حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، پیغمبر اکرم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے یوم ولادت با سعادت کے موقع پر رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے منگل کے روز ملک کے عہدیداران، ایران میں متعین اسلامی ملکوں کے سفیروں، وحدت اسلامی کانفرنس کے شرکاء اور مختلف عوامی طبقوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے ملاقات کی۔
اس ملاقات کے دوران انھوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ قرآن مجید سے منہ زور طاقتوں کو خطرہ محسوس ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اس کتاب الہی کی بے حرمتی کے لیے وہ سازشیں رچتی ہیں۔ انھوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ امریکا اور جابر قوتوں سے مقابلے کا راستہ، اسلامی ملکوں کا اتحاد اور بنیادی مسائل میں واحد لائحۂ عمل اختیار کرنا ہے، کہا کہ صیہونی حکومت سے معمول کے تعلقات قائم کرنے کی کوشش ہارے ہوئے گھوڑے پر شرط لگانے کی طرح ہے جو کبھی کامیاب نہیں ہوگي کیونکہ فلسطین کی تحریک آج ہمیشہ سے زیادہ پرجوش اور تازہ دم ہے جبکہ غاصب حکومت جانے والی ہے اور وہ جانکنی کی حالت میں ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس ملاقات میں پیغمبر اکرم اور امام جعفر صادق علیہما السلام کے یوم ولادت کی عظیم اور نورانی عید کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ پیغمبر اکرم کے درخشاں سورج کا انسانیت کی ہر فرد کی گردن پر حق ہے اور سبھی ان کے مقروض ہیں کیونکہ پیغمبر نے ایک ماہر طبیب کی طرح غربت، جہل، ظلم، امتیازی سلوک، نفسانی خواہشات، بے ایمانی، بے مقصدیت، اخلاقی برائيوں اور سماجی مشکلات جیسے تمام اصل آلام کے علاج کا عملی نسخہ انسان کو عطا کیا ہے۔
انھوں نے قرآن مجید کی ایک آيت کا حوالہ دیتے ہوئے پیغمبر کے قرض کی ادائيگي کی راہ، خدا کی راہ میں بھرپور جہاد کرنا بتایا اور کہا کہ جہاد کے معنی صرف ہتھیار سے جہاد نہیں بلکہ جہاد کے مصادیق تمام میدانوں میں ہیں چاہے وہ علم کا میدان ہو، سیاست کا میدان ہو یا معرفت و اخلاق کا میدان ہو اور ان میدانوں میں جہاد کے ذریعے ہم کسی حد تک اس ذات گرامی کا قرض ادا کر سکتے ہیں۔
آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ آج اسلام سے دشمنی، پہلے سے کہیں زیادہ واضح ہے، اس دشمنی کا ایک نمونہ قرآن مجید کی جاہلانہ بے حرمتی کو بتایا اور کہا کہ ایک جاہل احمق بے حرمتی کرتا ہے اور ایک حکومت اس کی حمایت کرتی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ اصل مسئلہ، ظاہری طور پر دکھائي دینے والا اور قرآن کی بے حرمتی کا نہیں ہے۔
انھوں نے کہا کہ اس بے وقوف اور جاہل انسان سے ہمیں کوئي مطلب نہیں ہے جو پس منظر میں موجود عناصر کے اہداف کو پورا کرنے کے لیے اپنے آپ کو سب سے بڑی سزا اور سزائے موت کا مستحق بنا رہا ہے، بلکہ اصل بات اس طرح کے جرائم اور نفرت انگیز کاموں کی منصوبہ بندی کرنے والوں کی ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس طرح کی حرکتوں سے قرآن مجید کو کمزور کرنے کے خیال کو ذلت آمیز اور قرآن کے دشمنوں کے بے نقاب ہونے کا سبب بتایا اور کہا کہ قرآن مجید حکمت، معرفت، انسان سازی اور بیداری کی کتاب ہے اور قرآن سے دشمنی درحقیقت ان اعلی اقدار سے دشمنی ہے۔ البتہ قرآن بری طاقتوں کے لیے خطرہ ہے کیونکہ وہ ظلم کی بھی مذمت کرتا ہے اور ظلم و ستم سہنے والے اس انسان کی بھی مذمت کرتا ہے جو ظلم و ستم سہنا گوارا کر لیتا ہے۔
انھوں نے اظہار خیال کی آزادی جیسے گھسے پٹے، جھوٹے اور غلط دعووں کی آڑ میں قرآن مجید کی بے حرمتی کو اس طرح کے دعوے کرنے والوں کی فضیحت کا سبب بتایا اور کہا کہ کیا ان ملکوں میں، جو اظہار خیال کی آزادی کے بہانے قرآن کی بے حرمتی کی اجازت دیتے ہیں، صیہونی مظاہر پر حملے کی بھی اجازت دی جاتی ہے؟ اس سے زیادہ واضح اور کون سی زبان کے ذریعے ثابت کیا جا سکتا ہے کہ یہ لوگ، ظالم، مجرم اور دنیا کے لٹیرے صیہونیوں کے پٹھو ہیں؟
آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنے خطاب میں ہفتۂ وحدت کی مناسبت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے، اسلامی ممالک کے حکام اور سیاستدانوں اور عالم اسلام کے مفکرین اور موثر افراد کو اس سوال پر غور کرنے کی دعوت دی کہ اسلامی ممالک کے اتحاد کا دشمن کون ہے، مسلمانوں کا اتحاد کن لوگوں کے لیے نقصان دہ ہے اور کن لوگوں کو لوٹ مار اور مداخلت سے روک دیتا ہے؟
انھوں نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ مغربی ایشیا اور شمالی افریقا کے علاقے کے اسلامی ممالک کا اتحاد امریکا کی منہ زوری، چوری اور مداخلت کو روک دے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ آج امریکا خطے کے ممالک کو سیاسی اور معاشی چوٹ پہنچاتا ہے، شام کا تیل چراتا ہے، ظالم، وحشی اور خونخوار داعش کی اپنے کیمپوں میں حفاظت کرتا ہے تاکہ ضرورت پڑنے پر اسے دوبارہ میدان میں لے آئے، ملکوں کے داخلی امور میں مداخلت کرتا ہے لیکن اگر ہم سبھی متحد ہو جائيں اور ایران، عراق، شام، لبنان، سعودی عرب، مصر، اردن اور خلیج فارس کے ساحلی ممالک بنیادی مسائل میں ایک مشترکہ اور واحد لائحۂ عمل اختیار کریں تو منہ زور طاقتیں ان کے داخلی امور اور خارجہ پالیسی میں نہ تو مداخلت کر سکتی ہیں اور نہ ایسا کرنے کی ہمت کر سکتی ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ جیسا کہ ہم نے بارہا کہا ہے، ہم کسی کو بھی جنگ اور فوجی اقدام کی ترغیب نہیں دلاتے اور اس سے اجتناب بھی کرتے ہیں بنابریں ایک ساتھ رہنے اور اتحاد کی دعوت، امریکہ کے جنگ بھڑکانے کے اقدامات کو روکنے کے لیے ہے کیونکہ امریکی جنگ بھڑکاتے ہیں اور خطے میں تمام جنگوں کا اصل سبب، غیر ملکی ہاتھ ہے۔
انھوں نے خطے کے ایک دوسرے مسئلے یعنی صیہونی حکومت کے لگاتار جاری جرائم کے بارے میں کہا کہ آج یہ حکومت نہ صرف اسلامی جمہوریہ ایران سے بلکہ مصر، شام اور عراق جیسے اپنے اطراف کے تمام ممالک کے خلاف کینے اور غیظ سے بھری ہوئي ہے۔ انھوں نے اس کینے اور غصے کا سبب، مختلف اوقات میں ان ممالک کی جانب سے صیہونیوں کے نیل سے فرات تک کے علاقے پر غاصبانہ قبضے کے منصوبے کو ناکام کر دینا بتایا اور کہا کہ صیہونی، کینے اور غصے سے بھرے ہوئے ہیں لیکن قرآن مجید کے بقول، جو کہتا ہے کہ "غصے میں رہو اور اسی غصے میں مر جاؤ" وہ جانکنی کی حالت میں ہے اور خداوند عالم کی مدد سے یہ آیت صیہونی حکومت کے سلسلے میں عملی جامہ پہن رہی ہے۔
آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ کا حتمی نظریہ یہ ہے کہ جو حکومتیں صیہونی حکومت سے تعلقات کو معمول پر لانے کا جوا کھیل رہی ہیں، وہ نقصان اٹھائيں گي کیونکہ اس حکومت کا دم نکل رہا ہے اور وہ حکومتیں ہارنے والے گھوڑے پر شرط لگا رہی ہیں۔
انھوں نے فلسطینی نوجوانوں اور فلسطین کی، غاصبانہ قبضے اور ظلم کے خلاف تحریک کو آج ہمیشہ سے زیادہ بانشاط اور تازہ دم بتایا اور کہا کہ ان شاء اللہ یہ تحریک کامیاب ہوگي اور جیسا کہ امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے اس غاصب حکومت کو کینسر کا پھوڑا بتایا ہے، خود فلسطینی عوام اور پورے علاقے میں استقامتی فورسز کے ہاتھوں اس حکومت کی جڑ کاٹ دی جائے گي۔
انھوں نے اپنے خطاب کے آخر میں امید ظاہر کی کہ امت اسلامی پوری سربلندی اور عزت کے ساتھ خداوند عالم کے لطف و کرم سے اپنی بے مثال قدرتی اور انسانی صلاحیتوں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائے گي۔
اس ملاقات کے آغاز میں صدر مملکت سید ابراہیم رئیسی نے انسان کی صحیح تربیت اور توحید و عدل پر مبنی معاشرے کی تشکیل کے لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مجاہدتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ، دشمنیوں کے مقابلے میں استقامت اور اسی طرح ہدف کی راہ میں ڈٹے رہنے کو ان کی سب سے اہم تعلیمات بتایا اور کہا کہ اتحاد و استقامت اور تکفیر و سازباز کی نفی کے نظریے کے محور پر عالم اسلام کی یکجہتی، نئے اسلامی تمدن کی تشکیل کی نوید سنائے گي۔