیخ اشرف مظہر نے انجام دیے۔پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن مجید سے ہوا جس کا شرف قاری اکبر رجائی نے پایا۔ متعلم ثقلین افضل نے بارگاہ رسالت میں نذرانہ عقیدت پیش کیا۔

شیخ سجاد حسین مفتی نے خطبہ استقبالیہ میں کہا کہ ہماری محافل و مجالس سے ہٹ کر اس علمی مذاکرے کی ضرورت اس وجہ سے پیش آئی کیونکہ ہمارے یہاں رائج مذہبی پروگراموں میں خطبا صرف اپنے مطالعے اور ذوق کے تحت موضوع کا انتخاب کرکے گفتگو کرتے ہیں لیکن سامعین کے لیے سوال و جواب کے مواقع میسر نہیں آتے۔ غدیر خدا کا پیغام خدا کے رسول کی وساطت سے خدا کے بندوں تک پہنچا کر لوگوں سے علی علیہ السلام کی بیعت لے کر اسے نافذ العمل کرنے کا دن ہے۔ غدیر اور عاشورا دونوں کا ہدف ایک ہی ہے۔ کربلا کوئی حادثہ نہیں تھا بلکہ یہ حجت خدا حضرت امام حسین علیہ السلام کا شعوری اقدام تھا۔ان کے بعد مشہور منقبت خواں مولوی غلام رضا نے بلتی زبان میں قصیدہ پیش کیا۔

بعدازاں سوال و جواب کا سیشن شروع ہوا جس میں سامعین نے کتبی صورت میں اپنے سوالات دونوں علما کی خدمت میں پیش کیے۔ دونوں علمائے کرام نے ان سوالات کے قانع کنندہ جوابات دیے۔ پھر مرکز حفظ القرآن سکردو کے طلبہ نے بہترین صوت و لحن کے ساتھ اسمائے حسنیٰ پیش کیا۔

آخر میں شیخ محمد حسن صلاح الدین نے اپنے دعائیہ کلمات میں کہا کہ واقعہ غدیر اور واقعہ عاشورا کے بعد اسلامی معاشرے میں نہ کبھی غدیری معاشرہ تشکیل پایا اور نہ کبھی عاشورائی معاشرہ تشکیل پاسکا کیونکہ نہ غدیر کو پنپنے دیا گیا اور نہ اہدافِ عاشورا کو معاشرے میں نافذ ہونے دیا گیا۔ غدیری اور عاشورائی معاشرہ اس وقت تشکیل پائے گا جب ہم میں سے ہر ایک فنا فی اللہ ہو جائے۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ امام مہدی علیہ السلام سے عقیدت و محبت کو ہم مقام فکر سے مقام عمل تک لے آئیں۔ عاشورا فقط سینہ زنی اور ماتم داری کا نام نہیں بلکہ پیغام عاشورا پر خود عمل پیرا ہوکر دوسروں تک اس پیغام کو منتقل کرنے کا نام ہے۔

علمائے کرام نے کہا کہ غدیر میرٹ کی بالا دستی کا پیغام ہے جو آج عالم اسلام اور پاکستانی معاشرے کی اہم ترین ضرورت ہے۔

اس کے بعد "قرآنی دستور حیات" کے کتاب خوانی مقابلے میں پوزیشن حاصل کرنے والے طلبہ کے درمیان علمائے کرام نے انعامات تقسیم کیے۔ مدرسہ حفاظ القرآن سکردو کے ہونہار طلبہ نے بہترین انداز میں تواشیح پیش کی اور سید امتیاز حسینی نے دعائے امام زمانہ کے ساتھ اس پروگرام کو اختتام پذیر کیا۔ پروگرام میں اسلام کی سربلندی اور مملکت عزیز پاکستان کی ترقی و حفاظت کے لیے دعا کی گئی ۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .